قارئین، ہر سال 21 فروری کو دنیا بھر میں “مادری زبانوں” کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے، لیکن بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ اس کی ابتدا کتنی خونی ہے…؟
25 فروری 1948ء کو پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے اُردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دیا۔ وزیرِ اعظم نواب زادہ لیاقت علی خان نے کہا کہ صرف اُردو ہی مغربی (موجودہ پاکستان) اور مشرقی پاکستان (اَب بنگلہ دیش) کو متحد رکھ سکتی ہے، لہٰذا اُردو اور صرف اُردو ہی پاکستان کی سرکاری زبان ہوگی۔
21 مارچ 1948ء کو بانیِ پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح نے ڈھاکا میں جلسۂ عام میں اعلان کرتے ہوئے کہا کہ “پاکستان کی سرکاری زبان اُردو کے سوا کوئی اور نہیں ہو گی۔” اس پر قرار دادِ پاکستان پیش کرنے والے شیرِ بنگال مولوی فضل الحق نے بیان دیا کہ “گورنر جنرل کا کام یہ نہیں کہ وہ بتائے کہ ملک کی سرکاری زبان کون سی ہوگی، یہ فیصلہ عوام نے کرنا ہے۔ اس کے لیے ریفرنڈم کرایا جائے۔”
24 مارچ 1948ء کو قائدِ اعظم محمد علی جناح نے ڈھاکا یونی ورسٹی کے کانووکیشن میں اپنے خطاب میں 21 مارچ والے موقف کا اعادہ کیا۔ اس تقریر پر طلبہ نے اتنا ہنگامہ بپا کیا کہ قائدِ اعظم محمد علی جناح کو اپنی تقریر مکمل کیے بغیر ہال سے جانا پڑا۔
قارئین، نواب زادہ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد وزیرِ اعظم بننے والے خواجہ ناظم الدین خود بنگالی تھے، وزیرِ اعظم بننے کے بعد وہ 26 جنوری 1952ء کو پہلی بار مشرقی پاکستان گئے، تو اعلان کیا کہ اُردو اور صرف اُردو ہی پاکستان کی قومی زبان ہوگی۔ خواجہ ناظم الدین کے اس بیان پر بھی مشرقی پاکستان کے طلبہ میں بڑی بے چینی پھیلی۔
مولانا عبدالحمید بھاشانی کی سربراہی میں سیاسی جماعتوں نے بھی آل پارٹیز سینٹرل لینگویج ایکشن کمیٹی بنالی، طلبہ اور ایکشن کمیٹی کی اپیل پر 21 فروری 1952ء کو پورے مشرقی پاکستان میں عام ہڑتال ہوئی۔ اس دوران میں ڈھاکا یونی ورسٹی میں طلبہ کے جلوس پر پولیس کی فائرنگ سے آٹھ طلبہ مارے گئے۔
اس واقعے کے چند روز بعد مشرقی پاکستان (بنگال) کی صوبائی اسمبلی نے اُردو کے ساتھ ساتھ بنگالی زبان کو بھی قومی زبان بنانے کی قرار داد منظور کرلی۔ اس طرح وہ مسٔلہ جو چند طلبہ یا “غدار عناصر” کا سمجھا جا رہا تھا، مشرقی پاکستان کے عوام کا متفقہ مطالبہ بن گیا۔ مگر مغربی پاکستان کی رائے عامہ اسے بدستور غداری اور قومی یک جہتی کے خلاف سازش سے ہی تعبیر کرتی رہی۔
سات مارچ 1952ء کو کراچی کے ممتاز شہریوں کا ایک اجلاس حسین امام کی صدارت میں ہوا، جس میں اُردو کے ساتھ بنگالی زبان کو قومی زبان بنانے کے مطالبے کو پاکستان کی سالمیت پر ضربِ کاری قرار دیا گیا اور اس مطالبے کی حمایت کرنے والے دو ممتاز ایڈیٹروں الطاف حسین اور زیڈ اے سلہری کو برطرف کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ اسی دن روزنامہ “جنگ” میں رئیس امروہوی کی نظم “نوحۂ اُردو” شایع ہوئی، جس کا ایک مصرع تھا کہ:
اُردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
قارئين، عوام کو باور کرایا گیا کہ اُردو کے ساتھ بنگالی زبان کو بھی قومی حیثیت دینے کا مطالبہ اُردو کے قتل کی سازش ہے۔ دوسری طرف بنگالی زبان کو قومی درجہ قرار دینے کے لیے طلبہ کی تحریک 1954ء میں ایک سیاسی تحریک بن گئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مشرقی پاکستان کے انتخابات میں حکم ران جماعت مسلم لیگ مخالف چار جماعتی انتخابی اتحاد “جگتو فرنٹ” (United Front) سے بری طرح ہار گئی۔ اس شکست کے بعد وزیرِ اعظم محمد علی بوگرہ نے بنگالی کو بھی قومی زبان قرار دے دیا۔
یونائٹڈ فرنٹ کی حکومت نے پہلی بار 21 فروری کا دن “یومِ شہدائے بنگلہ” کے طور پر منایا۔ 1963ء میں طلبہ کی شہادت کی جگہ پر “شہید مینار” تعمیر کیا گیا، جو تمام سیاسی تحریکوں کا مرکز بن گیا۔ مشرقی پاکستان کی علاحدگی کی تحریک بھی یہیں سے شروع ہوئی۔ 1971ء کے “آپریشن سرچ لائٹ” کے دوران میں اس مینار کو مسمار کر دیا گیا۔ مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے کے بعد بنگلہ دیشی حکومت نے “شہید مینار” کو دوبارہ تعمیر کرایا اور 21 فروری کو “یومِ شہدا” منانا شروع کیا۔
17 نومبر 1999ء کو اقوامِ متحدہ (United Nations Organization) کے ذیلی ادارے یونیسکو (UNESCO) نے بنگلہ دیش کی تحریک پر 21 فروری کو مادری زبان کا عالمی دن قرار دیا۔ 2008ء میں اقوامِ متحدہ نے ایک قرار داد منظور کی جس کے بعد 21 فروری کو مادری زبان کا عالمی دن قرار دیا گیا، یہ دن اب ہر سال دنیا کے تمام ممالک میں منایا جاتا ہے، جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔
قارئین، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نئی نسل کو تعلیمی اداروں اور ریاستی بیانیے میں کبھی بتایا گیا ہے کہ متحدہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں 21 فروری 1952ء وہ دن تھا، جب ڈھاکا میں بنگالی نوجوانوں کو اپنی مادری زبان کو قومی زبان بنانے کی جد و جہد میں خاک و خون میں نہلا دیا گیا تھا…؟
اسی واقعے کی یاد میں اقوامِ متحدہ کے زیرِ اہتمام ہر سال 21 فروری کو پوری دنیا میں مادری زبانوں کا عالمی دن اس جذبے کے ساتھ منایا جاتا ہے کہ مادری زبانوں کو انحطاط سے بچانے اور اقوامِ عالم میں روا داری، تنوع اور قبولیت جیسی اقدار کو تحفظ دینے کے لیے مل کر کام کیا جائے، تاکہ دنیا میں کثیرالسانیت، کثیر الثقافت اور کثیر القومیت جیسے عظیم عمرانی اصولوں کو پذیرائی مل سکے۔
_____________________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: