صحافت کو ریاست کا چوتھا اور اہم ستون قرار دیا جاتا ہے۔ ایک ایسا ستون جو دنیا بھر کی حکومتوں کے شب و روز، نشیب و فراز میں انتہائی موثر اور منظم کردار ادا کر رہا ہے۔ دورِ حاضر کی جدید ٹیکنا لوجی ابلاغیات کو ایک موثر اور منظم سائنس کا درجہ دے چکی ہے۔ جدید صحافت کی اس ترقی نے اخبارات اور رسایل کو ایک نئی قوت بخشی ہے۔
کسی بھی انسان کے ذہن کی تعمیر و تخریب میں جو کردار صحافت اداکرتی ہے، وہ کسی ہوش مند انسان سے مخفی نہیں۔ دورِ حاضر میں اخبارات اور رسائل ایسی چیزیں ہیں جن سے کوئی پڑا لکھا گھرانا خالی نہیں ہوتا۔ ان کے ذریعے صحیح بات گھنگھرو گھر گھر پہنچائی جاسکتی ہے۔
طباعت کا طریقہ ایجاد ہوجانے کے بعد زیادہ تر ممالک میں کتب شایع ہوئیں جن کا مقصد صرف تبلیغ تک محدود تھا۔ لیکن ابلاغ کے میدان میں جو انقلاب آیا وہ طبع شدہ اخبارات کا منظرِ عام پر آنا تھا۔
قارئین، اخبارات کی تاریخ بڑی پرانی ہے۔ جب تک چھاپ خانہ ایجاد نہیں ہوا تھا، اخبارات ہاتھ سے تحریر کرکے چند لوگوں تک اہم واقعات پہنچانے کا واحد ذریعہ تھا۔ اس حوالے سے ڈاکٹر مہدی حسن رقمِ طرازہیں؛ 751 برس قبل از مسیح میں رومن سلطنت میں روزانہ ایک قلمی خبرنامہ تحریر کی جاتی تھیں۔ اس قلمی خبر نامے کو “ایکٹا ڈیوبنا” کہا جاتا تھا، جو لاطینی زبان میں روزانہ کی سرگرمیوں کو کہا جاتاہے۔” (1)
جدید اخبار نویسی کی تاریخ 1566ء میں شروع ہوتی ہے۔ وینس کے شہر میں یہ طریقہ کار تھا کہ ایک شخص کسی بارونق شاہراہ پر کھڑا ہوکر بلند آواز سے عام دل چسپی کی خبریں پڑھ کر سناتا تھا۔ یہ خبریں حکومت کی زیرِ نگرانی تیار کی جاتی تھیں اور سننے والے سے ایک “گزیٹا”وصول کیا جاتا تھا، جو رایج الوقت سکہ تھا۔
قارئین، ویسے تو اخبار کی تاریخ بہت پُرانی ہے لیکن مطبوعہ اخبارات کے بارے میں ڈاکٹر مہدی حسن کچھ یوں لکھتے ہیں۔ “پہلا مطبوعہ اخبار 1609ء میں جرمنی سے جاری ہوا جس کا نام “اوسیاریلیشن آرڈرزےتنگ” تھا۔ دو سال بعد اس طرح کا ایک خبرنامہ انگلستان میں “فیوز فرام سپین” کے نام سے جاری ہوا۔ لیکن اس کی اس شکل و صورت اخبار جیسی نہیں تھی۔ پہلا با ضابطہ انگریزی اخبار 1960ء میں “ویکلی نیوز” کے نام سے شایع ہوا۔” (2)
اس زمانے کے اخبارات کی شکل و صورت موجودہ دور کے اخباروں کی طرح نہیں تھی۔ ان میں چند خبریں اور کچھ نظمیں ہوا کرتی تھیں۔ خبروں کےلیے ضروری نہیں تھا کہ ضرور تازہ ہوں لیکن طرزِ تحریر دل چسپ ہوتا تھا۔ اگر دیکھا جائے، تو علم و ادب، سائنس اور انسانی تہذیب و تمدن میں ارتقاء کے ساتھ ساتھ دنیا کے تازہ ترین واقعات سے باخبر رہنے کی انسانی خواہش میں اضافہ ہوا اور انسان کے اس شوق کی بدولت اخبارات نے تیزی سے ترقی کی منزلیں طے کیں۔
برِصغیر پاک و ہند کے پہلے اخبار کے بارے میں ڈاکٹر مہدی حسن رقمِ طراز ہیں۔ “برِصغیر سے پہلا مطبوعہ اخبار 1780ء میں “پکیز بنگال گزت” یا “کلکتہ جنرل ایڈور ٹائیزر” کے نام سے کلکتہ سے نکلا، جس کے جاری کرنے والے کا نام جیز آگسٹن ہکی تھا جو ایسٹ انڈیا کمپنی کا ایک برطرف شدہ ملازم تھا۔” (3)
اس طرح اُردو کا پہلا اخبار “جامِ جہاں نما” تھا جو 1822ء میں ہیرار دتا نے کلکتہ سے شایع کیا تھا۔ جب کہ 1850ء میں ہفت روزہ “کوہِ نور” شایع کیا تھا۔ 1858ء میں “اُردو گائڈ” کے نام سے ایک روزنامہ کلکتہ سے شایع کیا گیا۔
قارئین، اخبارات کی ایک لمبی فہرست ہیں۔ اس میں مختلف زبانوں کے اخبارات شامل ہیں۔ جو بھی ہو، اخبارات معلومات فراہم کرنے کا بڑا ذریعہ ہے۔ اس سے مطالعہ کی عادت پختہ ہوتی ہے۔ عوام میں سیاسی، سماجی اور علمی شعور پیدا کیا جاسکتا ہے۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں ہم کتابوں اور اخبارات سے روز بروز دور ہوتی جارہے ہیں جو لمحہ فکریہ ہے۔ کتاب اور اخبار کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینا چاہیے تاکہ معاشرہ ترقی کی راہ پر گام زن ہوسکے۔
________________________________
قارئین، راقم کے اس تحریر کو روزنامہ آزادی سوات نے 17 اگست 2023ء بروزِ جمعرات کو پہلی بار شرفِ قبولیت بخش کر شایع کروایا تھا۔ ابدالى انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔