سرِدست ایک خبر ملاحظہ ہوں۔
پشاور میں نرینہ اولاد کی خواہش مند خاتون کے سر میں جعلی عامل کے کہنے پر  کیل ٹھونک دی گئی۔ خاتون کو تشویش ناک حالت میں ہسپتال منتقل کردیا گیا۔ لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور میں زخمی خاتون کی سرجری کی گئی اور کیل کو نکال دیا گیا۔ ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ زخمی حالت میں ہسپتال لائی گئی خاتون حاملہ ہے اور سر پر گہری کیل ٹھوکنے سے چوٹ آئی ہے۔ کیل کو سرجری کے ذریعے نکال لیا گیا۔ خاتون نے بتایا کہ بیٹے کی خواہش پر جعلی عامل نے سر پر کیل ٹھوکنے کا کہا تھا، کیوں کہ میری شوہر کو بیٹیاں پسند نہیں ہے۔
قارئین! ہم ایک ایسے ملک میں زندگی جی رہے ہیں جہاں کسی شہر، گاؤں یا دیہات میں اچھا سکول، کالج اور ہسپتال ہو یا نہ ہو مگر دربار اور مزار ضرور ہوں گے۔ کیوں کہ یہ آج کل ایک سدا بہار کاروبار ہے۔ سٹیل مل سے لے کر پی آئی اے تک، ریلوے سے لے کر پی ٹی وی تک ہر ادارہ خسارے میں چلتا رہا، مگر مجال ہے جو کبھی مزارات کا کاروبار ماند پڑا ہو، اس بزنس کو بالکل زوال نہیں اور یہی وجہ ہے کہ مملکتِ خداداد میں اربابِ اختیار بھی اس کاروبار کو چلانے میں مصروف ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق پنجاب کے بعد سب سے زیادہ مزار آزاد کشمیر میں ہیں۔ صرف کشمیر کے درباروں اور مزاروں کی سالانہ آمدنی 159.8 ملین روپے ہیں۔ لاہور کے ایک معروف دربار میں صرف جوتے رکھنے کا ٹھیکا 2 کروڑ روپے کے عوض ملتا ہے۔ جب کہ اسی مزار کی سال 2018ء میں 25 کروڑ 90 لاکھ روپے کی ریکارڈ آمدنی ہوئی۔ مزار پیر مکی کی سالانہ آمدنی 48 لاکھ روپے، بی بی پاک دامن 31 لاکھ روپے، دربار شاہ رُکن 21 لاکھ روپے، میاں میر 10 لاکھ روپے اور مادھو لال کی 6 لاکھ روپے ہے۔
ان درباروں اور مزاروں میں سے جو محکمہ اوقاف کے ماتحت ہیں، وہاں کرپشن کے قصے زبانِ زد عام ہیں۔ مگر ہزاروں دربار اور مزار ایسے بھی ہیں جو محکمہ اوقاف کے تحت نہیں ہیں، ان کی لاکھوں کروڑوں انکم “مجاور” (پشتو نام، منجور) اور “دربار مافیا” یا “مزار مافیا” کھاتے ہیں۔
سالِ گذشتہ راولپنڈی کے ایک پیر صاحب کے بیٹے کی شادی میں ایک محتاط اندازے کے مطابق 1 ارب روپے کی فضول خرچی کی گئی۔ غریب مریدوں کے چندے سے منعقد مہنگے ہوٹل کی تقریب میں سیاست دان، بیوروکریٹ اور صحافی تو تھے ہی، مگر شائد کسی غریب مرید کو یہاں مدعو کیا گیا ہو۔ تبھی تو وہ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
ہم کو تو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی
گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن
قارئین! پیر صاحب موصوف کی اسلام آباد کے پوش علاقے میں کئی بنگلے، پیٹرول پمپس اور شادی ہالز ہیں۔ یہ اثاثے گدی نشینی کی دَین اور مریدوں کی خون پسینے کی کمائی سے کھڑا کیا بزنس ہیں۔

پشاور میں جعلی پیر کے کہنے پر خاتون کے سر میں ٹھونکی گئی کیل سرجری کے ذریعے نکال لیا گیا۔

ستم بالائے ستم یہ کہ ان درباروں میں وہ شرم ناک کام ہوتے ہوئے ریکارڈ ہوئے ہیں جس سے انسانیت کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ انہی درباروں میں بیٹھے جعلی پیر اور مجاور مذہب کی بدنامی اور شرمندگی کا باعث بن جاتے ہیں۔
قارئین! ابھی کچھ عرصہ پہلے ایک نجی ٹی وی (نیو ٹی وی) کے پروگرام “پُکار” میں ان جیسے درباروں میں سے ایک دربار کے مجاور “کرنٹ بابا” نے انکشاف کیا کہ وہ اب تک 700 سے زائد بے اولاد خواتین کے ساتھ بدفعلی کرچکا ہے۔ انہی میں ایک دس سالہ بچی بھی شامل تھی، جس کو دو بار اس وحشی درندے نے اپنے حوس کا نشانہ بنایا تھا۔ کرنٹ بابا اپنی استاد کا نام “سرکٹ بابا” بتاتا ہے۔ جب شاگرد کا یہ حال ہو، تو استاد کس درجہ پر فائز ہوگا…؟ یہ اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں۔ مذکورہ سادہ لوح خواتین ان جاہل پیروں اور عاملوں کے پاس بے اولادی کا علاج کرانے جاتی تھیں اور کرنٹ بابا جیسے وحشی درندہ ان کو جنسی زیادتی کا نشانہ بناتا تھا۔ بعد میں ڈرا دھمکا کر خاموش کراتا تھا کہ اگر کسی کو بتایا، تو میرا موکل تمہیں جلا کر بھسم کرے گا۔
اس طرح کے واقعات درباروں اور مزاروں میں تواتر کے ساتھ پیش آتے رہتے ہیں۔ یہ کوئی معمولی نوعیت کی جرائم نہیں، حکومت کو فوری طور پر مزاروں اور درباروں میں بیٹھے جعلی عاملوں اور پیروں کے خلاف سخت اقدام اُٹھانے کی ضرورت ہے، تاکہ مزید عزتیں پامال ہونے سے بچ جائیں۔ ان درباروں میں ڈیرہ ڈالے ہوئے پیروں کا بھی احتساب ہونا چاہیے کہ وہ غریبوں سے پیسے بٹور کر کہا اور کیسے اور خرچ کرتے ہیں۔
شیئرکریں: