موسمِ سرما میں پشاور اور موسمِ گرما میں کابل “درانی سلطنت” کا دار الحکومت ہوتا تھا۔ اس لیے سردیوں میں درانی شاہان اس قلعے میں رہتے تھے۔
The fort was built in 16th century during the reign of Mughal emperor Zahir-ud-din Babar and was named as “Qila Balai Hisar” by Pakhtun King Taimur Shah Durrani.
قارئین، احمد شاہ ابدالی (درانی) کے بیٹے تیمور شاہ درانی نے اس قلعے کا نام “قلعہ بالا حصار” رکھا جس کے لفظی معنی بلند قلعے کے ہیں۔ یہ قلعہ طویل عرصے تک درانیوں کی زیرِ استعمال رہا، لیکن 19ویں صدی عیسوی میں جب سکھوں نے پشاور پر حملہ کیا، تو یہ قلعہ ان کے زیرِ استعمال آیا اور انہوں نے اس کا نام “سمیر گڑھ” رکھا۔ لیکن مقامی طور پر سمیر گڑھ کا نام مشہور نہ ہوسکا۔
اس وقت قلعہ بالا حصار کو فرنٹیئر کانسٹبلری (ایف سی) اپنے ہیڈ کوارٹر کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔
قارئین، قلعہ بالا حصار اتنا پرانا ہے جتنا پشاور کا شہر، قلعہ کی زمین سے مجموعی بلندی 92 فٹ ہے۔ اس کی دیواریں پختہ سرخ اینٹوں سے تعمیر کی گئی ہیں۔ قلعے کی اندرونی دیوار کی بلندی 50 فٹ ہے۔ دوہری دیواروں والے اس قلعے کا کل رقبہ سوا پندرہ ایکڑ رقبے پر محیط ہے۔ جب کہ اس کا اندرونی رقبہ دس ایکڑ بنتا ہے، ایک پختہ سڑک بل کھاتی ہوئی قلعے کے اندر تک جاتی ہے۔
مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر نے اپنی خودنوشت “تزکِ بابری” میں بھی قلعہ بالا حصار کا ذکر کیا ہے۔ وہ باگرام (پشاور) کے قریب اپنی فوجوں کے اترنے اور شکار کے لیے روانگی کا ذکر کرتا ہے۔ جب مغل بادشاہ ہمایوں نے افغان بادشاہ شیر شاہ سوری سے شکست کھائی، تو افغانوں نے قلعہ بالا حصار کو تباہ کر دیا۔
ہمایوں جب شاہ ایران کی مدد سے اپنے کھوئے ہوئے تخت کو دوبارہ حاصل کرنے میں کام یاب ہوئے، تو انہوں نے کابل سے واپسی پر پشاور میں قیام کیا اور قلعہ بالا حصار کو دوبارہ تعمیر کروایا۔ ساتھ ہی قلعے میں ایک بڑا فوجی دستہ تعینات کیا اور ایک ازبک جرنیل سکندر خان کو قلعہ کا نگران مقرر کیا۔ یوں پہلی مرتبہ قلعے میں توپیں نصب کی گئیں۔
احمد شاہ ابدالی نے بھی وادئ پشاور مغلوں سے چھین لی تھی۔ احمد شاہ ابدالی کے فرزند تیمور ابدالی نے پشاور کو اپنا سرمائی دار الخلافہ بنالیا۔ اس نے قلعہ بالا حصار میں اپنی رہائش کے لیے محلات تعمیر کروائے اور اپنے حفاظتی دستے کے لیے ایرانی اور تاجک سپاہی بھرتی کیے۔ جب 1779ء میں ارباب فیض اللہ خان نے قلعہ بالا حصار پر یلغار کی، تو اسی حفاظتی دستے نے تیمور شاہ کی حفاظت کی۔ 1793ء میں تیمور شاہ کی وفات کے بعد شاہ زمان سریر آرائے سلطنت ہوا۔ اس کے دور میں سکھ پنجاب پر قابض ہو گئے۔ 1834ء میں سکھوں نے پشاور پر قبضہ کر لیا۔ پہلے تو سکھوں نے قلعہ بالا حصار کی اینٹ سے اینٹ بجا دی لیکن جلد ہی انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا۔
ہری سنگھ نلوہ اور سردار کھڑک سنگھ نے اس قلعہ کی اہمیت کے پیشِ نظر اسے دوبارہ تعمیر کرایا۔ مہاراجا رنجیت سنگھ کے حکم پر شیر سنگھ نے قلعہ بالا حصار کچی اینٹوں سے بنوایا اور اس قلعے کا نام سمیر گڑھ رکھا۔ سکھوں کے دور کی ایک لوح آج بھی قلعہ بالا حصار کی مرکزی دیوار میں نصب دیکھی جا سکتی ہے۔۔
بحوالہ، محکمہ آثار قدیمہ پاکستان۔
________________________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: