“پختونستان باچا خان، ولی خان اور اسفندیار ولی خان کا نظریہ نہیں ہے۔ ہم پاکستان کے آئین کو مدِنظر رکھتے ہوئے پختونوں سمیت تمام مظلوم قومیتوں کے لیے باچا خان اور ولی خان کے نظریے اور فکر پر عمل پیرا ہوکر اپنی آواز بلند کریں گے۔ ہم پختونستان نہیں، ہم پاکستان کے اندر رہ کر پختونوں سمیت تمام قومیتوں کو آزاد کرانا چاہتے ہیں۔ ہمارے نظریے کی بنیاد یہ ہے کہ پاکستان کی تمام قومیتیں اپنے وسائل اور نظام پر بااختیار ہیں۔”
قارئین، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے مرکزی صدر ایمل ولی خان کی اس بیان کے تناظر میں اگر دیکھا جائے، تو خان عبدالغفار خان (باچا خان) کا نام ایک طویل جد و جہد کی انتھک کہانی ہے۔ لیکن انہوں نے اپنی پوری زندگی میں ایک دن بھی “آزاد پختونستان” یا کسی اور نام سے پختونوں کےلیے الگ اور آزاد ملک کی بات نہیں کی۔ بلکہ انہوں نے پہلے کوشش کی کہ پختون علاقوں میں سیاست منظم کرکے ان علاقوں کو متحدہ ہندوستان کا مستقل حصہ بنادیں۔ جب انگریزوں نے ہندوستان کو تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا، تو پھر پوری کوشش کی کہ پختون خطے کو پاکستان کی بجائے ہندوستان کے ساتھ ضم کر دے۔ انہوں نے کبھی بھی آزاد پختونستان بنانے کی کوشش کی، انگریز سامراج کے جانے کے بعد اس خطے کو واپس افغانستان کو دلانے یا شامل کرنے کی بات کی اور نہ ہی پاکستان کے ساتھ ملانے کی بات کی۔ باچا خان نے “بنوں جرگے” میں جو مطالبہ کیا تھا، وہ اتنی اہمیت کی حامل نہیں ہے۔ کیوں کہ اُس وقت ان کے پاس بارگیننگ کےلیے کچھ نہیں بچا تھا۔ کیوں کہ کانگریس نے ان کے ساتھ دھوکا کیا تھا۔ کانگریس کو جب تک ضرورت تھی، پختونوں کے ذریعے انگریز کو ڈراتی رہی، اور جونہی اس کا مقصد حاصل ہوا، کانگریس نے باچا خان اور خدائی خدمت گاروں کو اکیلے چھوڑ دیا۔
قارئین، باچا خان کی سیاست کی وجہ سے پاکستان بننے کے بعد پختون مسلم لیگ اور پاکستان دونوں کےلیے مشکوک ہی رہی جس کی وجہ ان کو بہت نقصان اُٹھانا پڑا۔ باچا خان کی کانگریس اور متحدہ ہندوستان کے لیے اتنی قربانیاں تھیں، کہ وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ کانگریس یوں آنکھیں پھیر کر انہیں نظر انداز کردیں گے۔ کیوں کہ گاندھی کے ساتھ اپنی قربت اور کانگریس کےلیے دی گئی قربانیوں نے انہیں کبھی یہ سوچنے ہی نہیں دیا تھا کہ وہ کوئی پلان بی سوچتے۔
انگریز نے مسلم لیگ اس لیے بنائی تھی کہ وہ ان کے مطالبے پر ہندوستان تقسیم کرکے چلے جائیں۔ انگریز کےلیے شمال سرحدی علاقے یعنی (پختون خوا) کی اہمیت پاکستان سے زیادہ تھی۔ تبھی تو وہ پختون خوا کو سرحد کہتے تھے اور سرحد کوئی بھی کسی مخالف شخص کے حوالے نہیں کرتا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد روس کو گھیرنے کےلیے پوری مغربی دنیا نے جو منصوبہ بندی کی تھی، باچا خان کےلیے اس میں کوئی جگہ نہیں تھی، لیکن ان کا سیاسی تدبر ان کو اس بات کا احساس نہیں دلا سکا۔ باچا خان جو تھے وہی تھے، لیکن اگر وہ ہمالیہ بھی ہوتے انہیں ناکام ہونا ہی تھا۔ روس اپنی فوج، ایٹمی اسلحے اور نابغہ مشیروں کے ہوتے ہوئے ہار گیا، تو باچا خان کیا کرسکتے تھے…؟ وہ تاریخ کی غلط طرف کھڑے تھے۔ بلکہ پختون کوئی سو سالوں سے تاریخ کی غلط سمت کھڑے ہیں۔ جرمنی سے فایدہ نہ اُٹھا سکے۔ برطانوی سلطنت سے دشمنی کی، روسیوں سے کوئی فایدہ اٹھانے کی بجائے جنگ کی، امریکیوں سے جاپان اور کوریا جیسا کوئی فایدہ نہ اُٹھا سکے اور اب چین کے بارے میں بھی اپنی ترجیحات طے نہیں کرسکے۔ یہ یا تو ہارنے والوں کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، یا لڑنے مارنے والوں کی صفوں میں کھڑے ہوتے ہیں۔ پاکستان سے سیکھیں جس نے صرف امریکی لڑائی سے تیس ارب ڈالر کا منافع کمایا۔
قارئین، ایمل ولی خان نے درجہ بالا بیان میں جو کہا ہے یہ باتیں مَیں نے چند دنوں پہلے لکھی تھیں۔ لیکن اس پر کچھ دوست ناراض ہوکر مجھے طرح طرح کے طعنے دے رہے تھے۔ آج ایمل ولی خان نے خود اس بات کا اعتراف کرلیا ہے۔
ایمل ولی خان اس تاریخی تسلسل کا امین ہے جو باچا خان سے شروع ہوکر ولی خان، اسفندیار ولی خان اور اب ایمل ولی خان تک پہنچ گیا ہے۔ ایمل ولی خان اپنے خاندان کے بزرگوں کی سیاست اور جد و جہد کے بارے میں ہم سب سے زیادہ جانتے ہیں۔ وہ پارٹی کے سب سے زیادہ ذمے دار پوزیشن پر بیٹھے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے پارٹی (اے این پی) نے کبھی پختونستان کا مطالبہ نہیں کیا ہے، تو آپ ان کی بات ماننے کی بجائے راقم سے سوالات اور شکایات کرتے ہیں۔ اگر آپ نے شکایت یا سوال کرنا ہو، تو ایمل ولی خان سے کرے۔
قارئین، راقم کو باچا خان سے بچپن میں دو دفعہ ملنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی ہے جس میں، مَیں نے باچا خان، پختون تاریخ اور جد و جہد کے بارے میں کافی کچھ پڑھا اور سیکھا ہے۔ اس کے علاوہ مَیں نے اپنے تایا سے ان کے بارے میں سنا ہے۔ کیوں کہ وہ پہلے کانگریس اور بعد میں پارٹی جس نام سے رہی، اس کے سرگرم کارکن رہے تھے۔ دوسرے میرے نانا تھے، جن کا تعلق کانگریس کے دور سے بابا کے ساتھ تھا اور مرتے ہوئے وصیت کی تھی کہ مجھے لال کفن میں دفن کرنا اور قبرستان تک میرے جنازے کے ساتھ پارٹی پرچم لے کر جانا۔
_________________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔