آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے ریٹائرمنٹ سے پہلے سینئر صحافیوں کے ساتھ ملک کے سیاسی صورت حال پر گفتگو کرتے ہوئے اپنا دل کھول کر رکھ دیا۔ کل انہوں نے ملک کے سینئر صحافیوں اور بیوروکریٹس کے ساتھ بڑی کھل کر طویل گفتگو کی۔ جس میں انہوں نے عمران خان کی ذات، ان کی سیاست، ان کی حکومت اور فوج کے ساتھ کیا تعلقات تھے، ان سب کا تفصیلی احاطہ سینئیر صحافی اور وی لاگر اسد علی طور نے اپنی یوٹیوب چینل پر ایک ویڈیو میں کیا ہے۔ آئیے ان کو تحریری شکل میں پڑھتے ہیں۔
اسد طور کے مطابق ملاقات میں آرمی چیف کا کہنا تھا کہ شروع میں میرے کیرئیر کے بہترین ریلیشن شپ میاں محمد نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی کے ساتھ تھے۔ نواز شریف مجھ پر اتنا اعتماد کرتے تھے کہ متحدہ عرب امارات سے تعلقات بحال کرنے کا ٹاسک میرے ذمہ لگایا کہ آپ یو اے ای جائے اور ان کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ یہی وجہ ہے کہ میں وہاں گیا اور ڈیلیور کیا۔
سوالات کے جوابات دیتے ہوئے انہوں نے اشارتا اس بات کا اعتراف کیا کہ ہم نے نواز شریف کے ساتھ زیادتی کی اور نواز شریف کو ہم یعنی ملٹری اسٹبلشمنٹ نے نکالا۔
اس کے ساتھ انہوں نے اسحاق ڈار کی کچھ پالیسیوں اور ساتھ ہی پاکستانی بیورو کریسی پر بھی تنقید کی اور بولا کہ چائنا والے مجھ سے ملنے آئے اور بولے کہ ہم آپ کی بیورو کریسی کے ساتھ مزید کام نہیں کر سکتے۔ کیوں کہ یہ جان بوجھ کر مسائل اور پچیدگیاں پیدا کرتے ہیں۔
عمران احمد نیازی کے دورہ روس پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب میں وزیر اعظم ہاوس میں منعقدہ میٹنگ میں آیا، تو اسد عمر سمیت تمام کابینہ نے کہا کہ دورہ روس ہونا چاہیے۔ اس پر میں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ تو تھیک ہے کرلیں دورہ، حالاں کہ روس کے ساتھ نہ تو ہماری کوئی تجارت ہے اور نہ وہ ہمیں عالمی فورم پر سپورٹ کرتا ہے۔ بلکہ الٹا پیوٹن نے عمران خان کو استعمال کیا کیوں کہ وہ یوکرائن پر جنگ چھیڑ چکا تھا اور پیوٹن نے اس دورے سے دنیا کو یہ تاثر دیا کہ اس جنگ میں پاکستان ہمارے ساتھ کھڑا ہے۔
اس کہ بعد انہوں نے سائفر اور “Absolutely not” کو جھوٹ اور جعلی پراپیگنڈہ گردانتے ہوئے کہا کہ ایسے سیاسی اسٹنٹ اور جھوٹ سے ملک کا نقصان ہوا۔ اسی سائفر پر عمران خان کے ساتھ 2 میٹنگز ہوئی اور ہم اسے مکمل طور پر سمجھا چکے تھے لیکن وہ جان بوجھ کر سیاسی فائدے کےلیے اس ایشو کو اٹھا کر ملک کی نقصان کرنے کی کوشش کی۔
ایک سوال کے جواب پر آرمی چیف کا کہنا تھا کہ ہاں، ہم عمران خان کو لے کر آئے اور اسے لانے کےلیے آوٹ آف دی وے جا کر شرمندگی کی حد تک کردار ادا کیا۔ ان کو لانے کےلیے ہم اس حد تک گئے کہ خود پر سلیکٹر کا ٹھپہ لگوا لیا اور اس کا صلہ مجھے یہ ملا کہ اتنے سال ایک فوجی کے طور پر ملک کی خدمت کرنے کت بعد مجھے غدار کا لقب دیا جا رہا ہے۔
جنرل فیض کی بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ خود میرے پاس آیا اور بولا کہ میں نے کور کی کمانڈ کرنی ہے، تاکہ میں آرمی چیف کےلیے نام زد ہو سکوں۔ لیکن جب میں نے اسے پشاور بھیجنے اور ندیم انجم کا ڈی جی آئی ایس آئی کے طور پر نوٹیفکیشن جاری کر دیا، تو عمران خان وہ نوٹیفکیشن لے کر بیٹھ گئے اور ہمیں عجیب سی حالت میں پھنسا دیا۔ اب وہ ایک اور جھوٹ بول رہا ہے میں وزیر اعظم تھا اور حکومت کوئی اور کر رہے تھے، تو یہ تمام فیصلے خود کرتے تھے۔ عثمان بزدار کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نیازی صاب نے چن چن کر نا اہل بندے لگائے جو اتنی اہلیت نہیں رکھتے تھے کہ ڈیلیور کر سکے۔
پچھلے ایک سال سے تحریک انصاف کے اراکین اور ان کے اتحادی میرے پاس آتے کہ عمران خان کو سمجھائے کہ کیا ملک ایسا چلتا ہے؟ میں نے کئی بار انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ آپ اپنے ناراض اراکین اسمبلی اور اتحادیوں سے مل کر ان کے تحفظات دور کرے۔ لیکن یہ کسی بات کو سنجیدگی سے نہیں لیتے تھے۔
اسی طرح عدم اعتماد پر بات کرتے ہوئے کہا ہم نے عدم اعتماد سے چھ (06) ماہ پہلے ان کو آگاہ کردیا تھا کہ اب ہم مزید بدنامی نہیں اٹھا سکتے، ہم نیوٹرل ہونے جا رہے ہیں اور اب ہمارا سیاست یا حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ کیوں ک یہ فیصلہ کور کمانڈر کانفرنس میں سب نے مل کر کیا تھا۔ مزید یہ کہ یم نے انہیں یہ بھی بتا دیا تھا کہ زرداری صاحب آج کل اسلام آباد میں بہت ایکٹو نظر آرہے ہیں۔ اس لیے آپ اپنے بندوں کو انگیج کرے۔ اس کے ساتھ انہوں نے حامد میر کی طرف دیکھتے ہوئے بولے کہ میر صاحب، آپ نے ایک سال پہلے عدم اعتماد کا آرٹیکل لکھا تھا لیکن عمران خان تب بھی سیریس نہیں ہوئے اور جب عدم اعتماد آ گئی، تو پھر ہمارے پاس دوڑ کر چلا آیا کہ مجھے بچائے۔ تب ہم نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہم نیوٹرل ہونے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ اب ہم سیاست سے کوسوں دور ہوچکے ہیں۔ بس تب سے خان صاحب ہم سے ناراض ہیں کہ ہم سیاست سے پیچھے کیوں ہٹے اور روزانہ کی بنیاد پر ہمیں بدنام کرنے کےلیے کوئی نہ کوئی شوشہ چھوڑ رہے ہیں۔
اجلاس کے آخر میں قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ عمران خان نے مجھے وزیر اعظم ہاوس بلا کر کہا کہ میں تمام اپوزیشن لیڈرشپ کو جیل میں ڈالنا چاہتا ہوں، اسی لیے مجھے آپ کی مدد کرنا ہوگی۔ جس پر میں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں آرمی چیف ہوں، اگر میں نے یہ سب کچھ کرنا ہے، تو پھر مجھے آپ کی سیٹ پر بیٹھنا ہوگا۔ یہ ہمارا کام نہیں اور نا ایسا کسی ملک میں ہوتا ہے۔ یہ فیصلے گورنمنٹ اور عدالتوں نے کرنے ہوتے ہیں۔ میرے اس جواب سے بھی وہ خوش نہیں تھے۔
____________________________________
سینئیر جرنلسٹ اسد علی طور کے اس ہوشربا انکشافات کی ویڈیو کو دیکھنے کےلیے نیچے کلک پر کلک کیجیے۔