خیبر پختون خوا کی سرزمین پر طالبان پراجیکٹ کی پہلی ٹارگٹ کلنگ 2003ء میں جنوبی وزیرستان میں فاروق وزیر نامی شخص کی ہوتی ہے، جو سابق ممبر قومی اسمبلی (ایم این اے) علی وزیر کے بھائی تھے۔ موصوف کا گناہ یہ تھا کہ انہوں نے پختون سرزمین پر طالبان اور غیر ملکی دہشت گردوں کے پراجیکٹ کی مخالفت کی۔
قارئین، علی وزیر کا خاندان احمد زئی وزیر قبیلے کے بااثر اور طاقت ور خاندانوں میں سے ہے۔ نظریاتی لحاظ سے قوم پرست اور دہشت گردی کے مخالف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فاروق وزیر اس فکر کے پہلے شہید تو بنے، مگر آخری نہیں۔ ان کے قتل کے بعد طالبان نے ان کے بچوں کو بھی نہیں بخشا اور سکولوں میں جاجا کر اساتذہ سے علی وزیر کے خاندان کے بچوں کے بارے میں پوچھ گچھ کرتے رہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بچوں نے تعلیم کو خیرباد کہا۔ ان کے گھر کفن تک بھیج دیئے گئے، لیکن پھر بھی وہ اپنی موقف پر ڈٹے رہے۔ اس کے بعد 2005ء میں علی وزیر کے والد ملک مرزا عالم کو دوبیٹوں اور دو بھتیجوں سمیت قتل کردیا گیا۔ جب ان کے جنازے اٹھائے جارہے تھے، تو اس وقت علی وزیر علاقائی ذمے داری کے تحت جیل میں تھے اور انہیں اس حال میں جنازوں میں شرکت کی اجازت دی گئی کہ ان کے ہاتھوں میں ہتکھڑیاں ہوں گی۔ جب وہ گھر میں داخل ہوئے، تو ماں نے بغل گیر ہو کر تسلی دیتے ہوئے کہا کہ بیٹا، کوئی بات نہیں شیر جنم لیتے اور مرتے ہیں۔ کچھ عرصے بعد ہے پھر ان کے ایک اور بھائی اور تین دیگر رشتہ داروں کو ایک ساتھ قتل کیا گیا۔ جس کی وجہ سے علی وزیر کے گھر میں بالغ مردوں کی تعداد کم اور یتیم بچوں اور بیواؤں کی زیادہ ہوگئی۔ ان کو نہ صرف ان سب کی کفالت اور پرورش کرنی تھی بلکہ ہر ایک کے چہرے پر ان کے باپ، بھائیوں اور چچا زاد بیٹوں کی دردناک یادیں اور اپنی بے بسی کندہ تھیں۔ لیکن اس کے باوجود وہ طالبان کی مخالفت سے دست بردار نہیں ہوئے۔ ان کی افرادی اور قبائلی طاقت کو کم زور کرنے کے بعد طالبان نے ان کے معاشی قتل کا فیصلہ کیا۔

علی وزیر کا شمار “پختون تحفظ مومنٹ” کے سربراہ منظور احمد پشتین کے قریبی رفقا میں ہوتا ہے۔
فوٹو: ابدالؔی

ایک طرف خاندان کے سترہ افراد سے جینے کا حق چھینا گیا، تو دوسری طرف یتیموں اور بیواؤں کے منھ سے نوالہ چھیننے کی کوشش کی گئی۔ مقصد شاید یہی تھا کہ خاندان کے زندہ بچ جانے والے افراد کو بھیک مانگنے پر مجبور کرکے ان کی عزت اور وقار کو خاک میں ملا دیا جائے۔ اس لیے انہوں نے پہلا وار جنوبی وزیرستان کے “اعظم ورسک” نامی علاقے میں موجود علی وزیر کے پٹرول پمپ کی مسماری سے کیا۔ جب کلیجہ ٹھنڈا نہیں ہوا، تو علی وزیر کے بقول؛ حملہ آوروں نے پٹرول پمپ کی اینٹیں اکھاڑ کر ان سے ٹوائلٹ بنوایا۔”
جب مشال ریڈیو کے ساتھی شاہین بونیری نے علی وزیر سے پوچھا کہ ٹوائلٹ کیوں بنوایا گیا…؟ تو علی وزیر نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ انہیں کہا گیا کہ یہ منافقین کی عمارت کی اینٹیں ہیں جن کی جگہ غلاظت کی علامت سمجھے جانے والی جگہ میں ہونی چاہیے۔ اب دہشت اور نفرت کی انتہا دیکھیے کہ اینٹوں کو بھی ٹوائلٹ میں چُن چُن کر سزا دی گئی۔ اس کے علاوہ ان کے نو تعمیر شدہ بنگلے کو مسمار کیا گیا اور اعظم ورسک میں ان کے باغ پر زہریلے کیمیائی مواد کا سپرے کرکے فصل کو مکمل طور پر تباہ کیا گیا۔
ستمبر 2016ء میں پولٹیکل ایجنٹ (Political Agent) اور سیکورٹی فورسز نے اجتماعی ذمے داری کے قانون کے تحت “وانا” میں علی وزیر کی 120 دکانوں پر مشتمل مارکیٹ کو بموں سے اڑا کر تباہ کردیا۔ جنوبی وزیرستان میں ان کے خاندان کا افرادی اور معاشی قتل عام کے بعد جب برباد کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں بچا، تو علی وزیر کو آخری ذریعہ معاش سے بھی محروم کرتے ہوئے ڈیرہ اسماعیل خان کے بنوں اڈے میں واقع ان کے ٹرانسپورٹ ٹرمینل کو بھی بند کردیا گیا۔

علی وزیر کی ماں جسمانی طور پر اگرچہ کافی کم زور ہوچکی ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ عزم و ہمت اور استقلال کا استعارہ ہیں۔
فوٹو: ابدالؔی

قارئین، علی وزیر کے بقول، جنوبی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے دوران میں لوگوں کی جان و مال کو نقصان پہنچنے کے بدلے ایک معاہدے کے تحت حکومت نے جو تاوان ادا کیا، اس معاوضے سے بھی انہیں محروم رکھا گیا۔
علی وزیر اپنے ساتھ ہونے والے مظالم کے باوجود مطالبہ یہ ہے کہ انہیں گیس، بجلی، سڑک، سکول نہیں چاہیے بلکہ آئین پاکستان میں زندہ رہنے کی جو ضمانت دی گئی ہے، انہیں وہ حق دی جائے۔ بلکہ مشال ریڈیو کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران میں وہ اس حق میں ترمیم کرتے ہوئے اس حد تک گئے کہ جینے کا جو آئینی حق پنجاب کے کسی شخص کو سو فی صد حاصل ہے، اس میں سے محض بیس فی صد ضمانت انہیں دی جائے۔
______________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: