وزیرِ اعظم کے خلاف تحریکِ عدمِ اعتماد (Motion of no Confidence) پر رائے شمای (ووٹنگ) کےلیے قومی اسمبلی کے 20 فی صد یعنی 68 اراکین کے دستخطوں سے ایوان کا اجلاس بلانے کی درخواست جمع کرائی جاتی ہے، جس کے دوران میں تحریک پر رائے شماری ہوتی ہے۔ آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 54 کے مطابق سپیکر قومی اسمبلی کے پاس ریکوزیشن آنے کے بعد ایوان کا اجلاس بلانے کے لیے کم سے کم 07 اور زیادہ سے زیادہ 14 دن کا وقت ہوتا ہے۔
اجلاس طلب کرنے کے بعد سیکرٹری قومی اسمبلی تحریک کا نوٹس اراکین اسمبلی کو بھیجیں گے اور عدمِ اعتماد کی قرارداد اگلے ہی دن یعنی ورکنگ ڈے پر پیش کی جائے گی۔ جس دن قرارداد پیش کی جاتی ہے، قواعد کے مطابق اس پر 03 دن سے پہلے اور 07 دن کے بعد ووٹ نہیں دیا جائے گا۔
وزیرِاعظم کے خلاف تحریکِ عدمِ اعتماد پر رائے شماری اوپن ووٹ کے ذریعے ہوتی ہے۔ قانون کے مطابق جب قومی اسمبلی کا اجلاس ہو، تو پہلے گھنٹی بجائی جاتی ہے، تاکہ اگر کوئی رُکن باہر ہو، تو وہ اسمبلی ہال میں پہنچ جائے اور اس کے بعد دروازے بند کردیے جاتے ہیں۔ اس کے بعد جو اراکین تحریکِ عدمِ اعتماد کے حق میں ہوتے ہیں، وہ ایک دروازے سے جب کہ مخالف دوسرے دروازے سے باہر نکلتے ہیں۔ جب وہ باہر نکل رہے ہوتے ہیں، تو گنتی کا آغاز ہوتا ہے اور جب ہال مکمل خالی ہوجاتا ہے اور رائے شماری مکمل ہوجاتی ہے، تو پھر سب دوبارہ ہال میں داخل ہوتے ہیں۔ اس کے بعد سپیکر کی جانب سے نتیجے کا اعلان کیا جاتا ہے۔ اگر تحریکِ عدمِ اعتماد کامیاب ہوتی ہے، تو سپیکر تحریری طور پر صدرِ مملکت کے پاس نتیجہ جمع کراتا ہے، جس کے بعد سیکرٹری قومی اسمبلی کی جانب سے “گزٹیڈ نوٹی فکیشن” جاری کیا جاتا ہے۔
قارئین، اگر سپیکر یا ڈپٹی سپیکر کے خلاف تحریکِ عدمِ اعتماد جمع کرائی گئی ہو، تو اس پر رائے شماری خفیہ بیلٹ کے ذریعے ہوتی ہے۔ اسمبلی کے قوانین کے مطابق اس رائے شماری کے دوران میں سپیکر یا ڈپٹی سپیکر اسمبلی سیشن کی صدارت نہیں کرسکتے۔ عدمِ اعتماد کے لیے بلائے جانے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں تحریکِ عدمِ اعتماد سے ہٹ کر کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ اگر سپیکر یا ڈپٹی سپیکر کے خلاف تحریک کامیاب ہوجائے، تو بھی “گزٹیڈ نوٹی فکیشن” جاری کیا جاتا ہے۔
_________________________________
قارئین، راقم کے اس تحریر کو آج یعنی 13 جنوری 2023ء کو روزنامہ آزادی سوات نے پہلی بار شرفِ قبولیت بخش کر شائع کروایا ہے۔
شیئرکریں: