مستقبل قریب میں پختون قوم پرست سیاسی جماعت عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) اپنا رول یکسر تبدیل کردے گی۔ یوں وہ علاقائی، قوم پرست اور پختون حقوق کےلیے جد و جہد کرنے والی جماعت کے بجائے قومی سیاست کرے گی۔ جس طرح ایک وقت میں رہبرِ تحریک خان عبدالولی خان کیا کرتے تھے۔ اس کی بڑی وجہ صوبے میں اس کی انتخاباتی عدم پذیرائی اور تحریکِ انصاف کی مظبوط موجودگی ہے۔
قارئین، کچھ عرصہ پہلے سندھ کے مختلف شہروں میں سندھی قوم پرستوں کی طرف سے پختون دکان داروں اور روزگار کرنے والوں کے خلاف اچانک ایک پُرتشدد تحریک شروع ہوگئی تھی، جو اے این پی کےلیے ایسا موقع فراہم کرنے کی کوشش تھی، جس کو اگر وہ قابو کرلیتی، تو سندھ میں اس کو اچھی خاصی پوزیشن مل جاتی۔ اس پر مَیں نے اُس وقت لکھا تھا (ڈھونڈ لے یہاں موجود ہوگا) کہ اگر اے این پی آگے بڑھ کر اس لہر کو قابو کرکے لیڈ کرے، تو سندھ اور خصوصاً کراچی حیدر آباد کے پختونوں کی ووٹ کے ذریعے وہاں کی اسمبلی میں پہنچ سکتی ہے۔ لیکن اُس وقت این پی نے ویسا نہیں کیا۔ شاید اسے پختون خوا کو چھوڑنے کا قلق تھا اور جیتنے کا آسرا تھا۔ لیکن اس موقع کو ضائع کرکے اب اسے احساس ہوگیا ہے کہ کراچی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر وہ اچھی پارلیمانی پوزیشن حاصل کرسکتی ہے۔ وہاں کی پختون آبادی پر پی ٹی ایم اور پختون خوا ملی عوامی پارٹی کے بڑھتے ہوئے اثرات اسٹیبلشمنٹ کا کھیل بگاڑنے والی ہے جس سے مطلوبہ سیاسی توازن اسی طرح خراب ہوجائی گی جس طرح پی ٹی آئی نے پختون خوا میں بگاڑ کر رکھ دی ہے۔
قارئین، مدت ہوئی ہے کہ عوامی نیشنل پارٹی نے ملکی سیاست میں وہ کردار ادا نہیں کیا، جو اس کی اصل رقیب پختون خوا ملی عوامی پارٹی ادا کر رہی ہے۔ نواز شریف کی مزاحمتی سیاست ہو یا اب عمران خان کی مزاحمتی تحریک، محمود خان اچک زئی ہر جگہ قومی سطح پر مرکزی حیثیت میں نمایاں نظر آتے ہیں۔
حالیہ بلوچستان الیکشن میں اے این پی اور پختون خوا ملی عوامی پارٹی آپس میں دست و گریباں رہیں۔ اس سے پہلے بلوچستان کی پختون سیاست اور پختون خوا کی پختون سیاست بظاہر دونوں قوم پرست جماعتوں میں کسی غیر مرئی سمجھوتے کے تحت تقسیم شدہ نظر آتی تھی۔ لیکن حالیہ الیکشن میں اے این پی نے بلوچستان جاکر پختون خوا ملی عوامی پارٹی کے ساتھ وہ غیر مرئی سمجھوتا توڑ دیا ہے۔ اب مرکز میں اس اتحاد کی ساتھی بن کر جو مرکز میں طاقت ور کے ساتھ حکومت بنا کر کھڑی ہے، اور جس کے مقابل محمود خان اچک زئی مرکزی چیئرمین ہے، براہِ راست تصادم کی صورت حال پر آ جائے گی۔ یہ تصادم اُس وقت بھی بلکل واضح ہوگئی تھی جب اے این پی نے صدارتی انتخابات میں اپنے پختون بھائی کو چھوڑ کر اٹھارویں ترمیم کی شکر گزاری کی آڑ میں اپنا ووٹ آصف علی زرداری صاحب کو دیا تھا۔
اب اہم سوال یہ ہے کہ کیا پختون خوا ملی عوامی پارٹی، پختون خوا میں اسی طرح انٹری دے گی جس طرح اے این پی نے بلوچستان کی سیاست میں دی ہے…؟
ویسے بھی پختون خوا ملی عوامی پارٹی کا نام پڑھ کر نہیں لگتا کہ اس کا تعلق بلوچستان سے ہے کیوں کہ پختون خوا کا لفظ اس کے نام کا حصہ ہے، اور یہی حالت عوامی نیشنل پارٹی کا ہے۔ اس کے نام میں بھی قوم، قوم پرستی اور پختون یا پختون خوا کےلیے کوئی نمائندہ لفظ موجود نہیں۔
راقم نوجواں ایمل ولی خان کو مستقبل میں مرکز کی سیاست کرتے ہوئے ایک مرکزی اثاثہ سمجھتے ہیں۔ وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر اور طاقت وروں کے قریب ہوکر پختونوں اور پختون خوا کے مسائل حل کرنے میں مثبت اور بہتر کردار ادا کریں گے، انشاء اللہ
_____________________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: