ریاستِ چترال، تین اگست 1947ء
میرے پیارے دوست،
سب سے پہلے میں نئی مسلم ریاست پاکستان کے قیام پر دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرنا چاہتا ہوں۔ ہمیں اللہ تعالا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے آپ کو مسلم کاز کی سربراہی میں رکھا اور ہندوستانی مسلمانوں کی امنگوں کو پورا کیا۔
ریاستِ چترال کے پاکستان میں شامل ہونے کے فیصلے سے پہلے ہی آپ کو ٹیلی گراف کے ذریعے آگاہ کیا جا چکا ہے۔ اگرچہ میں اس بات سے آگاہ ہوں کہ آج کل آپ کا قیمتی وقت بہت اہم معاملات میں صرف ہو سکتا ہے جس پر چترال کے معاملات کو گھیرے میں نہیں لیا جا سکتا، لیکن اس کے باوجود تیز رفتار سیاسی تبدیلیاں ہمیں کچھ اہم مسائل سے دوچار کر رہی ہیں جن سے واقف ہونا میرے خیال میں مناسب ہے۔
جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ریاستِ چترال صوبہ سرحد کے انتہائی شمال میں ایک اسٹریٹجک پوزیشن (Strategic Position) پر واقع ہے۔ تاریخی طور پر یہ قدیم زمانے سے ایک آزاد ریاست رہا ہے اور صدیوں تک اس آزادی کو برقرار رکھا ہے۔ برطانوی حکومت کے ساتھ ہمارے موجودہ تعلقات کے قیام سے عین قبل چترال کے افغانستان کے ساتھ برابری کی بنیاد پر دوستانہ تعلقات تھے۔ میرے دادا کے زمانے میں جب افغانستان اپنے پڑوسیوں پر جارحیت کا شکار ہو گیا، تو اس نے برطانوی سلطنت کی حفاظت کی کوشش کی۔ ان دنوں دیگر راستے کم و بیش افغانوں کے زیرِ اثر تھے۔ کشمیر ہی واحد راستہ تھا جس کے ذریعے ریاستِ چترال انگریزوں سے رابطہ کر سکتی تھی، اس لیے کشمیر سے دوستی ناگزیر تھی۔ اس دوستی کو برقرار رکھنے کے لیے ہر سال باہمی تحائف کا تبادلہ کیا جاتا تھا۔
حکومتِ برطانیہ سے ہمارے تعلقات 1885ء میں ہماری ہی پہل پر قائم ہوئے تھے۔ بعد میں ریاستِ کشمیر جو ابھی تک ہمارے لیے سمجھ سے باہر تھی، چترال پر تسلط کا دعویٰ کرنے لگی۔ چترال کے لیے اب بھی اسے تاجِ حکومت کی حمایت حاصل تھی۔ چترال ریاست جیسا کہ تصور کیا جا سکتا ہے، اس امتزاج کے خلاف مزاحمت کرنے کی طاقت نہیں رکھتی تھی اور میرے پیش رو اگرچہ انہوں نے کشمیر کے تسلط کو کبھی تسلیم نہیں کیا، دباؤ کے تحت معاہدوں پر دستخط کرنے پڑے۔ کشمیر کے تسلط کو ہمیشہ ایک بڑی شرم کی بات سمجھا جاتا تھا کہ ریاست کے بہت کم لوگوں کو چھوڑ کر تمام کو اس سے لاعلم رکھا جاتا ہے تاکہ پُرتشدد اثرات سے بچ سکیں۔
شمال اور جنوب میں ریاست کے کچھ حصوں کو اس سے الگ کرکے بالترتیب کشمیر اور افغانستان کو دیا گیا۔ ہمارے بار بار احتجاج اور منت سماجت کے باوجود شمال میں یاسین، اشکومان اور غذر کے اضلاع کو گلگت ایجنسی میں شامل کرکے کشمیر کو دئے گئے۔ یہ تینوں اضلاع ریاستِ چترال کے اٹوٹ حصے تھے۔ ان کے لوگ میرے لوگوں کے قریبی رشتہ دار ہیں جن میں مشترکہ مذہبی، ثقافتی اور لسانی رجحانات ہیں۔
اب جیسا کہ بالادستی کا خاتمہ پاکستان کے ظہور کے ساتھ ہو رہا ہے، چترال ریاست پورے اعتماد کے ساتھ پاکستان کے ساتھ شامل ہوگئی ہے اس امید کے ساتھ کہ وہ کشمیر کے تسلط کو ہلا کر کشمیر کے حوالے کیے گئے گلگت اضلاع کی بازیابی اور آخر کار ایک نیا نتیجہ اخذ کر کے اپنا مقام حاصل کر پائے گی۔
وقت پر پاکستان کے ساتھ باعزت معاہدہ کرنے کے ساتھ ایک اور نکتہ بھی ہے جو میں آپ کے نوٹس میں لانا چاہتا ہوں۔ یہ چترال ریاست کی مالی حیثیت ہے۔ حکومت کی سبسڈی (جو بمشکل ہماری ضروریات کو پورا کرتی ہے) کے علاوہ ریاست کے پاس آمدنی کا کوئی دوسرا اہم ذریعہ نہیں ہے۔ اس سبسڈی کے بغیر اس ریاست کا نظم و نسق ممکن نہیں ہوگا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ریاستِ چترال کے پاس معدنیات اور جنگلات کے بہت بڑے وسائل ہیں، لیکن مواصلاتی مشکلات اور ریاست کی مالی کم زوری کی وجہ سے ان کا استعمال مشکل سے ہو پاتا ہے۔
مجھے پوری امید ہے کہ پاکستان کی حکومت اس ریاست کو اس کے مواصلات اور قدرتی وسائل کی ترقی میں مدد فراہم کرے گی۔ میں اس خط کا اختتام پاکستان کے استحکام کے لیے دعاؤں کے ساتھ کرتا ہوں۔
نیک تمناؤں اور خلوص کے ساتھ
آپ کا مخلص دوست
قارئين، واضح رہے کہ چترال کے مہتر مظفر الملک نے 6 نومبر 1947ء کو پاکستان کے ساتھ الحاق کر لیا۔
_________________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔