ربِ کائنات نے انسان کو افضل اور اعلا مخلوق یعنی اشرف المخلوقات کے درجہ سے نوازا ہے۔ کیوں کہ روئے زمین پر انسان ہی وہ واحد مخلوق ہے، جس کی دل میں ایثار، قربانی اور رحم دلی کے جذبات پائے جاتے ہیں اور یہی خصوصیات انسان کو دنیائے جہاں میں امتیازی حیثیت عطا کرتی ہے۔ انہی لوگوں میں سے ایک معتبر حوالہ وادئ سوات سے تعلق رکھنے والے الحاج زاہد خان المعروف حاجی صاحب کا بھی ہے۔ جنہوں نے 15 فروری 1956ء کو ضلع سوات کی مرکزی شہر مینگورہ (زاہد آباد) میں حاجی قاسم جان کے گھر جنم لیا۔
سر و قد، اُبھرا ہوا چوڑا سینہ، گلابی چہرہ، خوب صورت ناک و نقشہ، سفید داڑھی، چوڑا اور روشن ماتھا، سراپا استقلال، خوب صورت سفید لباس جس پر کالا واسکٹ اور سر پر پختون ثقافت کا غماز پکول ان کی شخصیت کو مزید جلا بخشتا ہے۔
ابتدائی تعلیم آبائی محلے ہی سے حاصل کی جب کہ میٹرک کا امتحان 1975ء کو گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری سکول (حاجی بابا) مینگورہ سے پاس کیا۔ اس دوران میں کچھ ذاتی وجوہات ان کو دیارِ غیر لے کر گئے اور یوں ان کا تعلیمی سلسلہ منقطع ہوگیا۔ لیکن جلد ہی تعلیم کی تشنگی پورا کرنے کےلیے دوبارہ تعلیمی میدان میں قسمت افزائی کی اور گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ جہان زیب کالج سیدو شریف میں داخلہ لیا، جہاں سے 1984ء کو ایف اے کیا۔ تعلیمی سلسلہ برقرار رکھتے ہوئے 1988ء کو پشاور یونیورسٹی سے بی اے، اور 1992ء کو ایس ایم لا کالج کراچی سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔ یونیورسٹی آف پشاور سے پشتو زباں و ادب میں ماسٹر کی ڈگری بھی حاصل کی ہے۔
آپ سیاسی و نظریاتی طور پر خدائی خدمت گار تحریک کی تسلسل یعنی عوامی نیشنل پارٹی سے وابستہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قانون کی ڈگری حاصل کرنے کے باوجود آپ نے شعبۂ وکالت کو بطورِ پیشہ اپنانے سے گریز کرتے ہوئے اپنے سیاسی و سماجی راہبر باچا خان بابا کے افکار اپناتے ہوئے ملک اور قوم کے خدمت کےلیے کمربستہ ہوئے۔ اس بارے جب وجہ پوچھی گئی، تو بتایا کہ “اُس وقت وکالت کا پیشہ منت، سماجت، سفارش اور اقربا پروری کا شکار تھا۔ ملک میں قانون نام کی کوئی شے نہ تھی۔ اس لیے اس سے دور رہنا ہی مناسب سمجھا۔”
قارئین! ویسی تو حاجی صاحب کی خدمات کا احاطہ ایک مختصر سی تحریر میں ممکن نہیں لیکن پھر بھی چند ایک کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ آپ وکالت کی بجائے سماجی کاموں کی طرف زیادہ مائل ہیں۔ خپل کور فاؤنڈیشن اور بلائنڈ ایسوسی ایشن سمیت دیگر فلاحی اداروں کے ساتھ بطورِ رضا کار خدمات انجام دینے کے علاوہ آپ گذشتہ 25 برس سے آل سوات ہوٹل ایسوسی ایشن اور “گلوبل پیس کونسل” کے صدر اور 1984ء سے سوات امن قومی جرگہ میں ممبر کی حیثیت سے اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ جرگہ میں فعال کردار کی وجہ سے آپ کو 2006ء میں امن کانفرنس میں شرکت کا اعزاز بھی حاصل ہے۔
اس کے علاوہ ایک منجھے ہوئے قلم کار بھی ہیں جو 1994ء سے مختلف اخبارات میں کالم لکھتے چلے آرہے ہیں۔ سیاحت کے حوالے سے ایک کتاب بعنوانِ “سوات اور سیاحت” بھی لکھی ہے جو مقبولِ عام ہے۔ مذکورہ کتاب انگریزی زبان میں بھی چھپ چکی ہے۔ لیکن موصوف ملکی و بین الاقوامی میڈیا پر اُس وقت چھا گئے، جب شورش کے دوران میں جنت نظیر وادی میں قیامِ امن کےلیے آواز اُٹھائی۔ 1994ء کو اپنے کالم “ملاکنڈ ڈویژن، انقلاب یا تباہی کے دہانے پر…؟” میں پیش گوئی کی تھی کہ مستقبلِ قریب میں سوات کو کن حالات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ آپ نے اس وقت “تحریکِ شریعتِ محمدی” کے امیر صوفی محمد کے خلاف بھر پور آواز اُٹھائی اور 1998ء کو منعقدہ “انٹرنیشنل ماڈرن کانفرنس” میں سینیٹر مشاہد حسین سید سے صوفی محمد کے خلاف سخت سوالات کیے، لیکن بدقسمتی سے ان کے خاطر خواہ جوابات آج تک انہیں نہیں مل پائے۔ آپ نے صوفی محمد کو بغیر کسی ڈر کے کہا تھا کہ آپ نے مختلف مقامات پر دھرنا دیا اور پھر اچانک بغیر کسی شرط کے دھرنے کی جگہ سے راہ فرار اختیار کی، آخر کیوں…؟ جس پر صوفی محمد آئیں بائیں شائیں کرتے ہوئے جواب گھول کرگئے۔
آپ نے اسلام اور مذہب کو ووٹ کی خاطر استعمال کرنے والوں اور 2004ء کو سوات میں ایف ایم ریڈیو کی خطر ناک صورتِ حال سے بھی حکومتِ وقت کو آگاہ کیا تھا، لیکن ان کی باتوں پر کسی نے سوچنے تک گوارا نہیں کیا۔ اگر اس وقت ان کی باتوں کو سنجیدگی سے لیا جاتا، تو شاید آج جنت نظیر وادی میں ہر طرف بم اور بارود نہ ہوتے۔ اس سلسلے میں آپ نے اس وقت کے ڈی پی او سوات کو کہہ دیا تھا کہ نیو یارک ٹائمز کے دعوے کے مطابق اُسامہ بن لادن ضلع دیر کی سیاحتی مقام کمراٹ میں موجود ہے اور دوسری طرف سوات میں ایف ایم ریڈیو بھی زور و شور سے جاری ہے، اس حوالے سے بحیثیتِ اعلا پولیس افسر آپ کی خدمات کیا ہیں…؟ جس پر ڈی پی او لاجواب رہتے ہوئے جواب نہ دے پائے۔ اسی طرح آپ نے 2007ء کو ٹارگٹ کلنگ کے واقعات اور طالبانائزیشن کے خلاف آواز اُٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ “ہم مشروط اور بندوق کے زور پر نہیں، بلکہ آئین و قانون کے تحت امن چاہتے ہیں۔” اسی خاطر آپ نے “گلوبل پیس کونسل” کے پلیٹ فارم سے توانا آواز اٹھائی۔ آپ نے سوات میں قیامِ امن کےلیے اس وقت کے وزیرِ اعلا خیبر پختون خوا سے تین جب کہ گورنر کے ساتھ سات ملاقاتیں کیں اور ان سے درخواست کی، کہ سوات کی سرزمین پر جاری اس کھیل کو باہر کہیں اور لے جائیں، جس پر انہیں فون پر دھمکیاں ملنی لگیں اور 15 ستمبر 2008ء کو طالبان کے مقامی راہنما شاہ دوران نے موصوف کے خلاف ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا کہ ان کا بندوبست کیا جائے۔ جس کے نتیجے میں ان کے گھر پر تین حملے ہوئے۔
تین اگست 2012ء بمطابق 14 رمضان المبارک کو گھر سے نمازِ تراویح کےلیے مسجد جارہے تھے کہ راستے میں نامعلوم افراد کی گولیوں کا نشانہ بنے۔ گولی گردن سے ہوتی ہوئی ناک کے قریب سے گزری جس کے فوراً بعد آپ کو ہسپتال پہنچایا گیا۔ جہاں ابتدائی طبی امداد کے بعد آپ کی ناک کا آپریشن کیا گیا اور ساتھ ہی گلے میں سانس کی بندش کی وجہ سے ایک سوراخ بھی کرنا پڑا۔ ان ناگفتہ بہہ مراحل سے گزر کر اللہ تعالا نے آپ کو ایک نئی زندگی بخشی۔ بقولِ شاعر!
فانوس بن کے جس کی حفاظت ہوا کرے
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے
قارئین! طالبانائزیشن کے دوران مسلسل طویل کرفیو میں نرمی اور اس کا خاتمہ، سوات میں 105 پھاٹکوں میں سے 100 کا خاتمہ، 2010ء کے سوات فیسٹول میں شریک سیاحوں کو بغیر کسی معاوضہ ہوٹلوں میں ٹھہرانا، 2010ء کو وادی میں آنے والے سیلاب کی وجہ سے 30 ہزار سے زائد سیاح جو سوات کے مختلف علاقوں میں پھنس چکے تھے، انہیں بغیر کسی کرایہ کے ہوٹلوں میں جگہ دینا، آئی ڈی پیز کی واپسی کے بعد ان کے گھروں کے کرایوں کا مسئلہ حل کرانا، طالبان کا ساتھ دینے پر گھر کے ایک بندے کی غلطی کی وجہ سے اس کے گھر کو مسمار کرانے سے روکنا اور اس کے خاندان کو ہر قسم کی مالی و جانی نقصان سے بچانا، وادی میں حالات معمول پر آنے کے بعد “ورلڈ بینک” سے بحالی پروگرام کےلیے 90 ملین کی خطیر رقم نکالنا، پیتھام میں تین سو، مینگورہ اور میاندم میں ایک سو جب کہ کالام میں 90 نوجوانوں کو ہوٹل مینجمنٹ کی تعلیم دلوانا اور ٹیکنیکل کالجوں میں فنڈز کی منظوری کا کارنامہ آپ کی وہ خدمات ہیں جو تاریخ میں ہمیشہ کےلیے یاد رکھے جائیں گے۔
انڈین پریس میں آپ کی کئی انٹرویوز ریکارڈ ہونے کے علاوہ فرانس میں ان کی شخصیت پر ایک مختصر سی ڈاکو مینٹری بھی بنائی گئی ہے۔ موصوف کا قیامِ امن کےلیے بے پناہ خدمات اور قربانیوں کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان نے ان کو 2019ء کو “تمغۂ شجاعت” سے نوازا۔ اس کے علاوہ آپ “پاکستان امن ایوارڈ” سمیت لاتعداد سماجی تنظیموں سے مختلف مواقع پر ایوارڈ اور شیلڈ بھی حاصل کرچکے ہیں۔ آپ نے بحیثیتِ سماجی کارکن عملی طور پر فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کبل میں باچا خان سکول، مینگورہ میں خپل کور ماڈل سکول کےلیے دو، دو کنال کی اراضی وقف کر رکھی ہے۔ جو ان کی تعلیم دوستی کا بین ثبوت ہے۔
قارئین! حاجی صاحب جیسی شخصیات ہی کسی ملک اور قوم کے ہیروز ہوتے ہیں جو نوجوان نسل کےلیے مشعل راہ ہوتے ہیں۔ ربِ کائنات سے دست بہ دعا ہوں کہ موصوف کو سو سال زندگی عطا فرمائے۔ جس کا ایک دن ہزار سال ہو تاکہ ان کا سایہ شفقت ہم پر تادیر قائم و دائم رہے۔ اللہ تعالا ان کو دنیا و آخرت میں کامیابی و کامرانی سے ہم کنار فرمائے، آمین!
________________________________________
محترم قارئین! راقم کے اس مضمون کو آج یعنی یکم اکتوبر 2021ء کو روزنامہ آزادی سوات نے پہلی بارشرفِ قبولیت بخش کرشائع کروایا ہے۔
شیئرکریں: