عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے مرکزی راہ نما اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر عبدالطیف آفریدی (مرحوم) 14 جنوری 1943ء کو صوبہ سرحد (اَب خیبر پختون خوا) کے قبائلی علاقے وادیِ تیراہ خیبر ایجنسی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1966ء میں پشاور یونی ورسٹی سے ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔ دو سال بعد یعنی 1968ء میں مذکورہ ادارے سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔ 1968ء میں تعلیم سے فراغت کے بعد وکالت کے پیشے سے منسلک ہوئے۔ تین دہائیوں یعنی 30 سال تک ہائی کورٹ میں وکالت کرنے کے بعد 2006ء میں سپریم کورٹ کے وکیل بن گئے۔ چھے بار پشاور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اور پاکستان بار کونسل کے نائب صدر رہے۔ اس کے علاوہ “ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان” (Human rights commission of Pakistan) کے ممبر بھی رہ چکے ہیں۔
قارئین، مرحوم نے 1979ء میں میر غوث بخش بزنجو کی زیرِ قیادت “پاکستان نیشنل پارٹی” (پی این پی) میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے عملی سیاست کا باقاعدہ آغاز کیا۔ وہ پی این پی خیبر پختون خوا کے صوبائی صدر بن گئے۔
1986ء میں جب پاکستان نیشنل پارٹی کو عوامی نیشنل پارٹی میں ضم کر دیا گیا، تو اُس کے پہلے صوبائی صدر بنے۔ 1997ء میں این اے 46 سے رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ دو ستمبر 2019ء کو اے این پی صوبہ خیبر پختون خوا کے صدر ایمل ولی خان نے پارٹی پالیسی سے انحراف پر موصوف کی بنیادی پارٹی رکنیت ختم کر دی، لیکن کچھ عرصے بعد وہ واپس اے این پی میں شامل ہوئے۔

لطیف آفریدی کو 1965ء کے صدارتی انتخابات میں محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کرنے پر یونی ورسٹی سے نکالا گیا تھا۔
فوٹو؛ گوگل

قارئین، لطیف آفریدی (مرحوم) کا شمار ملک کے اُن چند افراد میں ہوتا ہے، جو 70ء کی دہائی کے بعد ملک میں جتنے بھی مارشل لا نافذ کیے گئے، یا پھر ملک میں حزبِ اختلاف کی جتنی تحاریک چلیں، تو وہ ہر بار جیل گئے۔ اُن کی آواز اور دبنگ انداز زمانۂ طالب علمی سے تھا۔ اُنھیں 1965ء کے صدارتی انتخابات میں محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کرنے کی پاداش میں یونی ورسٹی سے بھی نکالا گیا۔
فیلڈ مارشل صدر ایوب خان کے دور میں اُنھیں طالب علم راہ نما کی حیثیت سے پابندِ سلاسل رکھا گیا۔
جب کہ ضیاء الحق کے دور میں سیاسی کارکن کے طور پر بھی پانچ مرتبہ جیل گئے۔
2007ء میں لطیف آفریدی (مرحوم) نے ملک میں پرویز مشرف کی جانب سے لگائی جانے والی ایمرجنسی کی شدید مخالفت کی۔ تب وہ جیل تو نہیں گئے، لیکن چھے اکتوبر 2007ء کو صوبہ سرحد (اَب خیبر پختون خوا) اسمبلی کے گیٹ پر جب وہ پُرامن احتجاج کر رہے تھے، تو بکتر بند گاڑی نے اُنھیں روند ڈالا، جس کی وجہ سے اُن کی ایک ٹانگ ٹوٹ گئی۔ اس کے بعد سے وہ عصا کے سہارے عدالتوں میں پیش ہوتے تھے۔

عبدالطیف آفریدی ایک پرفیکشنسٹ وکیل تھے جو جونیئر وکلا کےلیے سایہ دار درخت کی طرح تھے۔ وہ ہزاروں مزدوروں، سیاسی کارکنوں اور شہریوں کے مقدمات بغیر فیس کے لڑتے تھے۔
فوٹو؛ امین اللہ خان کنڈی

قارئین، ملک کی اعلا عدالتوں میں انسانی حقوق سے متعلق درخواستوں کی پیروی کرنے کے ساتھ ساتھ “پختون تحفظ موومنٹ” (پی ٹی ایم) کے خلاف صوبہ خیبر پختون خوا میں جتنے بھی مقدمات درج کیے گئے، اُن میں سے زیادہ تر مقدمات کی پیروی لطیف آفریدی (مرحوم) کرتے رہے۔ مرحوم صوبہ خیبر پختون خوا میں فوج کے زیرِ انتظام چلنے والے حراستی مراکز کے خلاف درخواستوں کی پیروی بھی کرتے رہے۔
قارئین، طارق افغان ایڈوکیٹ، لطیف آفریدی (مرحوم) کے معاون اور شاگرد تھے۔ اُن کے مطابق، لطیف آفریدی (مرحوم) کی شخصیت ایک ایسے بزرگ جیسی تھی جن کی مثال ایک سایہ دار درخت کی شکل میں دی جاسکتی ہے۔ کیوں کہ اگر جونیئر وکیل ہوں یا سیاسی ورکر، سب اُن کے سائے تلے نشو و نما پاتے تھے۔ وہ جونیئر وکلا پر غصہ بھی کرتے تھے اور اُن کو کتابیں پڑھنے اور اپنے لباس پر بطورِ خاص توجہ دینے کی تلقین کرتے تھے۔ مرحوم کا ماننا تھا کہ ایک وکیل کو بہترین لباس زیبِ تن کرنا چاہیے۔

لطیف آفریدی کو چھے اکتوبر 2007ء میں خیبر پختون خوا اسمبلی کے گیٹ پر احتجاج کے دوران میں بکتر بند گاڑی نے روند ڈالا تھا، جس کی وجہ سے ان کی ایک ٹانگ ٹوٹ گئی تھی۔ اس کے بعد سے وہ چھڑی کے سہارے عدالتوں میں پیش ہوتے تھے۔
فوٹو؛ طارق افغان ایڈوکیٹ

طارق افغان ایڈوکیٹ مزید کہتے ہیں کہ لطیف آفریدی (مرحوم) ایک پس ماندہ علاقے سے تعلق رکھتے تھے، لیکن اُنھوں نے وکیل کمیونٹی میں اپنا خاص مقام بنایا۔ کیوں کہ وہ پرفیکشنسٹ تھے۔
طارق افغان نے لطیف آفریدی (مرحوم) کی زندگی کے ایک اور پہلو پر بات کرتے ہوئے کہا کہ غریبوں اور ناداروں کے لیے لطیف لالا (مرحوم) نے جتنے مفت کیس لیے، پاکستان کی تاریخ میں کسی وکیل نے نہیں لیے ہوں گے۔
اس کے علاوہ مرحوم طلبہ کو سکالر شپ بھی دیتے تھے۔ ڈھیر سارے طالب علم جن کے پاس فیس نہیں ہوتی تھی، وہ لالا (مرحوم) کے پاس آتے تھے اور لالا (مرحوم) اُن کی فیس جمع کرا دیتے تھے۔
ذاتی زندگی میں انتہائی ملن سار اور شفقت برتنے والے تھے۔ جن کے ساتھ بیٹھ کر محسوس نہیں ہوتا تھا کہ یہ شخص ہم سے 30، 40 سال بڑا اور اتنا سینئر وکیل ہے۔ وہ ایک نڈر شخصیت تھے اور ایسی بات کرتے، جو کوئی اور نہیں کر سکتا تھا۔
قارئین، 16 جنوری 2023ء کو پشاور ہائی کورٹ بار کے اندر عدنان نامی نوجواں نے لطیف آفریدی پر 6گولیاں چلائیں، جس کے بعد اُنھیں فوری طور پر لیڈی ریڈنگ اسپتال لے جایا گیا، تاہم ڈاکٹروں نے تصدیق کی کہ اسپتال پہنچنے سے قبل ہی اُن کی موت واقع ہوچکی تھی۔ جاتے جاتے بس یہی دعا ہے کہ اللہ تعالا موصوف کو جنت الفردوس میں اعلا مقام نصیب فرمائے، آمین۔
____________________________
قارئین، راقم کے اس تحریر کو روزنامہ آزادی سوات نے آج یعنی 19 جنوری 2024ء بروزِ جمعہ کو پہلی بار شرفِ قبولیت بخش کر شایع کروایا ہے۔ ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: