تلمیح ایک صنعت ہے جس کے لغوی معنی "اشارہ کرنا” کے ہیں۔ جب کہ شعری اصطلاح میں تلمیح سے مراد ہے کہ ایک لفظ یا مجموعۂ الفاظ کے ذریعے کسی تاریخی، سیاسی، اخلاقی یا مذہبی واقعہ کی طرف اشارہ کیا جائے۔ تلمیح کے استعمال سے شعر کے معنوں میں وسعت اور حسن پیدا ہوتا ہے اور مطالعۂ شعر کے بعد پورا واقعہ قاری کے ذہن میں تازہ ہو جاتا ہے۔
صنعتِ تلمیح کو سمجھنے کےلیے مرزا غالبؔ کا ایک شعر پیشِ خدمت ہے کہ:
کیا فرض ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب
آﺅ نا ہم بھی سیر کریں کوہِ طور کی
اس شعر میں اُس واقعہ کی طرف اشارہ ہے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کوہِ طور پر چڑھ کر اللہ تعالا کو دیکھنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ اس خواہش کے جواب میں اللہ تعالا نے تجلّی ظاہر کی جس کی تاب نہ لاتے ہوئے آپ علیہ السلام بے ہوش ہوگئے اور کوہِ طور جل کر سیاہ ہوگیا۔