پاکستانیوں کےلیے 28 مئی کا دِن “یومِ تکبیر” یعنی پاکستان کے ایٹمی طاقت بننے کا دن ہے اور ہر سال اس دن کو سرکاری سطح پر جشن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ لیکن دوسری طرف ہم پختون 28 مئی کو یومِ تکبیر کے بجائے “سانحۂ ٹکر” کے طور پر یاد کرتے ہیں اور جشن کے بجائے سوگ مناتے ہیں۔
قارئین، مئی 1930 کو اُس وقت کے صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختون خوا) میں خدائی خدمت گار تحریک اپنی عروج پر تھی۔ خان عبدالغفار خان (باچا خان بابا) جو مذکورہ تحریک کے بانی تھے، اس تحریک اور انڈین نیشنل کانگریس کے پلیٹ فارم سے انگریز سامراج کے خلاف عدمِ تشدد کے فلسفے کی بنیاد پر پختونوں کی سیاسی شعور اور تعلیم و ترقی کےلیے جدوجہد کر رہے تھے۔ اس تحریک کو دبانے کےلیے انگریز وقتاً فوقتاً مختلف حربے استعمال کررہے تھے۔ اس تسلسل میں 26 مئی 1930ء کو ضلع مردان کے ٹکر نامی گاؤں جو اُس وقت خدائی خدمت گار تحریک کا علاقائی مرکز تھا، کے چند سرکردہ خدائی خدمت گاروں کی گرفتاری کے وارنٹ جاری ہوئے۔ اس سلسلے میں ٹکر گاؤں کے جن خدائی خدمت گاروں نے گرفتاریاں دینی تھی، اُن میں ملک ماصم خان، ملک خان بادشاہ، سالار شمروز خان، پیر شہزادہ اور ملک عبدالحمید خان وغیرہ شامل تھے۔ پولیس دستہ جب مورفی (Murphy) نامی انگریز پولیس افسر کی سربراہی میں مذکورہ بالا شخصیات کو گرفتار کرنے کےلیے پہنچا، تو گاؤں کے تمام لوگ وہاں ملک ماصم خان کے حجرے میں موجود تھے۔ مورفی نے لوگوں سے کہا کہ میں ملک ماصم خان، ملک خان بادشاہ، سالار شمروز خان، پیر شہزادہ اور ملک عبدالحمید خان خو گرفتار کرنے آیا ہوں۔ بہتر ہے کہ آپ لوگ خود ہمیں یہ لوگ حوالہ کریں۔ اس بات پر سید رحیم شاہ اور مورفی کے درمیان تلخ کلامی ہوئی۔ آخر کار یہ فیصلہ ہوا کہ کل یعنی 27 مئی کو ہم ان پانچ خدائی خدمت گاروں کو ایک جلوس کی شکل میں مردان شہر لے جائیں گے جہاں یہ خود اپنی گرفتاری دیں گے۔
وعدے کے مطابق گاؤں کے لوگ ان پانچ خدائی خدمت گاروں کو لے کر ایک جلوس کے شکل میں ٹکر سے مردان کےلیے پیدل روانہ ہوئے۔ جلوس میں شامل لوگ نعرۂ تکبیر، اللہ اکبر بلند آواز سے بولتے رہے جس کو دیکھ کر دیگر لوگ بھی جوق در جوق جلوس میں شامل ہوتے تھے۔ مردان پہنچنے سے پہلے ہی یہ جلوس ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر میں تبدیل ہوگیا۔ چند میل دور گوجر گڑھی کے مقام پر جلوس کے ساتھ ٹکر گاؤں کی خواتین کے علاوہ مقامی خواتین بھی شامل ہوگئیں، لیکن وہاں پر پولیس نے راستہ بند کرکے جلوس کو روکا۔ پولیس نے جلوس کو مطلوبہ افراد حوالہ کر کے واپس اپنے گھروں کو جانے کا حکم دیا لیکن لوگ اپنی جگہ کھڑے رہے۔ عوام کی جانب سے پولیس کے حکم نہ ماننے پر مورفی اور اسسٹنٹ کمشنر نے سپاہیوں کو جلوس پر لاٹھی چارج کا حکم دیا۔
پولیس نے بڑی بے دردی سے لوگوں کو مارنا شروع کردیا۔ یہاں تک کہ مورفی نے خود بھی لاٹھی چارج میں حصہ لیتے ہوئے گھوڑے پر بیٹھ کر ہجوم میں گھس گیا۔ چوں کہ گرمی کا موسم تھا اور جلوس میں شامل لوگ شدید گرمی کی وجہ سے پیاس سے نڈھال تھے اور ٹکر سے تعلق رکھنے والی خواتین پہلے سے جلوس میں شامل تھیں، تو انہوں نے پانی سے مٹکے بھر بھر کر جلوس میں شامل لوگوں کو پلا رہی تھیں۔ مورفی نے مردوں کے ساتھ خواتین کو بھی مارنا شروع کیا۔ چوں کہ پختون معاشرے میں عورتوں کی بڑی عزت کی جاتی ہے، اس لیے مورفی کو خواتین پر ہاتھ اُٹھاتا دیکھ کر سلطان پہلوان نامی خدائی خدمت گار نے طیش میں آکر پستول نکالی اور مورفی کو گولی مار کر اُس کو زخمی کردیا۔ چشمِ زدن میں مورفی گھوڑے سے زمین پر گِر پڑا، تو اس دوران میں “سواتئی ابئی” نامی ایک عمر رسیدہ عورت نے موقعے کا فایدہ اُٹھاتے ہوئے اس کے سر پر پانی سے بھرا ہوا مٹکا دے مارا جس سے مورفی نے موقع پر ہی دم توڑ دیا۔ سواتئی ابئی کی شجاعت اور بہادری کو پشتو زبان کے معروف شاعر اور ادیب اکبر ہوتی ایڈوکیٹ نے اپنی ایک شعر میں کچھ یوں سمویا ہے:
د سواتئی ابئی د ننگ قيصی ژوندئی دی
پہ منگی ئی د مرفی داستان تمام کڑہ
پہ تاريخ کے ځلندہ گوجر گڑئی شوہ
چی پہ خلہ ئی “ازادی” د خاص و عام کڑہ
یہ دیکھ کر اسسٹنٹ کمشنر نے مردان سے فوج منگوائی۔ قدرت کا کرشمہ دیکھیں کہ اس دوران میں زبردست آندھی اور طوفان آیا۔ علاقے میں طوفان کی وجہ سے کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ لوگ افراتفری میں ادھر اُدھر بھاگنے لگے۔ اسی لیے انگریز فوج اُس وقت کچھ نہ کر سکی۔
قارئین، اگر آندھی اور طوفان نہ ہوتا، تو انگریز فوج کتنا اور کیسا قتل عام کرتا یہ آپ جود ہی اندازہ لگائیں۔ کیوں کہ اُس وقت انگریز پولیس افسر کو قتل کرنا کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا۔ بہر حال طوفان تھم جانے کے بعد جب موسم صاف ہوئی، تو موقع پر فوج کے سپاہیوں اور افسران کے علاوہ اور کوئی موجود نہیں تھا۔
مذکورہ واقعہ کے دوسرے روز یعنی 28 مئی 1930ء کو مورفی کی موت کا بدلہ لینے اور اپنے معمول کے ظلم اور زیادتی کو جاری رکھتے ہوئے سامراجی فوج نے آذان سے پہلے ہی ٹکر گاؤں کا محاصرہ کرلیا اور پھر دنیا نے انگریز کی وہ بربریت دیکھ لی جس کو تاریخ میں ٹکر کی جنگ سے یاد کیا جاتا ہے۔ پولیس نے گھروں میں گُھس کر تلاشی لینا شروع کر دی۔ گھروں سے نقد رقم اور زیورات قبضے میں لینے کے بعد گھروں میں موجود گھریلو سامان یعنی کہ مٹکے وغیرہ توڑے گئے، آٹے اور غلے پر مٹی کا تیل چھڑک کر اسے بے کار کر دیا، تمام گھروں کے کپڑے، گدے، رضائیاں اور تکیے وغیرہ ایک میدان میں جمع کر کے اسے آگ لگا دی گئی۔ اسی طرح گھروں میں موجود عورتوں اور بچوں کو مارا پیٹا جا رہا تھا، ان کی بے حرمتی کی جا رہی تھی اور مردوں کی پکڑ دھکڑ اور مار کٹائی کی جا رہی تھی۔ اس کے علاوہ ملک معظم خان اور شمروز خان کے حجروں کو بھی آگ لگا دی گئی۔
اس دوران میں امین گل بابا نامی گھڑ سوار محاصرے سے نکلنے میں کام یاب ہوگئے اور انہوں نے قریبی علاقوں میں خبر دی کہ ٹکر گاؤں پر انگریزوں نے حملہ کیا ہے۔ یہ خبر سنتے ہی لوگ کام کاج چھوڑ کر جوق در جوق ٹکر کی طرف دوڑنے لگے۔ میلوں دور دیہاتوں کے لوگ بڑی بڑی ٹولیوں میں ٹکر کی طرف روانہ ہوئے۔ قریبی دیہات سے آئے ہوئے لوگوں نے جب گاؤں سے آگ کے بھڑکتے ہوئے شعلے دیکھے، تو انہوں نے فوج پر حملہ کر دیا۔ کیوں اس سے پہلے پشاور میں “قصہ خوانی” کا خونی واقعہ بھی رو نما ہوا تھا۔ فضا بوجھل اور افسردہ تھی۔ لوگوں میں انگریزوں کے خلاف غم و غصہ عروج پر تھا۔ انگریز فوج نے جب دیکھا کہ پوری قوم مقابلے پر اتر آئی ہے، تو انہوں نے جدید اسلحہ سے براہ راست لوگوں کو نشانہ بناتے ہوئے فائرنگ کا سلسلہ شروع کیا۔ فائرنگ سے شیشم کے درختوں کے پتے زمین پر جھڑنے لگے اور یہیں پر یہ تاریخی اور لا زوال گیت یا معرض وجود میں آیا کہ؛
پہ ٹکر جنگ دے گولئی وریگی
اونے پانڑے رجوینا، پہ ٹکر جنگ دے
ترجمہ، ٹکر میں جنگ جاری ہے، گولیاں برس رہی ہیں اور درخت پتے جھڑ رہے ہیں۔

ضلع مردان کے تحصیل تخت بھائی میں ٹکر کے مقام پر عوامی نیشنل پارٹی کے حکومت نے “شہدائے ٹکر” کے مناسبت سے یہ یادگار تعمیر کروایا ہے۔
فوٹو: ابدالؔی

قارئین، ٹکر سے تعلق رکھنے والے بزرگ گل جان ماما کے کے مطابق جب ہم ٹکر کے قریب پہنچے، تو ہم سے پہلے ہی علاقہ ایتکئی، ساڑو شاہ اور تمبولکوں کا ایک چھوٹا جلوس انگریز فوج کے ساتھ گتھم گتھا تھا، جو ٹکر پُل پر لگی مشین گنوں پر قبضہ کرنے کی کوششوں میں تھے۔ جس سے کافی تعداد میں لوگ شہید اور زخمی ہو گئے۔ جب علاقہ جلالہ، تخت بھائی، بہلولہ، پیر سدئی، تور ڈھیر اور ملحقہ تمام دیہاتوں کے لوگ پہنچ گئے اور انگریزوں نے دیکھا کہ اب یہ لوگ مرنے پر تلے ہوئے ہیں اور مقابلہ آسان نہیں، تو وہ آہستہ آہستہ پسپا ہونا شروع ہو گئے۔ گل جان ماما کہتے ہیں کہ انگریز فوج اپنی کئی لاشوں کو اپنے ساتھ لے گئی۔ افغانستان سے شایع ہونے والے ایک تاریخی کتاب (د خپلواکئی تڑون) کے مطابق اس واقعے میں مجموعی طور 70 افراد شہید جب کہ 150 کے زاید زخمی ہوئے تھے۔ خدائی خدمت گار مرحوم حاجی مغل خان کی وساطت سے جن شہدائے ٹکر کی قبریں معلوم ہیں، ان کے نام درج ذیل ہیں۔
شہید جمعہ سید ملیانو کلے، کالو شاہ کے مقبرے میں مدفون ہیں۔ شہید صنو بر کاکا برہ تمبولکو کے محمد دین کے والد بہلولہ کے مقبرے میں دفن ہیں۔ علاقہ ایتکئی کے سربلند کاکا جو کہ حاجی فیض گل کے بھائی تھے، ٹکر کے جنگ میں زخمی ہوئے تھے اور ایک سال بعد فوت ہوئے۔ شہید زڑور خان جو تپہ کے صدر حاجی محمد روز کے بھائی تھے، محمد روز کلے کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔
باغی شاہ کورونہ ویتکئی کے گل زمان شہید کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے گولی ان کو لگی اور یہ سانحۂ ٹکر کے پہلے شہید ہیں۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر ظاہر شاہ نے ساڑوشاہ کے مقبرے میں تین مزید شہداء کی قبروں بارے معلومات حاصل کی ہیں۔
انگریز سامراج نے پورے علاقے میں ظلم اور بربریت کی ایک نئی تاریخ رقم کی۔ اس طرح انگریزوں نے گاؤں میں ایک پولیس چوکی قایم کرکے کئی دنوں تک معصوم لوگوں کو پکڑ کر زبردستی تھانے لے جایا گیا اور لا تعداد خدائی خدمت گاروں کو جیل بھیج دیا گیا۔
قارئین، 2008ء سے 2013ء تک کی عوامی نیشنل پارٹی کی صوبائی حکومت نے ٹکر گاؤں میں ٹکر کے واقعے کے مناسبت سے ایک یادگار بھی تعمیر کیا ہے اور ہر سال 28 مئی کو شہدائے ٹکر کی یاد میں “یومِ شہدائے ٹکر” بھی مناتی ہے۔ لیکن بد قسمتی سے پاکستان کا نصاب سرکاری طور پر ایسے ترتیب دیا گیا ہے کہ پاکستان کی آزادی انگریز سامراج سے نہیں بلکہ ہندوؤں سے حاصل کی گئی ہے اور ساری توجہ مسلمانوں اور ہندوؤں کی تفریق اور دشمنی پر دی گئی ہے۔ اس لیے خدائی خدمت گار جیسے سامراج مخالف حقیقی تحریک اور عبدالغفار (باچا خان) جیسے حقیقی اور سامراج مخالف سیاست دانوں کو سرکاری نصاب میں جگہ دی جاتی اور نہ ہی ٹکر جیسے خون ریز واقعات کو جگہ دی جاتی ہے۔ حالاں کہ پختون قومی تاریخ میں سیکڑوں ایسے انسانیت سوز واقعات موجود ہیں، جہاں انگریز سرکار نے نا قابلِ یقین مظالم کیے ہیں۔ لہذا ضروری ہے کہ حکومت سرکاری سطح پر “یومِ تکبیر” منانے کے ساتھ ساتھ “سانحۂ ٹکر” کو بھی یاد رکھیں۔
جاتے جاتے موقع کی مناسبت سے پشتو کے اس شعر،
تہ راتہ ووایہ چی سہ پہ کربلا کے شوی
ما پہ ٹکر او پہ بابڑہ تبصرہ راوڑی
اور ٹپے پر اجازت طلب کرنا چاہوں گا کہ؛
راشہ ائين رانجہ دی واخلہ
ما د ٹكر د وينو سرہ ايخی خالونہ
_________________________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شائع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: