اُردو نوٹ ڈاٹ کام کے مطابق صحافت عربی زبان کا لفظ ہے جو ’’صحف‘‘ سے ماخوذ ہے جس کے لغوی معنیٰ کتاب یا رسالہ کے ہیں۔ یعنی ایسا مطبوعہ مواد جو مقررہ وقفوں کے بعد شائع ہوتا ہے، صحافت کہلاتا ہے۔ اردو اور فارسی میں یہی اصلاح رائج ہے۔ جب کہ انگریزی میں اسے ’’جرنلزم‘‘ (Journalism) کہا جاتا ہے جو ’’جرنل‘‘ سے ماخوذ ہے جس کے معنی روزانہ حساب کا کھاتا یا روزنامچہ کے ہیں۔
اسی طرح جرنلزم کے مصنفین ’’اوزلزلے‘‘ اور’’کیمپ بیل‘‘ نے صحافت کی تعریف نہایت ہی اختصار کے ساتھ یوں کی ہے: ’’صحافت جدید وسائلِ ابلاغ کے ذریعے عوامی معلومات، رائے عامہ اور عوامی تفریحات کی باضابطہ اور مستند اشاعت کا فریضہ ادا کرتی ہے۔‘‘
جب کہ کتاب ’’رہبرِ اخبار نویسی‘‘ میں ڈاکٹر سید اقبال قادری صحافت کی تعریف کچھ یوں لکھتے ہیں: ’’صحافت ایک ہنر اور ایک ایسا فن ہے جس میں تخلیقی صلاحیتوں کا استعمال ہوتا ہے۔‘‘
قارئین! جرنل کو ترتیب دینے والے کو جرنلسٹ یا صحافی کہتے ہیں۔ ایسے صحافی جو اس پیشہ کو مکمل طور پر اپناتے ہیں یا اسے اپنا ذریعۂ معاش بناتے ہیں، انہیں ’’ورکنگ جرنلسٹ‘‘ کہا جاتا ہے اور جو صحافی وقتی طور پر کام کرتے ہیں یا کسی ایک اخبار سے وابستہ نہیں رہتے بلکہ مختلف اخبارات میں مضامین یا فیچر کالم لکھتے رہتے ہیں، وہ آزاد صحافی یا ’’فری لانس جرنلسٹ‘‘ کہلاتے ہیں۔
یوں کہا جاسکتا ہے کہ کسی بھی معاملے بارے تحقیق اور پھر اسے صوتی، بصری یا تحریری شکل میں بڑے پیمانے پر قارئین، ناظرین یا سامعین تک پہنچانے کے عمل کا نام ’’صحافت‘‘ ہے۔ صحافت کو بطورِ پیشہ اپنانے والے کو صحافی کہتے ہیں۔ گو تکنیکی لحاظ سے شعبۂ صحافت کے معنی کے کئی اجزا ہیں لیکن سب سے اہم نکتہ جو صحافت سے منسلک ہے، وہ عوام کو باخبر رکھنے کا ہے۔ حکومتی اداروں اور تجارت بارے معلومات فراہم کرنے کے علاوہ صحافت کسی بھی معاشرے کے کلچر کو بھی اُجاگر کرتی ہے جس میں فنونِ لطیفہ، کھیل اور تفریح کے اجزا شامل ہیں۔
کوئی بھی عام شخص اگر کسی شخص کو کالا کوٹ اور سفید کپڑے پہنے ہوئے دیکھے گا، تو اسے یہ اندازہ لگانے میں ذرا بھی دیر نہیں لگے گی کہ موصوف کا تعلق پیشۂ وکالت سے ہے، لیکن اس کے برخلاف کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ صحافی ہونے کی کیا نشانی ہے؟
کیا کسی کو مائیک پکڑے دیکھ کر آپ اسے صحافی سمجھ بیٹھیں گے، یا کسی کا پریس کارڈ دیکھ کر آپ یہ فیصلہ کریں گے کہ بس یہی صحافی ہے…؟
بدقسمتی سے ہم یہ آج تک طے ہی نہیں کر پائے کہ صحافی اصل میں کہتے کسے ہیں…؟ صحافت ریاست کا چوتھا ستون ہے۔ میڈیا کی اخلاقیات کیا ہوتی ہیں وغیرہ۔ ہمیں ان تمام باتوں سے کوئی غرض نہیں۔
قارئین! وادیِ سوات میں بالعموم اور تحصیل مٹہ میں بالخصوص کسی کو بھی شعبۂ صحافت میں آنے کےلیے یہ ضروری ہے کہ بس اسے صحافی بننے کا خیال آجائے۔ اس خیال میں ایسا جادو ہے کہ آپ خود مشاہدہ کریں گے کہ کچھ دیر پہلے ایک بندہ اچھا خاصا پھر رہا تھا، لیکن اب وہ باقاعدہ ’’صحافی‘‘ بن چکا ہے۔ آسان لفظوں میں اگر آپ کو صحافی بننا ہے، تو آپ کو محض ایک مائیک، ایک اینڈرایڈ موبائل فون، چند فالورز رکھنے والا یوٹیوب چینل یا فیس بک پیج اور انٹرنیٹ کی ضرورت ہے۔ مذکورہ اشیا کو حاصل کرکے آپ سب سے بڑے صحافی بھی ہیں اور دانشور بھی۔ اب آپ کسی بھی عزت دار آدمی کی پگڑی اچھالیں یا تجاوزات کرنے والا مافیا بن جائیں۔ کسی ڈاکٹر کے کام میں مداخلت فرمائیں یا کسی انجینئر کے کام کو صفر سے ضرب دیں، پولیس کو گھر کی لونڈی سمجھیں یا کسی غریب ریڑھی بان کے منھ کا نوالہ چھینیں، اپنی ریٹنگ کےلیے کسی باپردہ خاتون کا انٹرویو فرما دیں یا ان کے گھر کی چار دیواری کا تقدس پامال فرمائیں، آپ بالکل آزاد ہیں۔ کیوں کہ ماشاء اللہ آپ ’’صحافی‘‘ جو ٹھہرے۔
ہمارے بیشتر ’’صحافی‘‘ حضرات کو یہ تک پتا نہیں کہ خبر ہوتی کیا ہے…؟ صحافت کی اخلاقیات کیا ہیں…؟ کن اصولوں کے تحت آئینِ پاکستان آزادیِ اظہارِ رائے کی اجازت دیتا ہے…؟
’’صحافی‘‘ صاحب وٹس ایپ گروپوں کی مہربانی کی وجہ سے اپنی ’’خبریں‘‘ سوشل میڈیا اور پھر اخبارات کی زینت بناتا رہتا ہے۔ چاہے خبر میں رتی بھر صداقت نہ ہو ’’صحافی‘‘ صاحب کی بلا سے۔ لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ صحافت بارے کوئی واضح پالیسی مرتب کرے۔ تمام سوشل میڈیا ایکٹویسٹ کےلیے قوانین بنائے۔ تمام ’’سوشل میڈیائی صحافیوں‘‘ کو اس قانون کا پابند بنایا جائے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ میڈیا کو حقیقی معنوں میں ریاست کا چوتھا ستون بنایا جائے۔
جیسے ایک وکیل کو پریکٹس کرنے کےلیے لائسنس درکار ہوتا ہے۔ اسی طرح کوئی بھی انجینئر تب تسلیم کیا جاتا ہے، جب اسے پاکستان انجینئرنگ کونسل ہی انجینئر تسلیم کرے۔ ٹھیک اس طرح کے قوانین ہوا بازی اور طب کے شعبوں سے متعلق بھی ہیں۔
صحافت بھی باقاعدہ ایک پیشہ ورانہ صلاحیت کا حامل شعبہ ہے۔ ملکی درس گاہوں سے ہر سال سیکڑوں طلبہ جرنلزم کی ڈگریاں لے کر نکلتے ہیں۔ اسے خود کو صحافی کہلانے والے کے پاس بھی صحافت کی ڈگری ہونی چاہیے، تاکہ ایک ’’کرائی ٹیریا‘‘ بن سکے اور لوگوں کو بھی یہ سمجھنے میں آسانی ہو کہ کون اصلی صحافی ہے اور کون ’’عطائی‘‘!
اصلی اور جعلی کا فرق واضح نہیں ہوگا، تو صحافت جیسے مقدس پیشے اور اس میں کام کرنے والوں کا تقدس پامال ہوگا۔
______________________________
محترم قارئین! راقم کے اس مضمون کو 12 مارچ 2021ء کو روزنامہ آزادی سوات نے پہلی بارشرفِ قبولیت بخش کرشائع کروایا تھا۔
شیئرکریں: