مدبّر سیاست دان، شعلہ بیاں مقرر اور تحریکِ پاکستان کے صفِ اوّل کے راہ نما ’’سردار عبدالرّب نشتر‘‘ 13 جون 1899ء کو پشاور کے ایک مذہبی گھرانے کے چشم و چراغ مولوی عبدالحنان کے گھر میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم عیسائی مشن سکول اور میٹرک بمبئی کے سناتھن دھرم ہائی سکول سے حاصل کی۔ جس کے بعد ایڈورڈز کالج پشاور سے انٹر، 1923ء کو پنجاب یونی ورسٹی سے بیچلر آف آرٹس اور 1925ء کو علی گڑھ یونی ورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔
والدِ بزرگ وار پختون قوم کے معروف قبیلہ کاکڑ کی ایک ممتاز شخصیت تھے، جنہوں نے ہندوستان میں برطانوی راج کی شدید مخالفت کی۔ سردار صاحب کے آباؤ اجداد کا تعلق شمالی بلوچستان کے ضلع ژوب سے تھا، جو پشاور آکر آباد ہوئے۔
سردار صاحب گہرے مذہبی عقائد کے حامل اور تصوف میں دلچسپی رکھتے تھے۔ کیوں کہ ان کی شخصیت میں ان کے والدین اور ساتھی مولانا محمد علی جوہر کے اثر کی بھرپور عکاسی دکھائی دیتی ہے۔ اپنے سیاسی کیرئیر کا باقاعدہ آغاز ’’انڈین نیشنل کانگریس‘‘ سے کیا، لیکن کانگریس اور ہندوؤں کے رویے کو دیکھتے ہوئے آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے فعال ہوئے۔ 1919ء تا 1924ء تحریکِ خلافت میں بھرپور حصہ لیا۔ ہندوؤں کی جانب سے شدھی اور سنگھٹن جیسی پُرتشدد تحریکوں کے مقابلہ میں ’’ادارۂ تبلیغِ اسلام‘‘ کی بنیاد رکھی۔
1927ء تا 1931ء آل انڈیا کانگریس کے رُکن رہے اور 1929ء تا 1938ء پشاور میونسپل کمیٹی کے کمشنر رہے۔ بعد ازاں آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے قیامِ پاکستان کےلیے جد و جہد میں قائدِاعظم کے دستِ راس رہے اور ان کے بااعتماد ساتھیوں میں شمار ہوئے۔
1932ء کو مسلم لیگ کی مرکزی کونسل کے رُکن بنے۔ 1937ء اور 1945ء کو ہونے والے انتخابات میں مسلم لیگ کی طرف سے قانون ساز اسمبلی کے رُکن منتخب ہوئے۔ 1946ء میں متحدہ ہندوستان کی عارضی حکومت میں وزارتِ مواصلات کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ اسی سال ان کے سیاسی حریف اور نسل پرست عبدالقیوم خان نے سیاسی چال چلتے ہوئے اُن کو صوبائی سیاست سے بے دخل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
تقسیمِ ہند کے بعد پہلی پاکستانی کابینہ میں وزیرِ مواصلات کا قلم دان سنبھالا اور 1949ء تک اس عہدے پر خدمات انجام دیتے رہے۔ یہی وہ کابینہ تھی جس نے ’’میانوالی ہائیڈل پاؤر پراجیکٹ‘‘ کی منظوری دی تھی جو بعد ازاں کالا باغ ڈیم منصوبہ کہلایا۔ ساتھ ہی اُنہوں نے پاکستان ریلوے اور پاکستان پوسٹ آفس میں اُردو زبان کا استعمال متعارف کرایا۔ 2 اگست 1949ء تا 24 نومبر 1951ء تک پنجاب کی صوبائی حکومت کی برطرفی کے بعد پنجاب کے پہلے پاکستانی گورنر مقرر ہوئے۔ کیوں کہ اُس وقت تک برطانوی حکومت نے سابقہ انگریز گورنروں کے ساتھ حکومت کرنے کا عمل جاری رکھا ہوا تھا۔ شاہی قلعہ لاہور جو انگریزوں نے عوام کےلیے بند کیا تھا، آپ جیسے ہی گورنر بنے، تو سب سے پہلے اسلامی فنِ تعمیر کے اس عظیم شاہکار کو عوام الناس کےلیے کھول دیا۔ سیاست میں اصولوں کے پابند اور قانون کی عمل داری کا پاس رکھنے والی شخصیت تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اُنہوں نے 1951ء میں منتخب حکومت کی بحالی کی راہ ہموار کرتے ہوئے دو سال تک مؤثر طریقے سے گورنر شپ چلائی۔
لیاقت علی خان کے قتل کے بعد وزارتِ عظمیٰ کےلیے سنجیدہ اور فیورٹ امیدوار سمجھے جاتے تھے، لیکن ان کی قدامت پسندی اور اسلامی خیالات کی وجہ سے ان کا تقرر سینئر سیکولر اور لبرل حکام نے روک دیا جن میں اسکندر مرزا کا نام سرِفہرست ہے۔ گورنر جنرل غلام محمد نے جب خواجہ ناظم الدین کی حکومت کو برطرف کیا، تو سردار صاحب بھی حکومت سے علاحدہ ہوگئے۔ کیوں کہ وہ اس عمل کو غیر جمہوری سمجھتے تھے اور اس میں ملوث ہونے سے انکار کرتے ہوئے غلام محمد کی مخالفت میں چلے گئے۔ اہم سیاسی تحریکوں اور فیصلوں کے دوران میں اپنے مؤقف کا بے لاگ اظہار کرتے رہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد نئی جنم لینے والی مملکت کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کےلیے دیگر اکابرین اور راہ نماؤں کے ساتھ مل کر ذمہ داریاں نبھائیں۔ 1956ء کو جب پاکستان کا پہلا آئین منظور کیا گیا، تو صدر اسکندر مرزا اور اس وقت کے وزیرِاعظم چوہدری محمد علی کی خواہش کے خلاف سردار عبدالرب نشتر کو پارٹی کا صدر منتخب کیا گیا، جو کہ ڈاکٹر خان صاحب کی مغربی پاکستان کے وزیرِاعلا کے طور پر حمایت کر رہے تھے۔ اُنہوں نے جب مسلم لیگ کی قیادت سنبھالی، تو انتخابات میں مغربی پاکستان میں لیگ کی اچھی کارکردگی کی توقع کی جارہی تھی لیکن بدقسمتی سے اس سے پہلے ہی اُن کا انتقال ہو گیا۔
سردار عبدالرب نشتر کی زندگی باکردار جب کہ سیاست پاکیزہ، بے لوث، بندگانِ خدا کی خدمت سے سرشار اور اصولوں پر مضبوطی سے قائم رہنے والی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے دوست دشمن سبھی کہتے ہیں کہ وہ دیانت دار، لسانی اور فرقہ بندی سے یکسر پاک اور آزاد، غیر متعصب، جمہوریت پسند اور قانون پسند تھے۔ عام لوگوں کے حالات معلوم کرنے کےلیے خود ان کے پاس تشریف لے جاتے تھے۔
سردار صاحب ایک مخلص سیاسی راہ نما اور ملن سار طبیعت رکھنے والی شخصیت تھے۔ اپنی سیاسی سرگرمیوں سے آل انڈیا مسلم لیگ اور برصغیر پاک و ہند میں بسنے والے مسلمانوں میں سیاسی شعور اور اسلامی جذبہ کی بیداری اور ان کے حقوق کےلیے بھرپور جدوجہد کیا۔
سیالکوٹ میں ہونے والے مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں قائدِاعظم محمد علی جناح نے انگریزی میں تقریر کی جس کے بعد سردار عبدالرب نشتر کو اس کا اُردو میں ترجمہ کرنے کی دعوت دی گئی۔ کیوں کہ سردار صاحب اچھی اُردو اور انگریزی بولتے تھے۔ بعد ازاں قائدِاعظم نے ان کو بلا کر ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ’’آپ نے میری تقریر کا رواں ترجمہ کرکے اس کا حق ادا کر دیا۔‘‘
اس کے علاوہ سردار صاحب کا اہم کارنامہ قراردادِ مقاصد کی منظوری ہے جو آج بھی آئینِ پاکستان کا حصہ ہے۔

پاکستان پوسٹ آفس نے 1990ء کو ’’آزادی کے سرخیل‘‘ نامی سیریز میں ان کے خدمات کے اعتراف میں ایک یادگاری ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا۔

سردار صاحب 1953ء سے عارضۂ قلب اور ہائی بلڈ پریشر میں مبتلا تھے، جس کی وجہ سے 14 فروری 1958ء کو کراچی میں وفات پائی۔ وفات کے بعد محترمہ فاطمہ جناح کی اجازت سے مزارِ قائد کے احاطہ میں خان لیاقت علی خان اور قائدِاعظم کے پہلو میں سپردِ خاک کیے گئے۔
تحریکِ پاکستان کے کاز میں اُن کی خدمات کے اعتراف میں پاکستان پوسٹ آفس نے 1990ء کو ’’آزادی کے سرخیل‘‘ نامی سیریز میں ان کے اعزاز میں ایک یادگاری ڈاک ٹکٹ کا اجرا کیا۔ حکومتِ پاکستان نے نشتر میڈیکل کالج، نشتر ہسپتال، نشتر پارک اور نشتر روڈ اُن کے نام سے منسوب کر رکھی ہیں۔ اس کے علاوہ سردار صاحب کی پوتی ڈاکٹر ثانیہ نشتر آج کل وزیرِاعظم عمران خان کی غربت کے خاتمہ اور سماجی تحفظ کے بارے میں معاونِ خصوصی کی طور پر خدمات انجام رہی ہیں۔
نشتر صاحب کی نرالی اورجادوئی شخصیت اور ملک و قوم کےلیے خدمات تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔
__________________________________
محترم قارئین، توجہ فرمائیں!
راقم کے اس تحریر کو آج یعنی 19 نومبر 2021ء کو روزنامہ آزادی سوات اور لفظونہ ڈاٹ کام نے پہلی بار شرفِ قبولیت بخش کر شائع کروایا ہے۔
شیئرکریں: