بے وقوف قوم وہ ہوتا ہے جو اجتماعی و انفرادی شعور سے عاری ہوتی ہے اور کوئی بھی اسے ایک ریوڑ کی طرح کسی بھی طرف کسی مذہبی عقیدے، سیاسی نظریے یا حب الوطنی جھوٹے نعرے کے تحت روانہ کرسکتا ہے۔ ہم پختون بھی عقلی نہیں بلکہ ایک جذباتی قوم ہے۔ اسی لیے ان کے ہر بے وقوفی کے پیچھے جذباتیت ہی کار فرما ہوتی ہے۔ پاکستان میں پختونوں کا استحصال جتنا حب الوطنی اور اسلامی نظریے یعنی شریعت اور جہاد کے تحت کیا گیا ہے، کسی اور قوم کا نہیں ہوا۔
خیبر پختون خوا (اُس وقت کے صوبہ سرحد) کے 99.02 فی صد پختونوں کو 1947ء میں پاکستان کے حق میں ووٹ دینے پر اس مذہبی چورن نے آمادہ کیا، جو تقسیمِ ہند کا باعث بنا تھا۔ بعد میں جب بھی ریاست کو جہاد کی ضرورت پیش آئی، تو پختون ہمیشہ کرایہ کے جہادی بن کر حاضر ہوئیں، اپنی جانیں گنوا دیں اور بدلے میں محض نام نہاد شہداء اور بہادری کے تمغے حاصل کیے۔
1948ء میں ہونے والے کشمیر جنگ سے لے کر افغان جہاد تک اور پھر اب تک کی ریاستی دہشت گردی میں پختون پیش پیش رہے اور خود اس ریاستی جنگ میں لقمہ اجل بھی بن گئے، لیکن انہوں نے وفا داری نہیں چھوڑی۔ جب پاکستان اور پاکستانی اسلام کو خطرہ محسوس ہوا، تب پختون قربانی کےلیے حاضر ہوئے۔ جب ریاست کو سوات اور ملاکنڈ ڈویژن کے پختونوں کی مسلمانی مزید پکی کرنے کی ضرورت پڑی، تو یہی پختونوں (تحریکِ طالبان پاکستان) نے اپنے ہی پختون بھائیوں کا قتل عام کیا، ان کے گھر اجھاڑ دیے گئے، 22 لاکھ لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے اور ہزاروں لوگ موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔
ان تمام کاموں کے ذمہ دار پختون خود ہیں۔ اپنی نا اہلی کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھہرانا بھی ایک نا اہلی ہے۔ کیوں کہ گدے بے وقوف بنتے ہیں، لومڑیاں نہیں۔ اگر پختون خود بے حس اور نا اہل نہ ہوتے، تو ریاست انہیں کیسے اپنے سیاسی اور مذہبی مفادات کےلیے استعمال کر سکتے…؟ ہر Populist کے پیچھے ہم کیوں دوڑ لگاتے…؟ فرسودہ روایات کے علم بردار ہم ہی کیوں ہوتے…؟ پختون دوسروں کی تعریفوں یعنی (False Praising) کے ضد میں آکر جس احساس برتری (Superiority Complexes) اور خرافات (Myths) کا شکار بنے ہوئے ہیں، وہ ہی ہماری اس بے وقوفی اور استحصال کی ایک بڑی وجہ ہے۔
پہلی خام خیالی جو پختونوں کو سکھائی گئی ہے وہ یہ کہ تاریخ میں کبھی انہوں نے کسی کی غلامی نہیں کی، کسی کے محکوم نہیں رہے، حالاں کہ حقیقت یوں ہے کہ یونانیوں، فارسیوں، عربوں، مغلوں، ازبکوں، انگریزوں اور ہندوستانیوں نے مختلف ادوار میں ہم پختونوں پر صدیوں تک حکومت کی ہے۔
دوسری خام خیالی یہ ہے پختون بہت جھگڑالو قوم ہے اور انہوں نے کئی بیرونی ممالک پر قبضہ کرکے حکومت کی ہے۔ جب کہ حقیقتاً ہندوستان کے علاوہ پختونوں نے وسطی ایشیا کے دیگر ممالک اور چائنہ کو کبھی میلی آنکھ سے دیکھا اور نا ہی ان کے طرف بڑھے۔
سب سے بڑا مفروضہ جو پختونوں اور خاص کر ان کے دشمنوں نے جان بوجھ کر مشہور کروایا (تاکہ ضرورت پڑنے پر اسے استعمال کیا جائے) وہ یہ ہے کہ پختون دنیا کی بہادر ترین قوم ہے، اس خام خیالی پر فخر بھی کیا جاتا ہے۔ لیکن تاریخی حقیقت یہ ہے کہ پختونوں نے کئی جگہوں پر بیرونی قوتوں سے مار کھائی ہے اور ان کو اپنے اصحاب مان کر ان کی نوکری بھی کی ہے۔ پختونوں کی بہادری کا اندازہ ان کے IDPs ہونے سے لگایا جاسکتا ہے۔ کیوں کہ بہادر قومیں لاکھوں کی تعداد میں IDPs نہیں بنتی۔
قارئین، ہم پختونوں کو اس خام خیالی سے نکلنا ہوگا۔ کیوں اسلام اور پاکستان کی تفظ کا ٹھیکہ ہم نے نہیں لیا۔ جو لوگ ہمارے تعریفوں کے پل باندھ دیتے ہیں، ہمیں سمجھنا ہوگا کہ وہ ہم سے مخلص نہیں ہے۔ اسی لیے ہمیں حقیقت پسند ہونا پڑے گا، کیوں کہ اب زمانہ وہ نہیں رہا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ غیرت، عزت، طاقت اور بہادری کا معیار بدل چکا ہے۔ غیرت اب بہنوں بیٹیوں کی زبردستی شادی کرنے، عورت کو گھر میں قید کرنے، انہیں نا فرمانی پر قتل کرنے، ثقافتی نرگسیت اور بازوں کے طاقت کا نام نہیں بلکہ زہنی صلاحیت، روشن خیالی، اور ترقی پسندانہ سوچ کا نام ہے۔ دنیا میں اب عزت ان لوگوں کی نہیں ہوتی جو سٹھیائے ہوئے جنگجو ہوتے ہیں، بلکہ ان کی ہوتی ہے جو ترقی کے راہ پر گام زن ہوتے ہیں۔ طاقت بھی افرادی نہیں بلکہ علمی اور مادی ہوتی ہے اور بہادر وہ ہوتا ہے جن کا جنگی لشکر نہیں بلکہ علمی لشکر بڑا ہوتا ہے۔
______________________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شائع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔