پشتو موسیقی میں شہنشاہِ غزل کے نام سے پہچانے جانے والے خیال محمد خان نے قبیلہ آفریدی کے ملک دین خیل میں 22 ستمبر 1946ء کو وادئ تیراہ کے گاؤں چورہ میں نامور موسیقار اور ہارمونیم کے استاد سپین گل کے گھر جنم لیا ۔
آپ کا بڑا بھائی سیف الملوک ساٹھ کی دہائی میں ایک نامی گرامی گلوکار ہوگزرے ہیں۔ خیال محمد خود بھی ہارمونیم اور گٹار کے ماہر استاد ہیں۔ آپ نے بہ یک وقت ایک بہترین موسیقار، کمپوزر اور انسانی حقوق کے سفیر کے طور پر کام کیا ہیں اور 1974ء کو” درہ خیبر” نامی پشتو فلم میں اپنی اداکاری کے جلوے دکھائے ہیں۔
جس وقت ان کا پہلا گانا ’’بیا می د نوی زوانئی ھغہ دوارن دے‘‘ پروڈیوسر رشید علی خان نے ریکاڈ کرایا، تو اس وقت ان کی عمر لگ بھگ آٹھ سال تھی۔ کم عمر ہونے کی وجہ سے آواز کافی باریک تھی، لیکن چند ہی سالوں میں ان کی آواز میں پختگی پیدا ہوئی اور باقاعدہ طور پر ریڈیو پاکستان پشاور سے ایک فن کار کے حیثیت سے کام کا آغاز کیا۔
خیال محمد غزل کے گیتوں کو روایتی انداز میں پیش کرتے ہیں۔ گیت میں آپ ایسے کلام کا انتخاب کرتے ہیں جو عام طور پر اداسی کے ساتھ صوفیانہ، رومانیت اور فلسفہ کو یکجا کرتے ہیں۔
لفظونہ ڈاٹ کام کے مطابق استاد خیال محمد اپنی موسیقی کی شروعات کے بارے میں کچھ یوں کہتے ہیں “ریڈیو میں گانا ریکاڈ کرانا میرے لیے کسی خواب سےکم نہ تھا۔ گھر میں والد صاحب کا ایک پرانا ریڈیو سیٹ تھا، جس پر ہم موسیقی سنتے، تو دل میں یہ آرزو پیدا ہوتی کہ کاش! ہماری آواز میں بھی کوئی گانا ریڈیو سے نشر ہوجائے۔ گھر میں تو ویسے بھی موسیقی کا ماحول تھا۔ میرے والد اور ماموں رحمان گل جو کہ ہدایت اللہ کے اُستا د تھے، دونوں مستقل موسیقی سے جڑے ہوئے تھے۔ یہ موسیقی کا وہ دور تھا جس میں کلاسیکل گائیگی کم اور فوک لور زیادہ سنی جاتی تھی۔ میرا ماموں ٹپہ، چاربیتہ، نیمکئی اور بدلے (یہ تمام پشتو شاعری کی اصناف ہیں جو کسی اور زبان کے ادب میں سننے کو نہیں ملتیں) گاتے۔ چوں کہ ہمارا آبائی علاقہ تیراہ تھا، وہاں کے مقامی لوگ فوک لور بہت پسند کرتے تھے۔ اس وقت میں چھوٹا تھا، لیکن تھوڑا بہت یاد ہے کہ تقسیمِ ہند سے پہلے ہمارے بزرگ گائیگی کےلیے دہلی اور دوسرے شہروں میں جاتے، اور وہاں سے ایک خاص قسم کی ٹوپی تحفتاً ساتھ لایا کرتے۔ جہاں تک ریڈیو پاکستان آنے کا سوال ہے، تو میں اپنے بڑے بھائی سیف الملوک کے ساتھ گیا تھا، جو خود وہاں پر گانا ریکارڈ کرنے جایا کرتے تھے۔ ہم وہاں پر سٹوڈیو گئے اور دیکھا کہ موسیقی کے بہت بڑے آلات اور ریکاڈنگ کی اچھی سہولیات موجود ہیں۔ میں ذہنی دباؤ کا شکار ہوگیا کہ موسیقی کے اتنے بڑے اُستادوں کے سامنے کیسے گانا گاؤں گا، لیکن میوزک پروڈیوسر رشید علی دہقان صاحب جو شمالی وزیرستان کے داوڑ قبیلے سے تھے، نے میرا پہلا گانا ’’بیا می د نوی زوانئی ھغہ دوارن دے‘‘ ریکارڈ کرایا۔”
قارئین! خیال محمد کو اللہ تعالا نے ایسی آواز بخشی ہے کہ پشتو موسیقی میں اُس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ جب 1960ء کو پشتو موسیقی کا ایک نیا دور شروع ہوا، تو رفیق شنواری اور ماہ جبیں قزل باش جیسے لوگوں نے پشتو موسیقی میں قدم رکھا، تو دوسری طرف خیال محمد صاحب نے پشتو شاعری کی تمام اصناف میں اپنی آواز کا جادو جگایا اور غزل گائیگی کے ساتھ تو بھرپور انصاف کرگئے، جس کی وجہ سے اُن کوشہنشاہِ غزل کا خطاب ملا۔ ریڈیو پاکستان کے سابق پروڈیوسر اور شاعر ارباب عبدالودود نے خیال محمد کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ “جہاں پشتو غزل کی بات ہوگی، وہاں کسی نہ کسی جگہ خیال کا نام ضرور آئے گا۔ شروع میں خیال سے ریڈیو میں فوک لور ریکاڈ کروایا گیا، لیکن وقت کے ساتھ جب ان کی آواز میں دم خم  پیدا ہوا، تو دہقان اور مَیں نے خیال سے غزلیں ریکاڈ کروائیں، جن میں کچھ بابائے غزل امیر حمزہ خان شنواری اور کچھ میرےاپنے کلام شامل تھے۔ وہ سب نہ صرف اپنے وقت میں بلکہ آج تک پشتو موسیقی میں کسی جادو سے کم نہیں۔”
اُستاد رفیق شنواری کی موسیقی میں ارباب عبدلودود کا ایک کلام جو خیال محمد نے گایا ’’اوس دی یادونہ افسانے خکاری‘‘ اب بھی پشتو موسیقی کا ایک اہم باب سمجھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ خیال نے صوفی شاعر رحمان بابا، خوشحال خان خٹک، امیر حمزہ خان شنواری، شمس الزمان شمس، خاطر آفریدی، امیر غلام محمد صادق، ڈاکٹر محمد اعظم اعظم، ساحر آفریدی اور فدا مطہر کا کلام گا کر اَمر کیا۔ خیال نے پشتو فلموں کےلیے بھی لاتعداد گانے ریکاڈ کرائے۔ اُس زمانے میں فلم کی کامیابی کا انحصار خیال کی جادوائی آواز پر ہوتا تھا۔ مشتے نمونہ از خروارے کے مصدق 1971ء میں بننے والی پشتو فلم ’’درۂ خیبر‘‘ کےلیے خیال محمد نے پہلا گانا ’’مونگ یو د خیبر زلمی‘‘ ریکاڈ کروایا۔ یہ کلام یونس قیاس نے لکھا تھا جو تقریباً تمام پشتونوں کوآج بھی یاد ہے اور پشتو موسیقی میں کلاسیکی گیت کی حیثیت رکھتی ہے۔
خیال محمد آفریدی نے دیدن، خانہ بدوش، ارمان، دہقان، سپوگمئی، باز او شہباز، انصاف، میرنے ورور، اُوربل، احسان، د ٹیکسی ڈرائیور، جرم او سزا اور ضدی جیسی فلموں کےلیے گانے ریکارڈ کرائے تھے۔ اس دور کو پشتو فلم انڈسٹری کا معیاری اورسنہری دور سمجھا جاتا ہے۔

خیال محمد صدارتی ایوارڈ برائے حسنِ کارکردگی وصول کرتے ہوئے

بحیثیت میوزک پروڈیوسر اور پشتو موسیقی پر کتاب کے خالق، لائق زادہ لائق کا کہنا ہے کہ “خیال کا مقام پشتو موسیقی میں بہت اعلا ہے۔ بہت کم لوگ اس مقام تک پہنچتے ہیں۔ موصوف مزید بتاتےہیں کہ خیال کی زندگی پر روحانی اثر زیادہ دکھائی دیتا ہے، جس کی بنیادی وجہ اُن کے روحانی پیر ستار شاہ باچا کے دربار میں ہونے والی قوالی اور وہاں کا مذہبی ماحول تھا۔ ’’باچا جی کے دربار میں قوالی کی تقریب ہوا کرتی تھی۔ پشتو کے دوسرے فن کاروں کے ساتھ خیال کا بڑا بھائی سیف الملوک باقاعدگی سے اس میں شرکت کرتے تھے۔ وہ بعد میں خیال کو بھی ساتھ لے جاتے۔ اس سلسلہ نے آگے خیال کو شہنشاہِ غزل کے مقام تک پہنچایا۔ انہوں نے پچاس سال سے زیادہ کا عرصہ موسیقی کی خدمت میں گزارا۔ کئی سالوں کی بیماری کی وجہ سے خیال انتہائی مشکل زندگی گزار رہے ہیں۔ اس کے باوجود ان کے چاہنے والوں میں کمی دیکھنے کو نہیں ملی۔”
خیال محمد نے پشتو زبان کے دیگر نامور گلوکاروں کے ساتھ بھی گانے گائے ہیں جن میں گلنار بیگم، کشور سلطان، شکیلہ ناز اور ماہ جبیں قزل باش وغیرہ جیسے قابل ذکر موسیقار شامل ہیں۔ ان کی البمز میں قرارہ راشہ، زڑگے، لیونئی مینہ، پلوشے، رنگینہ تحفہ، اور دے مینہ اور دے اور سوی داغونہ وغیرہ شامل ہیں۔ آپ کے صاحب زادوں میں انور خیال، وصال خیال اور شہزاد خیال نے آپ کے فن کو زندہ رکھا ہوا ہے۔
خیال محمد کی پشتو موسیقی کےلیے خدمات کے اعتراف میں حکومت نے ان کو پرائیڈ آف پرفارمنس صدارتی ایوارڈ 1980ء، قومی فلم ایوارڈ، دو نیشنل ایوارڈز اور پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن کی طرف سے گولڈ میڈل سے نوازا ہیں۔ اپریل 2009ء کو وزیر اعلا امیر حیدر خان ہوتی نے صوبائی حکومت کی جانب سے خیال محمد کو پشتو موسیقی کی خدمات کے اعتراف میں دس لاکھ روپے کا چیک دیا تھا۔ نومبر 2016ء نشتر ہال پشاور میں افغان صدر اشرف غنی کی طرف سے “میر باچا خان” میڈل سے بھی نوازا گیا ۔ اللہ تعالا خیال محمد کو لمبی زندگی اور اچھی صحت عطا فرمائے، آمین!
___________________________________
محترم قارئین، توجہ فرمائیں!
اس مضمون میں شامل زیادہ تر معلومات لفظونہ ڈاٹ کام اور وکی پیڈیا سے حاصل کی گئی ہے۔
شیئرکریں: