خیبر پختون خوا میں ہر 100 میں سے 11 بچے مزدوری کرنے پر مجبور ہیں، سروے رپورٹ
اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسیف (United Nations Children’s Fund) کے سروے میں بتایا گیا کہ پانچ سال سے لے کر 17 سال کے درمیان میں 80 لاکھ سے زاید بچوں میں 11 فی صد بچے کام کرتے ہیں۔
خیبر پختون خوا میں بچوں کے عالمی ادارے یونیسیف کے تعاون سے چائلڈ لیبر سروے (Child Labor Survey) کیا گیا جس کے مطابق بچوں کی ایک بڑی تعداد سکولوں میں پڑھنے کی بجائے محنت و مشقت کر رہی ہے۔
پشاور میں اس سروے کی فائنڈنگ جمعرات کو ایک تقریب میں پیش کی گئیں جس میں متعلقہ لیبر تنظیموں سمیت یونیسیف اور انٹرنیشنل لیبر آرگانائزیشن (International Labor Organization) کے نمایندے بھی شریک تھے۔
پشاور کی سڑکوں پر آپ نے بچوں کو بھیک مانگتے ہوئے، پانی کی بوتل اور وائپر ہاتھ میں پکڑے گاڑیوں کے شیشے صاف کرتے ہوئے اور شہر کی مختلف گاڑیوں کی ورک شاپوں میں 18 سال سے کم عمر بچوں کو مزدوری کرتے ہوئے ضرور دیکھا ہوگا۔ اس معاملے پر تحقیق کے مقصد سے یونیسیف کا سروے صوبے کے 32 اضلاع میں کیا گیا ہے۔
اس سروے کے مطابق صوبے میں پانچ سال سے 17 سال کے درمیان 80 لاکھ سے زائد بچوں میں 11 فی صد بچے کام کرتے ہیں۔ ان میں سے 88 فی صد چائلڈ لیبر یعنی مزدوری کرنے پر مجبور ہے۔
اس کا مطلب ہے کہ صوبے کے ہر 100 بچوں میں سے 11 بچے مختلف جگہوں پر مزدوری کر رہے ہیں جب کہ ان مزدوری کرنے والے بچوں میں 73 فی صد سے زاید مشقت کی مزدوری کر رہے ہیں۔ سب سے زیادہ بچے ضلع بنوں میں چائلڈ لیبر سے وابستہ ہیں جب کہ سب سے کم چائلڈ لیبر ڈیرہ اسماعیل خان میں ہے۔
تاہم سروے کے مطابق ایسے خاندان جن میں کسی نے بھی پرائمری یا مڈل کی تعلیم حاصل کی ہے، کے مقابلے میں اعلا تعلیم حاصل کرنے والے خاندان میں چائلڈ لیبر کم ہے۔
سروے کے مطابق مزدوری کرنے والوں میں 52 فی صد سے زائد زراعت، جنگلات اور ماہی گیری کی صنعت میں کام کرتے ہیں۔
اسی طرح دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ (19 فی صد) بچے پانی لانے کے کام سے وابستہ ہیں جب کہ تقریبا 10 فی صد مزدوری کرنے والے بچے ہول سیل اور تجارت کے کام سے وابستہ ہیں۔
ان ورکنگ بچوں کے حوالے سے سروے کے مطابق 43 فی صد سے زاید بچے سکول نہیں جاتے اور ان میں 22 فی صد بچے ایسے تھے جن کے والدین تعلیمی اخراجات برداشت نہیں کر سکتے جب کہ 20 سے زائد بچوں کے والدین کا کہنا تھا کہ سکول کی بہتر سہولت موجود نہیں ہے۔
سروے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ چائلڈ لیبر سے وابستہ بچوں میں 16 فی صد بچے کسی نہ کسی زیادتی کا شکار ہوئے ہیں اور چائلڈ لیبر سے وابستہ بچوں میں 28 فی صد سے زاید نائٹ شفٹ میں کام کرتے ہیں۔
پشاور سے تعلق رکھنے والے عمران ٹکر جو پشاور میں بچوں کے حقوق کے کارکن ہیں، کے مطابق ایک تو اس سروے میں گھریلو مزدور بچوں کے اعداد و شمار دکھائی نہیں دیتے اور لیبر ڈپارٹمنٹ کو اس کے اعداد و شمار اکٹھا کرکے منظر عام پر لانے چاہییں۔ یہ اعداد و شمار بچوں کی مزدوری کے حوالے سے ایک تلخ پہلو دکھا رہا ہے جس کے لیے حکومتی متعلقہ اداروں کو ایک جامع پالیسی بنا کر روکنا چاہیے۔ جن شعبوں میں جہاں کہیں بھی بچے زیادہ ہیں، ان وجوہات پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ نو لاکھ کے قریب بچے سکول جانے کی عمر میں اگر مزدوری کر رہے ہیں، تو اس کا مطلب ہے اتنے ہی بچے ہر وقت کسی بھی قسم کے خطرات کا سامنا کرسکتے ہیں۔
حکومت اور دیگر سٹیک ہولڈرز کو چائلڈ لیبر اور اس سے درپیش خطرات کا راستہ روکنا چاہیے جو کہ وقت کا اہم تقاضہ ہے۔ ہمارے صوبے میں چائلڈ پروٹیکشن کمیشن، چائلڈ لیبر کا قانون، مفت اور لازمی تعلیم کا قانون موجود ہے جن کو عمل میں لانا چاہیے تاکہ بچے لیبر کی بجائے سکول جائیں اور جہاں کہیں بھی ان کو کسی بھی قسم کے ذہنی، جسمانی یا جنسی خطرات ہوں، تو “خیبر پختون خوا چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفئیر ایکٹ 2010ء” کے تحت اس کا محاسبہ ممکن بنایا جائے۔ ہر ضلعے میں کم ازکم ایک چائلڈ پروٹیکشن عدالت ہو۔ چوں کہ بچوں سے عام طور پر بھی اور مزدوری کے دوران میں بھی زیادتی کے واقعات کے اعداد وشمار “خطر ناک ترین” ہیں جس سے نمٹنے کے لیے نہ صرف ہر ضلعے میں چائلڈ پروٹیکشن عدالتیں ہوں بلکہ ہر ضلعے اور تحصیل کی سطح پر فعال چائلڈ پروٹیکشن یونٹس بھی ہوں۔
شیئرکریں: