گذشتہ دنوں جب سویڈن میں قرآنِ کریم جلانے کا اندوہناک واقعہ پیش آیا، تو تمام مسلم ممالک سے یکساں مذمتی بیانات سامنے آئے۔ اسی طرح عوام نے سڑکوں اور حکومتوں نے سفارتی سطح پر اپنا احتجاج ریکارڈ کیا۔
اس موقع پر پاکستان میں شاید ہی کوئی شہر ایسا بچا ہو جہاں اس واقعے کے خلاف احتجاج نہ ہوا ہو اور مذہبی حلقے اس میں پیش پیش تھے۔ یہ ردِ عمل عین فطری اور درست تھا کیوں کہ کسی کو بھی یہ اجازت نہیں کہ وہ کسی بھی مذہبی کتاب، ہستی یا عبادت گاہ کی بے حرمتی کرے۔ یہ واقعی غیر اخلاقی اور غیر انسانی عمل ہے۔ لیکن حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ انہی علماء اور لوگوں کا ایمانی جذبہ پھر کہاں غائب ہوجاتا ہے جب پختون خوا میں مسجد سمیت قرآن شہید کردیے جاتے ہیں … جب اللہ کے گھر کو زمین بوس اور بارود کی نظر کیا جاتا ہے … تب ان کے جذبات مجروح کیوں نہیں ہوتے … ایسا ردِ عمل کیوں نہیں آتا … تب ریاست اور میڈیا کیوں خاموش رہتی ہیں … تب کیوں لوگ اس بے حرمتی کے خلاف سڑکوں پر نہیں نکلتے اور تب مسجد کے منبر کیوں خاموش ہوجاتے ہیں…؟
قارئین، ابھی کل پرسوں ضلع خیبر کے “علی مسجد” کو ایک خود کش حملے میں شہید کیا گیا۔ مذہبی سیاسی جماعتوں کے حکم ران جو کچھ دن پہلے سویڈن کو آنکھیں دکھا رہے تھے، نے اس پر کچھ بولنے کی جسارت نہیں کی۔
قوم پرست راہ نماؤں کے علاوہ کسی نے مذمت اور دوبارہ سر اُٹھاتی ہوئی دہشت گردی پر ریاست سے سوال کی زحمت تک گوارا نہیں کی، آخر کیوں … کیا نعوذ بااللہ پختون سرزمین پر آباد مسجدیں کافر ہیں … کیا پختون خوا میں رایج قرآنِ پاک میں کوئی کمی ہے … کیا ہمیں انسانوں میں شمار نہیں کیا جاتا … کیا ہمارے کوئی حقوق نہیں ہیں…؟
افسوس کی بات ہے کہ میلوں دور سویڈن کے واقعے پر ہم غل غپاڑا مچا کر اپنے غم و غصے کا اظہار کرتے ہیں۔ لیکن اپنے ہی ملک میں اس سے کئی زیادہ سفاک عمل پر خاموش رہتے ہیں۔ جس میں نہ صرف مقدس کتاب اور جگہ کی پامالی ہوتی ہے بلکہ انسانوں کو بھی لقمہ اجل بنایا جاتا ہے اور اسی طرح انسانیت کا بھی جنازہ نکالا جاتا ہے۔
دوسری افسوس ناک بات یہ ہے کہ ایسی دہشت گردی مذہب کے نام پر ہوتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اسلام اس کی اجازت دیتا ہے کہ نہتے لوگوں کو مارا جائے…؟ مسجدوں کو مسمار کیا جائے…؟ قرآن کی بے حرمتی کی جائے…؟ ظاہر ہے اسلام خود اس کی اجازت نہیں دیتا۔ اگر ایسا ہے، تو پھر علماء سامنے کیوں نہیں آتے…؟ کیا اس ظلمِ عظیم پر خاموشی ایک طرح سے منافقت نہیں…؟ اپنی ہی دین اور لوگوں سے غداری نہیں…؟ الخاموشی نیم رضا کے مصداق تو ہمارے علماء کا کردار پختون خوا میں جاری دہشت گردی اور بربریت کو جایز اور روا سمجھنے والا ہے۔
پختون خوا میں ہشت گردی پھر سر اُٹھا رہی ہے یا دہشت گردوں کو پھر کسی مذموم مقاصد کے لیے منظم کیا جارہا ہے۔ کچھ ہی دنوں میں ایسے کئی واقعات پیش آئے جس میں مذکورہ  مسجد کا واقعہ بھی شامل ہے۔ جب کہ پاکستانی میڈیا اور سیاست دانوں کے توجیحات ہی کچھ الگ ہیں۔
نو مئی میں ایک کور کمانڈر کے گھر کو توڑنے پر ہزاروں لوگوں کو گرفتار کیا گیا، اوپر سے نیچے تک قانون نافذ کرنے والے ادارے بیک جنبشِ قلم حرکت میں آگئے۔ لیکن المیہ دیکھیے کہ یہاں پر تھانوں پر خود کش حملے کیے گئے اور اب اس مسجد کو مسمار کیا گیا لیکن کسی قسم کی ویسے کارروائی اور سنجیدگی ریاست کے طرف سے دیکھنے میں نہیں آئی۔ یعنی پاکستان میں کور کمانڈر کا گھر خدا کے گھر اور بندوں سے زیادہ افضل ہے خاص کر پختونوں سے!
اس صورتِ حال میں پچھلی حکومت بھی برابر کی شریک ہے، جس نے شر پسندوں کو افغانستان سے یہاں آنے اور بسنے کی اجازت دی۔ موجودہ حکومت بھی اس لحاظ سے سنجیدہ نہیں۔ پھر ظاہر ہے لوگوں میں خدشہ پیدا ہوگا کہ آپ از خود تو ہمارے قتلِ عام میں شریک تو نہیں…!
مذہب کا ٹھیکہ لینے والوں کو بھی اپنے گربیان میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔ اگر آپ مذہب کے نام پر جاری اس بربریت، مساجد کی پامالی اور انسانوں کی تذلیل پر خاموش ہیں، تب آپ بھی انہی لوگوں کی ذہنیت میں بلا واسطہ طور پر شامل ہیں جو مذہب کے نام پر شر اور فساد پھیلاتے ہیں۔ پھر آپ بھی انہی میں سے ہیں۔ کیوں کہ ظلم پر خاموشی ظالم کا ساتھ دینے کے برابر ہے۔
____________________________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شائع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: