پشتو زبان کے معروف شاعر رحمت شاہ سائل کہتے ہیں کہ:
مالہ بہ سہ راوڑی سلگئی کہ پانڑی پانڑی زڑونہ
د نوی   کال  سحرہ،     د   نوی   کال  سحرہ
تا تہ پہ  کم امید  خوارہ کڑم  دہ زڑگی زخمونہ
د نوی  کال   سحرہ،     د  نوی   کال   سحرہ
نئے سال کا پہلا زخم اس قدر شدید اور اچانک ہوگا، کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ کیوں کہ سال 2020ء اتنے زخم دے گیا کہ گھائل جسم پر مزید کسی زخم کی جگہ نہیں تھی۔ لیکن زخم تو اپنی لیے کہیں نہ کہیں جگہ بنا ہی لیتا ہے۔
تصدیق اقبال بابو کی اچانک موت کی اطلاع ایک ایسی شاک تھی جس کے بعد تادیر بے یقینی کی سی کیفیت طاری رہی۔ یوں لگا جیسے جسم میں کسی سیکڑوں سوئیاں چبھو دی ہوں، ذہن ماؤف سا ہوگیا ہو۔ ایک چلتے پھرتے صحت مند انسان کی ایک دم رحلت سے زندگی کی بے سباتی کا خوف پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گیا۔
تصدیق اقبال بابو کے ساتھ گزرے لمحات ایک ایک کرکے آنکھوں کے سامنے آنے لگیں۔ کیوں کہ موصوف ایک شاعر، ادیب، خاکہ نگار اور انشا پرداز ہی نہیں، بلکہ اپنی ذات میں اِک انجمن تھے۔ جب بھی اُن کے پاس بیٹھتا، تو آپ ہمیشہ ایک تاریخی ادبی شخصیت کے ساتھ رونما ہونے والے واقعہ کی ایسا منظر نگاری کرتے کہ یوں محسوس ہوتا کہ ہم بھی مذکورہ واقعہ کا حصہ ہوں۔ الفاظ اور معلومات کا اس قدر ذخیرہ رکھتے تھے کہ ادب کے رموز و اوقاف تک، کتابوں کی ابدالى گردانی کیے بغیر راہ نمائی فرماتے تھے۔ اِک لائبریری کی مانند تھے، جس سے کسی بھی وقت بھرپور استفادہ کیا جاسکتا تھا۔ زندگی کی کتاب کا ایک ایسا باب تھے، جسے کتنی بار بھی پڑھیں، تو جی نہیں بھرتا۔
خاک سار اس قدر کہ ایک مرتبہ میں نے اُن سے کہا، آپ کی صحبت جب بھی میسر آتی ہے، تو ادب کا ایک ادنا سا طالب علم نہ ہونے کے ناتے ادب ہی میری ترجیحات میں اولیت کا درجہ پالیتا ہے۔ آپ ایسی تاریخی باتیں اور واقعات بتا کر ہمیں محظوظ کر لیتے ہیں۔ مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ “اختر خان! مَیں تو خود ادب کا ایک ادنا طالب علم ہوں۔” یعنی اُن کے مزاج میں درویشی کا عنصر غالب تھا۔ حالاں کہ وہ اِک جیتی جاگتی اکیڈمی تھے، جو بدقسمتی سے اب ہم میں نہ رہے۔
مجھے بلاشبہ اُن سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ وہ اِک زندہ دل شخصیت تھے جو محفل کو زعفران بنا دیا کرتے تھے۔ کبھی اُن سے بیٹھنے کی سعادت حاصل ہوتی، تو وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوتا، بلکہ جی چاہتا کہ نشست مزید چلے۔
قارئین! یوں تو بابو صاحب کے ساتھ کئی یادیں وابستہ ہیں۔ جن سے دفتر کے دفتر سیاہ کیے جاسکتے ہیں۔ جب بھی کہیں کوئی ضرورت پڑتی، تو بلا جھجک کال ملاتے اور تادیر بلا تکلف باتیں کرتے۔
اُن سے میری آخری ملاقات لاہور جانے سے ایک دن قبل یعنی 31 دسمبر بروزِ جمعرات کو اس وقت ہوئی جب آپ ہمارے ہاں (مٹہ) تشریف لائے تھے۔ مذکورہ ملاقات کا مختصر خلاصہ کچھ یوں ہے کہ صبح نو یا پونے نو بجے موبائل کی گھنٹی بجی، سکرین پر نظر ڈالی، تو تصدیق اقبال بابو تھے۔ خوشی خوشی کال اٹینڈ کی، حال احوال پوچھنے کے بعد کہا: “اختر خان! آج آپ کو ایک تکلیف دے رہا ہوں۔” میں نے کہا جی حکم، کہنے لگے کہ آج مٹہ میں کچھ ضروری کام ہے، چاہتا ہوں کہ آپ سے توڑی گپ شپ اور ملاقات ہوجائے۔ مَیں نے کہا کیوں نہیں، بس میں کالج جارہا ہوں، جب آپ مٹہ پہنچ جائیں، تو کال کیجیے۔ کہا، بس ٹھیک ہے۔ ٹھیک گیارہ بج کر پانچ منٹ پہ آپ کا میسج آیا کہ ”come“۔ میسج پڑھتے ہی میں نے فوراً کال ملائی اور کہا کہ کہا ہے آپ…؟ تو جواب دیا کہ خوازہ خیلہ اڈا میں آپ کا انتظار کر رہا ہوں۔ میں نے کہا، بس پانچ منٹ میں آرہا ہوں۔ جب اڈا پہنچا، تو آپ اس حالت میں کھڑے تھے کہ “اوور کوٹ” بازو پر آویزاں جب کہ دوسری ہاتھ میں روح الامین نایاب کی کتاب ”گرداب“ تھی۔ ملتے ہی گلے لگ گئے اور کتاب میرے حوالے کی۔ اس کے بعد ہم نے خوشی خوشی محمد خان بازار کی راہ لی۔ جہاں پاک سپر سٹور سے آپ نے اپنی امانت وصول کی۔ سپر سٹور سے واپسی پر ہم ہوزری کی دکانوں پر چلے گئے جہاں اُنہوں نے لاہور جانے کےلیے نیا کوٹ خریدنا چاہا، لیکن پسند نہ آیا۔ اس کے بعد ہم آہستہ آہستہ اڈے کی طرف روانہ ہوئے۔ لیکن رخصت ہونے سے پہلے ہم نے تقریباً بیس یا پچیس منٹ بلا تکلف باتیں کیں۔ اس دوران اُنہوں نے اپنے دل کی خوب بھڑاس نکالی۔ کسی سے گلے شکوے، تو کسی کی تعریف اور کسی کے بارے میں اپنا دل صاف رکھنے کا ایک سلسلہ جاری رکھا۔ مَیں حیران تھا کہ وہ اتنی ساری باتیں مجھے کیوں بتا رہے تھے…؟ شاید وہ اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنا چاہتے ہوئے پاک صاف دل کے ساتھ آخری سفر کی تیاری کررہے تھے۔ پھر آپ خوازہ خیلہ جانے والے لائٹ ایس پر چڑھے اور اپنے مخصوص سلوٹ والے انداز میں سلام کرتے ہوئے بولے: “لاہور سے واپسی پر ملاقات ہوگی، اِن شاء اللہ! اختر خان، تھینک یو۔”
قارئین! بابو صاحب (مرحوم) عمر میں مجھ سے بہت بڑے تھے، لیکن عمر کے اس واضح فرق کو کبھی اُنہوں نے محسوس نہیں ہونے دیا۔ ہماری کئی ملاقاتیں ہوئیں، پَر انتقال سے پہلی والی ملاقات کو بُھلانا میرے بس کی بات نہیں ہے۔ کیوں کہ یہی ملاقات جس میں دوبارہ ملنے کا وعدہ کیا گیا تھا، وہ وفا نہ ہوسکا۔ ملاقات یوں ہوگی، یہ بات تو میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھی۔
بابو مرحوم سادہ لوح، دھیمی اور حلیم طبعیت شخص اور بے غرض انسان تھے۔ اُن سے تقریباً تین برس پرانی شناسائی تھی۔ ہمیں اُن کی لت سی پڑ گئی تھی۔
کاش! وہ جاتے جاتے یہ بتاتے کہ اگر وہ نہ رہیں، تو ان کے بعد اُن جیسا کون ہوگا جن سے محبت بھری باتیں ہوسکیں یا جن سے ہم استفادہ کرتے رہیں…؟
جاتے جاتے بس یہی دعا ہے کہ اللہ تعالا اُن کو کروٹ کروٹ جنت عطا فرمائیں، آمین!
شیئرکریں: