قارئین، روہیلہ کی اصطلاح پہلی بار 17ویں صدی عیسوی میں عام ہوئی۔ جسے “روہ” کی سرزمین سے آنے والے لوگوں کےلیے استعمال کیا جاتا تھا۔ روہ اصل میں ایک جغرافیائی اصطلاح تھی، جو اپنے محدود معنوں میں شمال میں سوات اور باجوڑ سے لے کر جنوب میں سبی تک اور مشرق میں حسن ابدال (اٹک) سے لے کر مغرب میں کابل اور قندھار تک پھیلا ہوا علاقہ تھا۔ جب کہ روہ ہندوکش کے جنوبی دامن میں پختونوں کا وطن تھا۔
تاریخی طور پر روہ کے علاقے کو “پختون خوا” اور “افغانستان” بھی کہا جاتا رہا ہے۔  اس وادی میں رہنے والے پختونوں کو “روہیلہ” کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔
قارئین، روہیلوں نے جب اس علاقے کو آباد کیا، تو یہ روہیل کھنڈ کے نام سے مشہور ہوا جس کا مطلب ہے روہیلوں کی سرزمین۔  روہیلوں کی اکثریت 17ویں اور 18ویں صدی کے درمیان پختونستان سے شمالی ہندوستان کی طرف ہجرت کرگئی۔
روہیل کھنڈ کی پختون ریاست کے بانی داؤد خان اور اس کے لے پالک بیٹے علی محمد خان تھے۔  داؤد خان 1705ء میں جنوبی ایشیا پہنچے۔ وہ اپنے قبیلے کے ایک گروہ کو ساتھ لے کر آئے۔ داؤد خان کو اس وقت کے شمالی ہندوستان میں مغل شہنشاہ اورن گزیب (1658-1707 کی حکومت) نے راجپوت بغاوتوں کو دبانے کے لیے کتھر کے علاقے سے نوازا تھا، جس نے اس خطے کو متاثر کیا تھا۔
اصل میں مختلف پختون قبائل جیسے یوسف زئی، غوری، غلزئی، بڑیچ، مروت، درانی، ترین، کاکڑ، نگر، آفریدی، بنگش، اُتمان خیل  اور خٹک کے تقریباً بیس ہزار سپاہیوں کو رضاکارانہ طور پر بھرتی کیا گیا۔ جن میں سے بعض لوگوں کو اورنگ زیب نے اعلا عہدوں سے نوازا۔
قارئین، روہیلہ پورے اتر پردیش میں پائے جاتے ہیں، لیکن بریلی اور مراد آباد ڈویژن کے روہیل کھنڈ علاقوں میں زیادہ  ہیں۔ 1838ء اور 1916ء کے درمیان میں کچھ روہیلے امریکا کے کیریبین علاقے میں گیانا، سورینام اور ٹرینیڈاڈ اور ٹوباگو کی طرف ہجرت کر گئے۔ 1947ء میں تقسیم ہند کے بعد روہیلوں میں سے کچھ کراچی (پاکستان) آئے جب کہ داؤد خان کا خاندان وادئ سوات کے مرکزی شہر مینگورہ کے نواحی علاقے “اینگرو ڈھیرئی” میں مقیم ہیں۔
بحوالہ، افغان اور افغانستان
_________________________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: