قارئین، ریاست کے ابتدائی دنوں میں سوات میں سڑک نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ لوگ نقل و حرکت کےلیے دریا اور نہروں کے ساتھ پگڈنڈیوں پر پیدل یا جانوروں کا استعمال کرتے تھے۔
غالباً 1923ء کی بات ہے جب میاں گل عبدالودود (باچا صیب) کے حکم پر مقامی لوگوں کی مدد سے موضع کوٹہ سے مینگورہ تک ریاست کی پہلی سڑک کی تعمیر کروائی۔ اس طرح لنڈاکی سے جلالہ تک سڑک تھانہ کے جرگے نے عوام کی مدد سے بنائی۔ جب کہ جلالہ سے درگئی براستہ مالاکنڈ پاس سڑک کی تعمیر انگریر پہلے سے کر چکے تھے۔
ریاستِ سوات کا ملاکنڈ قلعے تک ڈاک کی رسد و ترسیل کےلیے اوائل میں گھوڑے اور انسان استعمال ہوتے رہے۔ اسی طرح سوات سے غلّہ، دانہ، گھی اور شہد وغیرہ کو جانورں کی مدد سے پائین علاقوں میں لے جایا جاتا تھا۔
1924ء میں ملاکنڈ سے سیدو (مینگورہ) تک ایک کچی سڑک کی تکمیل ہوئی۔ اب ڈاک کی رسد و ترسیل کےلیے موٹر گاڑی کا استعمال شروع ہوا۔ بعد میں اُس ڈاک والی گاڑی یعنی بس ڈاک کے ساتھ سواریاں اور تجارتی اشیاء بھی ساتھ لے جانے لگی۔ اُس وقت سوات میں موٹر گاڑی کو “ڈاک” کہتے تھے۔ 1947ء کے بعد مذکورہ بس درگئی ریلوے سٹیشن تک جانے لگی۔
قارئین، جنگِ عظیم دوم کے بعد برطانوی فوج کے زیرِ استعمال چند گاڑیاں نیلامی میں مینگورہ کے چند گھرانوں نے خرید لیے تھے۔ اُن کی مرمت کروا کر حکم رانِ سوات کی اجازت سے یہ بسیں مینگورہ اور مردان کے درمیان چلنے لگیں۔ یوں یہ گاڑیاں دوسری جنگِ عظیم کے بعد ریاستِ سوات میں پبلک ٹرانسپورٹ کے طور پر استعمال ہونے لگیں۔ ریاستِ سوات میں پبلک ٹرانسپورٹ کا یہ باقاعدہ آغاز تھا اور صرف سوات ہی کے باشندوں کو لائسنس اور روٹ پرمٹ جاری ہوتا تھا۔ جب کہ ریاست سے باہر کسی فرد کو یہ کام نہیں دیا جاتا تھا۔
مینگورہ میں ان گاڑیوں کا سٹینڈ (اڈہ) مین بازار چوک اور حاجی بابا چوک والی سڑک سے جنوب کی سمت میں واقع تھا۔ لوگ اُسے “کوزہ اڈہ” کے نام سے پُکارتے تھے۔
قارئین، 1940ء میں برطانیہ سے کراچی معروف برانڈ “بیڈ فورڈ” کی گاڑیاں درآمد ہوئی تھی۔ مقامی ضرورت زیادہ ہونے پر 1963ء میں ایک پاکستانی کمپنی “جنرل موٹرز” نے بیڈ فورڈ کی شراکت سے کراچی ہی میں ان گاڑیوں کی اسمبلی پلانٹ کا آغاز کیا اور بڑی تیزی سے مذکورہ گاڑی مقامی طور پر بننے لگیں۔
اس دوران میں مینگورہ کے ایک معروف تاجر حاجی محمد رحمان (مرحوم) نے والی سوات کے اجازت سے بیڈ فورڈ گاڑیاں سوات لائی گئی۔ یوں ریاستِ سوات میں پبلک ٹرانسپورٹ کے انقلاب میں حاجی صاحب کا بہت بڑا کردار رہا ہے۔
حاجی صاحب نے سوات کی تاریخ میں پہلی مرتبہ مینگورہ تا پشاور بس سروس کا آغاز کیا جو پہلے صرف مردان تک تھا۔ مذکورہ ٹرانسپورٹ کمپنی “سوات ٹریول سروس” کے نام سے مشہور تھا۔ سوات اور پشاور کے درمیان چلنے والے اس کمپنی کے گاڑیوں کا رنگ ہلالی پرچم کی طرح سبز تھا۔ لوگ اسے “شنے ٹریولے” کہتے تھے۔ دوسری جانب اسی کمپنی نے اندرونِ سوات میں ٹرانسپورٹ کے شعبہ میں بھی اہم کردار ادا کیا اور “سوات ٹرانسپورٹ سروس” کے نام سے سوات کے مختلف علاقوں کو بسیں چلائیں۔ ان بسوں کا رنگ “نیلا آسمانی” تھا۔ سوات میں چونکہ سڑکیں اچھی معیار کے تھے، اس لیے سوات ٹریول کی بسیں کسی بھی لحاظ سے بین الاقوامی معیار سے کم نہ تھیں۔ سوات ٹریول کی سٹینڈ حاجی صاحب کے ذاتی جایداد واقع جی ٹی روڈ مینگورہ پر واقع تھا۔
پروفیسر خواجہ عثمان علی کے مطابق؛ اُس وقت پشاور مینگورہ کے کرایہ کا مجھے صحیح علم نہیں۔ ہاں البتہ 1972ء کو پشاور جانے کےلیے دوسرے پاکستانی ٹرانسپورٹ کمپنی کا کرایہ محض ایک روپے اور پچیس پیسے تھا۔ جب کہ 1965ء میں سیدو مینگورہ کا فی نفر کرایہ صرف ایک آنہ تھا۔
ریاستِ سوات کا پاکستان میں اِدغام کے بعد سوات میں باہر کے ٹرانسپورٹ کمپنی والے کافی تعداد میں وارد ہوئے جن میں حاجی آفریدی ٹریولز، یوسف ٹریولز اور جمال ٹریولز کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ اسی طرح مینگورہ اور راولپنڈی کے درمیان باقاعدہ ٹرانسپورٹ سروس کا آغاز مینگورہ کے ایک معروف تاجر خاندان نے “مینگورہ ٹریول سروس” کے نام سے کیا جو بعد میں “مینگورہ ایکسپریس سروس” کے نام سے مشہور ہوا۔ اس کے علاوہ جی ٹی ایس کی سروس بھی سوات میں خدمات دیتا رہا ہے۔
__________________________
قارئین، ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔