قارئین، صوبہ خیبر پختون خوا قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ اگر اعداد و شمار کا بغور جائزہ لیا جائے، تو خیبر پختون خوا میں گیس کے کُل ذخائر 19 ٹریلین معکب فٹ ہے جب کہ تیل کے کُل ذخائر 600 ملین بیرل ہے، جو خیبر پختون خوا کے عوام کی قسمت بدلنے میں اہم کر دار ادا کرسکتا ہے۔
اس وقت پاکستان کے تیل پیدا کرنے کی صلا حیت 93 ہزار بیرل یومیہ ہے۔ جس میں خیبر پختون خوا سے تیل پیدا کرنے کی صلا حیت تقریباً 53 ہزار بیرل یومیہ ہے جو کہ پاکستان کے کل پیداوار کا 54 فی صد بنتا ہے۔ اسی طرح خیبر پختون خوا سے قومی سطح پر قدرتی گیس اور ایل پی جی پیدا کرنے کی صلاحیت بالترتیب 17 اور 25 فی صد ہے۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ “او جی ڈی سی” (Oil and Gas Development Company) کے مطابق اس ادارے نے خیبر پختون خوا میں گذشتہ 17 سالوں میں 523 ارب روپے کا تیل اور گیس نکالا ہے جو کہ سالانہ 31 ارب روپے بنتے ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں پانی سے بجلی پیدا کرنے کی موجودہ صلاحیت تقریباً 6444 میگا واٹ ہے جس میں صرف خیبر پختون خوا سے 4200 میگا واٹ بنتا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق اس وقت دریائے سوات پر پانی سے بجلی پیدا کرنے کی صلا حیت 20 ہزار میگا واٹ اور دریائے سندھ پر پانی سے بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت 30 ہزار میگا واٹ ہے۔ علاوہ شمسی توانائی، انرجی کا سب سے بڑا ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے کیوں کہ یہاں پر سال میں 300 دن پڑتی ہے اور ایک مربع میٹر پر ایک کلو واٹ توانائی پڑتی ہے۔
اگر حکومت کوشش کریں اور سرمایہ کاروں کی مدد سے چین سے سستے سولر سیلز منگوائیں اور یہ اسے پانچ مربع کلو میٹر رقبے پر لگائیں، تو اس سولر سیلز اور پینلز سے خیبر پختون خوا کی توانائی کی ضروریات پوری کی جاسکتی ہیں۔ سولر سیل بنانے کےلیے سلیکا سینڈ اس وقت وافر مقدار میں خیبر پختون خوا اور چترال کے پہاڑوں میں ڈھکا ہوا ہے۔ اسی طرح خیبر پختون خوا میں پاکستان کا 80 فی صد تمباکو پیدا ہوتا ہے جس سے قومی خزانے کو 120 ارب روپے مل جاتے ہیں جب کہ صوبائی حکومت کو معمولی رقم ملتی ہے۔
قارئین، خیبر پختون خوا میں 17 فی صد رقبے پر جنگلات ہیں۔ لہٰذا کو شش کر نی چاہیے کہ فرنیچر کی ایسی عالمی سطح کی صنعتیں لگائیں جائیں جس سے ہم صوبے بنی ہوئی فرنیچر کو اندرون اور بیرون ملک بھیج سکیں۔ اگر اس اقدام پر عمل کیا گیا، تو اس سے صوبے کی حکومت کو سالانہ 50 ارب تک کا فائدہ ہو سکتا ہے۔
قارئین، خیبر پختون خوا کا کل رقبہ 74521 مربع کلو میٹر ہے۔ جس کے 70 فی صد رقبے پر پہاڑ ہیں اور اللہ تعالا نے ان پہاڑوں کو بے تحاشا قدرتی وسائل سے نوازا ہے۔ ان قدرتی معدنیات میں انٹی منی، بارٹیز با سالٹ، بینٹو نائٹ، چائنا کلے، کرومائیٹ، کوئلہ، کرنڈم، ڈولومائٹ، ایمیریلڈ، فیلڈ سپار، فائر کلے، پلر ارتھ، گارنیٹ، جپسم، ماربل میڈائٹ، آئرن اور، جیڈ، لیٹرائٹ، ایل سٹون، لائم سٹون، میگنیسائٹ، میگنیز، ماربل، میکا، این سائینائٹ، آرپیمنٹ، پیزولین، فاسفیٹ، کورٹز، سلی کان، کوارٹز، ریڈ اچھر، ریڈ آکسائیڈ، راک سالٹ، سینڈ سٹون، شیل کلے، سلیکا سینڈ، سوپ سٹون، سرپن ٹائن، لیتھیم یو رینم، گیس اور تیل کے ذخائر موجود ہیں۔ مگر بدقسمتی سے اس پر کام نہیں ہو سکا۔ جسکا نتیجہ یہ ہے کہ قدرتی وسائل سے مالا مال یہ صوبہ وہ ترقی نہیں کر سکا جو ہونی چاہیے۔ چترال کے پہاڑوں میں بے تحاشا “لیتھیم” ہے اگر اس کو نکالا گیا، تو اسے گاڑی کی بیٹریوں میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔
اللہ تعالا نے پاکستان کو سیاحت کے خوب صورت ترین مقامات سے نوازا ہے مگر بد قسمتی سے ہماری حکومتیں ان سیاحتی مقامات سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھا سکیں۔ ہمارے ملک میں بدھ مت، ہندو مت، سکھوں اور اس کے علاوہ دیگر مذاہب کے مقدس مقامات ہیں جن کےلیے پوری دنیا سے سیاح آ تے ہیں۔ مگر یہ کام ایک خا ص سائنسی دائرہ کار میں نہیں ہوتا۔
خیبر پختون خوا کے سوات، چترال اور ہزارہ ڈویژن میں ایسے ڈھیر سارے مقامات موجود ہیں، اگر ان پر توجہ دی گئی، تو اس سے سیاحت کی مد میں انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے۔  اس کے علاوہ خیبر پختون خوا میں سیاحت سے ہوٹلوں کی تعداد جو اس وقت دو ہزار سے زائد ہے، اس کو دس ہزار تک بڑھایا جاسکتا ہے۔ اسی طر ح سیاحت کی وجہ سے ٹرانسپورٹ کی مد بھی بہت ترقی کر سکتا ہے۔
قارئین، خیبر پختون خوا کو دنیا کا گیٹ وے (Gate Way) کہا جاتا ہے۔ ایک طر ف اگر اس صوبے کی ایران، افغانستان، چین اور بھارت کے ساتھ سرحدیں ہیں، تو دوسری طر ف ہم جلال آباد اور تورخم کے راستے وسطی ایشیائی ریاستوں تک آگے جاسکتے ہیں۔ لہٰذا حکومت کو چاہیے کوہ اپنی جغرافیائی حیثیت سے فائدہ اُٹھائیں اور اپنے وسائل بڑھانے کی کوشش کریں۔
پاکستان کی 30 سے 40 فی صد سبزیاں اور فروٹ صوبہ خیبر پختون خوا میں پیدا ہوتی ہیں مگر بد قسمتی یہ ہے لوگوں کے پاس کوئی ایسا طریقہ کار نہیں جو اپنے پھلوں اور سبزیوں کی اچھے طریقے سے سائنسی انداز میں محفوظ رکھ سکیں۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے اس وقت صوبہ خیبر پختون خوا میں 1848 صنعتی یونٹوں میں سے 1145 بند پڑے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ ان یونٹوں کو دوبارہ چلانے کےلیے عملی اقدامات کریں۔ خیبر پختون خوا میں گنے اور تمباکو کے علاوہ مکئی کی فصل بھی وافر مقدار میں ہوتی ہے ۔لہٰذا مکئی، تمباکو اور گنے کی بنیاد پر بڑی صنعتیں لگانی چاہیے۔
حکومت سے یہ بھی استدعا ہے کہ وہ صوبے میں عالمی سطح پر ایسی یونی ورسٹیوں اور میڈیکل اداروں کا جال بچھائیں جہاں پر دوسرے ممالک سے لوگ آکر علاج حاصل کرسکیں اور وسطی ایشائی ریاستوں کے طالب علم تعلیم حاصل کر سکیں۔
اسی طرح پختونوں کی جفا کشی اور افرادی قوت پوری دنیا میں مشہور ہے۔ 90 لاکھ سمندر پار پاکستانیوں میں 40 لاکھ کے قریب پختون ہیں۔ مگر بدقسمتی سے یہاں پر ان افرادی قوت کی مناسب اور سائنسی بنیادوں پر تربیت نہیں۔ لہٰذا عالمی مارکیٹ میں ہمارے افرادی قوت کو جو کر دار ادا کر نا چاہیے وہ نہیں ادا کر سکتے۔ اگر خیبر پختون خوا سے ان ممالک کو افرادی قوت فراہم کی گئی، تو اس سے صوبے کی ترسیلاتِ زر میں بھی اضافہ ہوگا۔
___________________________
قارئین، ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: