اس وقت مولوی اور پاکستان کی پوزیشن ایک جیسی ہے۔ دونوں کو کہیں نہ کہیں اپنی افادیت ثابت کرنے کے بعد کہیں جاکر اہمیت ملتی ہے۔ پاکستان کو یہ افادیت بین الاقوامی میدان میں ثابت کرنی پڑتی ہے اور مولوی کو پاکستان کے پالیسی سازوں کے سامنے۔ جب تک پاکستان کے اردگرد کوئی بین الاقوامی مسئلہ درپیش نہ ہو، تب تک پاکستان نہ صرف یہ کہ بڑی طاقتوں کی پابندیوں کے گرفت میں ہوتا ہے، بلکہ اس دوران میں اس سے باقاعدہ مخاصمانہ رویہ رکھا جاتا ہے۔ ایوب خان کے چلے جانے اور بڈھ بیر سپائی اڈے کی بندش کے بعد سے بنگلہ دیش کی ظہور تک، امریکا پاکستان کو نہ صرف بحری بیڑے کی آمد کی جھوٹی تسلیاں دیتا رہا، بلکہ صدر کارٹر کے دور میں تو پاکستان پر حملہ کرنے کی باقاعدہ دھمکیاں تک ملتی رہیں۔ جب کہ بھٹو کی حکومت گرانے سے لے کر روس کے افغانستان سے نکلنے تک، پاکستان پھر سب سے زیادہ امداد مالی امداد اور بین الاقوامی فورمز پر اہمیت کا حامل ہوجاتا ہے۔ یہی حالت پھر طالبان کے ظہور اور نائن الیون کے بعد بھی رہی جو “دوحا معاہدے” کے بعد خلیج فارس میں کہیں ڈوب گئی۔ دوسری طرف جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کی بھی یہی حالت رہی جو مذہبی لبادہ اوڑھ کر مفادات کی سیاست کرتی رہیں۔ جماعت اسلامی کی اہمیت سوویت یونین کی شکست بعد ختم ہو گئی ہے، تو جے یو آئی (ف) کا خاتمہ طالبان کی دوبارہ افغانستان آمد، افغان قوم پرستی کی طرف طالبان کی واضح جھکاؤ پاکستان کے اثر سے آزادی اور پختون خوا میں اے این پی کے خاتمے کے بعد ہو چکا ہے۔ مذہب نما سیاست کی جان پختون قوم پرستی کے طوطے میں بند تھی۔ مذہبی سیاست پہلے پاکستان میں پیدا کی گئی اور پھر افغانستان برآمد کی گئی۔
پختون ولی میں مذہب یا مذہبیت کا کوئی سرسری سا ذکر تک نہیں ہے۔ چار عشرے پہلے پختون مذہبی شدت پسند تھے نہ مولوی ان کا سیاسی نمائندہ تھا۔ مذہبی سیاست کی یہ عفریت پختون قوم پرستی کو بیچ و بن سے اکھاڑنے، پختونوں کو دنیا بیزار بنانے اور ان کو سیاسی طور پر کنفیوز کرنے کی خاطر سوشل سائنسز کے کسی اعلا لیبارٹری میں تیار کی گئی تھی۔ بلوچستان میں چونں کہ قوم پرستی کی نئی لہر ابھرنے لگی ہے اس لیے اب اس کا رخ بلوچستان کی طرف کردی گئی ہے، جہاں سے اس نے ایک دو سیٹیں اپنے محسن کے ساتھ وشواس گھات کر کے حاصل کیں اور باقی غیبی مدد کے ذریعے مل گئیں۔
قارئین، جس طرح اے این پی کی مزاحمت پر مبنی سیاست کا خاتمہ ہوا، تو مولوی کی سیاست کی جان نکل گئی۔ اسی طرح اے این پی نے اپنا تاریخی کردار چھوڑ کر جز وقتی مفادات، غلط ترجیحات، مبنی بر سمجھوتا بیانیے، حقائق سے جانا بوجھ کر آنکھیں چرانے، اور “بری امام” کی خوش نودی کی حصول کے برکات کی وجہ سے جو آخری جمع پونجی داؤ پر لگائی، وہ لیڈرشپ کی قلیل عمری اور عقل کل ہونے کے زعم کی وجہ سے ہار گئی ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ اپنی غلطیوں اور کم زوریوں کی ذمہ داری قبول کی جاتی اور نئی لیڈر شپ کےلیے جگہ خالی کی جاتی، اقرار کیا جاتا کہ ہماری ترجیحات مبنی بر حقیقت ہونے کی بجائے مبنی بر خوش نودی تھیں۔ وہ ووٹ نہ ملنے کا بوجھ، پختونوں پر ڈال کر ان کو شرمندہ کر رہے ہیں۔ لیڈر عوام کا اور ڈاکٹر مریض کا نبض شناس ہوتا ہے۔ میں نے پہلے بھی ایک کالم میں انتباہ کیا تھا کہ ادارے کا اثاثہ تاریخ پر مبنی اس کی یاداشت ہوتی ہیں۔ جہاں پر ایک دفعہ کسی کا دادا یا پر دادا گرے کیٹگری میں ڈالا گیا، تو پھر اس کا بیٹا، پوتا اور پڑ پوتا کبھی وائٹ کیٹگری میں نہیں آ سکتا۔
قارئین، 2013ء کی الیکشن کی کام یابی اے این پی کو پختونوں کےلیے کسی خاص کارنامہ کی وجہ سے نہیں ملی تھی، بلکہ اس نے ترقیاتی کام اس حکومت کے دوران میں کیے تھے۔ اس وقت پاکستان کو امریکی دباؤ کے تحت طالبان کے خلاف ہونے والے آپریشن کے لیے پختون خوا میں قربانی کے ایک بکرے کی ضرورت تھی۔ کوئی اور پارٹی ہوتی یا اے این پی، سیاسی دانش کے قلاش پن کا شکار نہ ہوتی، تو اس حالت میں حکومت کبھی نہ لیتی۔ جہاں ایک طرف نہتے سیاسی کارکن اور دوسری طرف بارود کے جیکٹ پہننے والے، زندگی سے بے زار اور جنت کے متلاشی ہوں۔ اس وقت کی بہترین سیاسی حکمت عملی یہ ہونی چاہیے تھی کہ اے این پی اپنی پارٹی اور کارکنان بچا کر ایک طرف ہوجاتی اور حملہ آوروں کے ساتھ اسی طرح صلح کرتی، جس طرح شہباز شریف نے کر لیا تھا۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ اُس وقت جب کبھی کوئی بھولا بسرا حملہ آور پنجاب کی طرف نکل جاتا، تو اپنی صلح کی یاد دہانی کراتے ہوئے شہباز شریف نے کبھی وقت ضائع نہیں کیا۔ جب کہ دوسری طرف عدمِ تشدد کی پیروکاروں کا بیانیہ یہ تھا کہ آپ کی جیکٹیں ختم ہو جائیں گی لیکن ہمارے سینے کم نہیں پڑیں گے۔
حیرانی تو مجھے یہ ہوتی ہے کہ کیا کبھی کسی میٹنگ میں کسی نے بھی اس بیانیے کے خالق سے یہ نہیں پوچھا کہ ہماری یہ جنگ کس مقصد کے لیے اور کیوں ہے…؟ کیا ہم امریکی ہیں جو طالبان کو مارنے آئے ہیں…؟ کیا آرمی چیف پرویز مشرف کا تعلق اے این پی سے ہے…؟ کیا اے این پی کے حکم پر پاکستان آرمی حملے کرتی اور روکتی ہے…؟ کیا الیون کور کا کور کمانڈر اے این پی کا کارکن ہے…؟ اے این پی تو نہتے کارکنان پر مبنی تشدد گریز سیاسی پارٹی ہے ہم کیوں اور کیسے بندوقوں سے مسلح اور بارود سے بھرے ہوئے طالبان سے مقابلہ کر سکتے ہیں…؟ ہم کون سا راستہ اختیار کر کے اس لاحاصل جنگ سے نکل سکتے ہیں جس کو باچا خان اور ولی خان نے دو سپر طاقتوں کی جنگ کہ کر الگ ہونے کی بات کی تھی…؟ نیز یہ کہ اے این پی تو “افغان جہاد” کے دور میں بھی “مجاہدین” کی مخالف تھی، تو پھر اس وقت ان پر مجاہدین حملے کیوں نہیں کرتے تھے…؟ اے این پی آج تک اسی طرح سینہ تانے اور صلح نہ کرنے کے بیانیہ پر قائم ہے اور ساتھ پختونوں کو اپنے گیارہ سو کارکنوں اور لیڈرشپ کی قربانیوں کی یاد دہانی بھی کراتی رہتی ہے۔ جب کہ وہ یہ بھول جاتی ہے کہ اس کے گیارہ سو کارکن بھی پختون تھے اور اس کی دور حکومت میں مرنے والے 80 ہزار دوسرے مرنے والے بھی پختون تھے۔ جن کو ان کی حکومت میں بچانا ان کی ذمے داری تھی۔
اے این پی جس قدر مفاہمت میں جھک سکتی تھی، پختون خوا ملی عوامی پارٹی اس سے کہیں زیادہ مزاحمت میں جتی ہوئی ہے۔ اپنے والد کے انتقال کے پچاس سالہ یادگاری جلسے میں محمود خان اچک زئی نے جمہوری پاکستان زندہ باد اور سیاست میں ملوث جنرل کرنل مردہ باد کے نعرے لگا کر عدم مفاہمت پر کھڑے اپنے روایتی بیانیے سے سر مو انحراف نہ کرتے ہوئے انتخابات میں اترا اور کئی سیٹیں جیتنے کے باوجود پارلیمنٹ میں پختونوں کی نمائندگی سے محروم کر دیا گیا۔ آئین اور جمہوریت کے ساتھ کھڑے ہونے کی سزا کے طور پر 2018ء میں پارلیمنٹ میں جانے سے محروم رکھا گیا، تو پی ڈی ایم کا ساتھ دینے کے علاوہ محمود خان اچک زئی نے حملہ آور اور زخمی دونوں پختونوں کے درمیان غلط فہمیاں ختم کرنے، مفاہمت بنانے، اور پختون خطے میں دیرپا امن کی قیام کے لیے خود کو وقف کر دیا۔ جس کے ثبوت افغانستان کی پختون حکومت کے ساتھ ان کے روابط کی بحالی، افغان ایمبیسی اسلام آباد میں ان کی آمد و رفت، وہاں پر ایمل ولی خان اور دوسرے پختون لیڈروں کو لے جانا اور پھر اس کے بدلے میں اس کی پارٹی کے اندر توڑ پھوڑ کی شکل میں نظر آتے ہیں۔
مختصر یہ کہ ایمل ولی خان کی مفاہمت اور محمود خان کی مزاحمت دونوں مل کر بھی پارلیمانی سیاست میں پختونوں کو ان کا جائز حصہ نہیں دلا سکتی، تو پھر تیسرا راستہ جو بچتا ہے، وہ منظور پشتون کا ہے۔ جن کو آئین، قانون اور انسانی حقوق کی پامالی کی وجہ سے پارلیمانی سیاست پر کوئی اعتماد باقی نہیں رہا۔ میں محمود خان اچک زئی یا ایمل ولی خان کو پہل کرنے کے لیے نہیں کہتا، بلکہ منظور پشتون کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ ایک بار پھر پہل کر کے ایک ایک مشر کے پاس چلے جائیں اور وقت کی نزاکت کے خاطر ایک دفعہ پھر ان کے ساتھ بیٹھ کر مشترکات پر مبنی کوئی متفقہ لائحہ عمل اختیار کرے۔
دوسری جانب سیاسی طور پر مایوس اے این پی کے کارکنان سے ایک دفعہ پھر اپیل کر کے ان کو مزاحمتی سیاست کی طرف متوجہ کریں، تاکہ وقت پڑنے پر وہ اپنی لیڈرشپ کو متبادل بیانیے پر قائل کرنے کی کوشش کریں۔ اسی طرح ماہ رنگ بلوچ کی حمایت کر کے پختون خوا ملی عوامی پارٹی کے مفادات کے بارے میں جو غلط فہمی پیدا ہوئی ہیں، اس کی وضاحت کرتے ہوئے جنوبی پختون خوا کے پختونوں سے اپنے روابط مضبوط کر دیں۔ منظور پشتون سے بہتر کون جانتا ہے کہ اس کے بیانیے کے سب سے زیادہ حامی جنوبی پختون خوا کے پختون اور پختون خوا ملی عوامی پارٹی کے کارکنان ہیں۔
محسن داوڑ پر جان لیوا حملہ اور پارلیمنٹ سے اسے باہر رکھنے کی سرکاری کوشش، علی وزیر اور عالم زیب محسود کی ناکامی نے پی ٹی ایم کے لیے بہت سے در اور دل کھول کر وسیع سپیس تخلیق کر دیا ہے۔ قبائلی اضلاع کے باشندوں بلکہ پورے پختون خطے کے پاس اب منظور پشتین کی مزاحمتی سیاست کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں بچا۔ علی وزیر، عالم زیب محسود اور محسن داوڑ کی “ناکامیاں” بھی یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ پی ٹی ایم سے کسی وجہ سے نکلنے والے ایک حد تک اکامودیٹ کیے جاتے ہیں۔ نیز اس سے تنظیم کو اندرونی طاقت ملی ہے۔
سرکاری پراپیگنڈے کا شکار ہو کر اپنے مشن سے خلوص کے اظہار کی خاطر خواہ مخواہ جیل کی صعوبتیں جھیلنا اور عوام سے دور رہنا مبنی بر دانش حکمت عملی نہیں ہے۔ حکمت اور دانش یہ ہے کہ جو سیاسی سپیس پیدا کی گئی ہے اس کو استعمال کرتے ہوئے ٹھنڈے دماغ سے گلی گلی، شہر شہر، قریہ قریہ جاکر عوام میں آئین اور قانون کی بالادستی کی خاطر سیاسی بیداری، عصری شعور، حقوق کی اہمیت، متبادل بیانیہ اور دوسرے مظلوموں کے ساتھ رابطے کی اہمیت پر کام کریں۔ دروازے چرچرائے، تو ضروری نہیں کہ وہ بند ہو رہے ہیں۔ پرانے دروازے کھلتے ہیں، تو تب بھی چرچراہٹ کی آواز آتی ہے۔
________________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: