آج سے تقریباً پندرہ یا بیس سال پہلے حجام جس بستے یا چھوٹے سے بیگ میں اپنے استعمال کے سارے اوزار ترتیب سے رکھ کر گلی گلی اور گاؤں گاؤں جا کر لوگوں کی خدمت کرتے تھے، اس بیگ کو “کسپت” کہلاتا تھا۔ کیوں کہ وہ ایک سادہ دور تھا۔ حجام کی دکان ہوتی تھی اور نہ ہی وہ نقد معاوضہ لیتے تھے۔ بلکہ ہر فصل پر حجام کو اس کی خدمات پر ان کا ایک خاص حصہ دیا جاتا تھا۔
سردی کے موسم میں جب حجام کسی محلے یا گاؤں جاتا، تو سارے بزرگ کسی دیوار کے ساتھ بیٹھ کر گپیں مارتے اور ایک دوسرے کے حال احوال معلوم کرتے۔ اُس زمانے میں سیاست تو نہیں ہوتی تھی، اس لیے گاؤں کے لوگ اپنے محلے یا کسی اور خاص موضوع یا واقعے پر تبصرے کرتے تھے۔
کوئی مزری کا بھان بنا رہا ہوتا، تو کوئی اپنی بھان کی بنائی ہوئی رسی کو مضبوط کرنے کےلیے پتھر پر رکھ کر اس کو لکڑی کی ڈبالی سے کوٹتا تھا۔ کوئی کپڑے کی رسی بنا رہا ہوتا، تو کوئی تھوڑی سی رسی بنا کر اسے ایک مخصوص لٹو پر لپیٹتا تھا۔ جس کےلیے وہ لٹو نما چرخی کو ایک خاص انداز میں گھماتا بھی تھا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ گپ شپ میں بھر پور طور پر شامل ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ کچھ بزرگ تو ناقابلِ تحریر حد تک ایک دوسرے سے مذاق بھی کرتے تھے۔
یہ گپ شپ جاری ہوتی تھی کہ اچانک حجام صاحب آتے۔ وہ ایک طرف سے شروع ہو کرکے باری باری ایک ایک کی خط یا سر کے بال کاٹنا شروع کر دیتا تھا۔
قارئین، مزہ تو اُس وقت ہوتا جب کوئی بابا حجام سے کہتا تھا کہ میں تھوڑا صبر کرکے میں اپنے پوتے کو لاتا ہوں۔ کیوں کہ اس کے بھی بال کافی بڑھ گئے ہیں۔ بابا اپنے پوتے کو کسی بہانے سے بہلا پھسلا کر لے آتا۔ لیکن جب پوتا حجام کو اور اس کے بستے کو دیکھ لیتا، تو ساری صورتِ حال سمجھ جاتا تھا۔ اُس وقت کے بچے بال کٹوانے سے کتراتے تھے۔ خاص کر “وی بال” کاٹنے والی ہاتھ سے چلنے والی مشین تو ان کےلیے سخت ناپسند تھی۔
قارئین، یہ تھا “کسپت” اور حجام کے حوالے سے کچھ پرانا حال و احوال۔ سادہ وقت کے یہ سادہ لوگ اپنی زندگی سادہ گزار کر چلے گئے۔
_________________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: