دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی وفاقی حکومت آئین کے تحت قانونی طور پر مجاز اور بااختیار ہے کہ ملک کو جنگ یا بیرونی جارحیت کے خطرے یا اندرونی خلفشار جو صوبائی حکومت کے کنٹرول سے باہر ہو جائے، کی صورت میں ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کرے۔
قانونی ماہر حافظ احسان کھوکھر ایڈوکیٹ کے مطابق آئین پاکستان کے آرٹیکل 232، 233، 234، 235، 236 اور 237 ایمرجنسی کے اعلان، اس پر عمل اور اس کے قانونی نتائج کے بارے میں آگاہی دیتے ہیں۔
ان کے مطابق 18ویں آئینی ترمیم کے ذریعے وفاقی حکومت کے مشورے پر صوبے میں گورنر راج نافذ کرنے کے اختیار کو نہ صرف انتہائی حد تک محدود اور کم کیا گیا ہے بلکہ اس کے ساتھ ہی پارلیمنٹ اور متعلقہ صوبائی اسمبلی کو بھی اس طرح کے نفاذ کو روکنے کے وسیع اختیارات دیے گئے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 232 کے مطابق اگر صدر اس بات سے مطمئن ہے کہ ایک سنگین ایمرجنسی موجود ہے۔ جس میں پاکستان یا اس کے کسی بھی حصے کی سلامتی کو جنگ یا بیرونی جارحیت یا اندرونی خلفشار کی وجہ سے کسی صوبائی حکومت کے کنٹرول کے اختیار سے باہر کا خطرہ لاحق ہے، تو وہ ہنگامی صورت حال کا اعلان کر سکتا ہے۔ تاہم کسی صوبائی حکومت کے کنٹرول کرنے کے اختیارات سے باہر اندرونی خلفشار کی وجہ سے ہنگامی حالت کے نفاذ کےلیے صدر کی ایسی کارروائی سے پہلے اس صوبے کی صوبائی اسمبلی کی قرارداد کی ضرورت اور لازمی ہوگی۔
حافظ احسان نے بتایا کہ اگر صدر صوبائی حکومت کے کسی حوالہ کے بغیر اپنے طور پر عمل کرتا ہے، تو اس طرح کے ایمرجنسی کا اعلان پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے سامنے دس دنوں کے اندر ہر ایوان کی منظوری کےلیے پیش کیا جائے گا۔
کسی صوبے کے گورنر کی طرف سے رپورٹ موصول ہونے پر صدر اگر مطمئن ہو کہ ایسی صورت حال پیدا ہو گئی ہے جس میں حکومت آئین کی دفعات کے مطابق صوبے کا کام جاری نہیں رکھ سکتی۔ یا اگر اس سلسلے میں کوئی قرار داد متعلقہ ایوان سے منظور کی جاتی ہے، تو وہ خود یا صوبے کے گورنر کو ہدایت دے گا کہ صوبے کی حکومت کے تمام یا کوئی بھی کام اور تمام یا کوئی بھی اختیارات جو صوبائی اسمبلی کے علاوہ صوبے میں کسی بھی شخص یا اتھارٹی کے پاس ہیں استعمال کرنے کا مجاذ ہے۔
حافظ احسان کے مطابق آئین کے آرٹیکل 234 کے تحت ایمرجنسی کا اعلان مشترکہ اجلاس میں پیش کرنا لازمی ہے۔ جس کی منظوری کی صورت میں ایمرجنسی دو ماہ کی مدت تک لگائی جا سکتی ہے اور یہ کہ اس مدت کے ختم ہونے سے پہلے اسے مشترکہ اجلاس کی قرار داد کے ذریعے مزید مدت کےلیے بڑھایا جائے جو ایک وقت میں دو ماہ سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔ لیکن ایمرجنسی کا ایسا کوئی اعلان کسی بھی صورت میں چھ ماہ سے زیادہ نافذ نہیں رہے گا۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ جب ایمرجنسی کا اعلان ہو، تو پارلیمنٹ قانون کے ذریعے قومی اسمبلی کی مدت میں ایک سال سے زیادہ کی توسیع کر سکتی ہے۔
اس حوالے سے ایڈووکیٹ اکرام چوہدری کہتے ہیں کہ اس وقت جو صورت حال ہے وہ آئین کے متعلقہ آرٹیکلز کے تحت ایمرجنسی یا گورنر راج کی متقاضی نہیں ہے۔ تاہم اگر یہ زیادہ دنوں تک جاری رہے، تو پھر اس بارے میں ضرور غور کیا جائے گا۔ کیوں کہ ملک اس طرح کی صورت حال کا زیادہ دیر تک متحمل نہیں ہوسکتا۔
شیئرکریں: