راقم کو دنیائے جہاں میں جو ممالک سب سے زیادہ عزیز ہیں، ان میں متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب سرِفہرست ہیں۔ جب کہ امریکا اور کنیڈا دوسری نمبر پر ہے۔
قارئین، یو اے ای اور سعودی عرب ہمارے لوگوں کو گھر بیٹھے وزٹ اور ورک ویزہ دیتے ہیں۔ اگر آپ وہاں جاتے ہیں، تو کام بھی دیتا ہے۔ جب کہ یورپ، امریکا اور کینیڈا ویزہ دینے سے پہلے آپ کو اتنی لمبے اور طویل پراسز سے گزارے گا کہ بندہ احساس کمتری کا شکار ہوتا ہے۔ باوجود اس کے کہ آپ لاکھوں روپے لگا کر کئی سال انتظار کرکے بھی آپ کی درخواست مسترد ہو سکتی ہے۔
قارئین، اس وقت متحدہ عرب امارات ایک جدید، امیر اور ایک خوب صورت ملک ہے۔ مملکتِ خداداد کے ڈھیر سارے غریب اور مڈل کلاس لوگ جب بھی چاہتے ہیں، تو با آسانی دبئی جاسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ متحدہ عرب امارات نے ہمارے لاکھوں لوگوں کو روزگار بھی دیا ہے۔ ہم پاکستانی تو دبئی یا سعودی عرب کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں۔ وہاں کی حکومت، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور عوام سب کے سب پاکستانیوں کے ساتھ بہت تعاون کرتے ہیں۔ دبئی کے سڑکوں پر عرب کم جب کہ پاکستانی زیادہ نظر آتے ہیں۔
قارئین، یو اے ای کی معیشت کا دار و مدار مختلف ذرائع پر ہیں۔ جن میں پیٹرولیم اور سیاحت دو بڑے صنعتیں ہیں۔ اس کے علاوہ سیمنٹ، المونیم، ٹیکسٹائل، ماہی گیری، گولڈ، اور کنسٹرکشن وغیرہ بھی شامل ہیں۔
متحدہ عرب امارات نے کروڈ ائل پر اپنا انحصار کم کردیا ہے۔ اس وقت یو اے ای کی معیشت میں کروڈ آئل کا حصہ 25 فی صد سے بھی کم ہے۔ اگر کسی بندے کا یہ خیال ہے کہ یو اے ای حکومت پیٹرولیم سے پیسا کما کر عیاشیاں کرتے ہیں، تو لوگوں کا یہ خیال غلط ہے۔ کیوں کہ یو اے ای کے حکم ران محنت، لگن اور ایماں داری سے اپنا معیشت مستحکم کررہے ہیں۔ کیوں کہ وہ اپنی جنم بھومی سے محبت کرتے ہیں۔ اس ریگستان سے وہ لوگ اربوں ڈالرز کما رہے ہیں۔ حالاں کہ اگر یہی ریگستان پاکستان کے ساتھ ہوتا، تو آج اس کی حالت صحرائے تھر جیسی ہی ہوتی۔ لیکن عرب حکم ران، سیاحت اور دوسرے انڈسٹریز سے اربوں ڈالرز کما رہے ہیں۔ جب کہ یو اے ای کی نان آئل برآمدات درآمدات سے بہت زیادہ ہے۔
قارئین، برسرِ آمدم، ہم پاکستانی ایسے احسان فراموش قوم ہے کہ جس تالی میں کھاتے ہیں، اس میں چھید کرتے ہیں۔ کیوں کہ ہمارا خیال ہے کہ متحدہ عرب امارات کو خدا نے امیر بنایا ہے۔ لیکن اب وہ لوگ عیاشی کرکے فحاشی کو فروف دیتا ہے، ہندوستان کے ساتھ تجارت کرتا ہے، ہندوؤں کے لیے مندر بناتا ہے، اللہ تعالا کے نافرمان ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اسی لیے جو بارش ہوئی ہے یہ عرب اور ان کی حکم رانوں پر خدا کا عذاب ہے۔ اگر آپ کو فرصت ملے اور تھوڑی دیر کےلیے پاکستانی فیس بُک پیجز دیکھ لیں، تو اندازہ ہوگا۔ حتیٰ کہ مساجد اور منبر سے علما کے بیانات آرہے ہیں کہ مندر بنانے کی وجہ سے یو اے ای پر عذاب آیا ہے۔ جب کہ وہاں رہنے والے پاکستانی مسافر بھی کسی سے کم نہیں ہے۔ وہ بھی اس بارش کو عذابِ الٰہی قرار دے رہے ہیں۔
قارئین، جب 2005ء میں پاکستان میں ایک ہول ناک زلزلہ آیا اور 2010ء میں سیلاب آیا، تو متحدہ عرب امارات کے عوام نے کروڑوں ریال کے زکوٰۃ و صدقات پاکستان بھیجے۔ لیکن یہ نہیں کہا کہ پاکستان پر فحاشی کی وجہ سے یا مندر کی وجہ سے عذاب آیا ہے۔
اگر عرب پاکستانیوں کے ان حرکات اور ان کی اس منفی سوچ سے آگاہ ہو جائے، تو راقم کو پکا یقین ہے کہ وہ مزید ہم پاکستانیوں کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھیں گے۔
لہٰذا موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے آفات کہیں بھی اور کسی بھی وقت آسکتی ہے۔ لیکن ہماری پاکستانیوں کا رویہ، منفی سوچ اور لاشعوری شاید ہمارے لیے خطرہ ثابت ہو جائے۔
_________________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔