دنیا میں خدمت خلق ہی وہ مقدس جذبہ ہے جس کےلیے کسی تحریک یا کسی رہبر کی ضرورت نہیں ہوتی، کیوں کہ یہ تو دل کا سودا ہے اور رضا کارانہ طور پر ہی کیا جاتا ہے۔ ایک رضا کار دل سے عہد کرتا ہے کہ وہ دکھی انسانیت کی خدمت کےلیے ہر ممکن کوشش کرے گا۔ وہ مخلوق کی خدمت کرتے ہوئےنہ تھکتا ہے اور نہ رکھتا ہے، دکھاوے اور نمائش سے کوسوں دور بھاگتا ہے۔ یہی لوگ دل میں خوف خدا لیے دکھی انسانیت کی خدمت ہمہ وقت تیار رہتے ہیں اور انہی لوگوں کی وجہ سے ہی دنیا خوب صورت اورآباد ہے۔ محتاجوں کے کام آنا، بھوکوں کو کھانا کھلانا، اپاہجوں اور یتیموں کی سرپرستی کرنا ایسی نیکیاں ہیں جو امن و آشتی اور انس و الفت کے پھول بکھیرتے ہوئے دلوں کو تسکین بخشتی ہیں۔ خدمت خلق کا ایک نمونہ ضلع دیر کے معروف سیاسی، سماجی و روحانی خاندان کا چشم و چراغ سر رحیم شاہ اخون خیل کا بھی ہیں، جو فلاحی و سماجی کاموں کےلیے ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں۔
دراز قد، بھاری بھر کم جسم، داڑھی چٹ، مناسب مونچھیں، سر پر ضلع دیر کی روایتی ٹوپی، روشن چہرہ، توسیع پذیر پیشانی، کشادہ بازو، باہر نکلا ہوا سینہ، ہر دم لبوں پر مسکراہٹ سجائے، کپڑوں سے میچنگ کرتا ہوا واسکٹ اور ملنے جلنے کا مخصوص انداز ان کی شخصیت کو مزید پرکشش بنا دیتی ہے۔
موصوف ضلع دیر کے تاریخی گاؤں ماندیش میں فیروز شاہ اخون خیل کے گھر میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی دینی و دنیاوی تعلیم گھر اور گاؤں کی مسجد میں حاصل کی۔ جماعت اول تک عصری تعلیم گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری سکول خال سے جب کہ جماعت دوم کا عصری تعلیم گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری سکول رباط سے حاصل کی۔ 1970ء میں تیسری جماعت کی طالب علم تھے کہ کراچی ہجرت کرگئےاور وہاں اپنا تعلیمی سلسلہ جاری رکھتے ہوئے سی ایم ایس سکول سے میٹرک اور اسی سکول کے کالج سے ایف ایس سی کا امتحان پاس کرنے کے بعد اعلا تعلیم کےلیے مارچ 1982ء میں امریکہ کا سفر کیا۔ وہاں سے سول انجنیئرنگ کی ڈگری حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ایم بی اے میں بھی ماسٹر کی ڈگری اعلا نمبروں سے حاصل کی۔ گریجویشن مکمل کرنے کے بعد بطورِ منیجمنٹ کنسلٹنٹ اپنے عملی زندگی میں قدم رکھا۔ انیس سال تک اسی عہدے پر فائز رہے۔ 2008ء میں مذکورہ عہدے سے سبک دوش ہوئے تو اپنا ذاتی کاروبار شروع کیا جس میں تاحال مصروف عمل ہیں۔
خدمت خلق کا جذبہ ان کی فطرت میں کھوٹ کھوٹ کے بھرا ہے، کیوں کہ بچپن ہی سے آپ کا میلان و رجحان فلاحی و سماجی کاموں کی طرف مائل تھا۔ امریکہ میں دوران طالب علمی آپ نے ایک طلبہ تنظیم بنائی تھی جو نئی آنے والے طلبہ کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتی تھی۔
آپ عملی زندگی میں فلاحی و سماجی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لیتے آئے ہیں۔ بلکہ ہمیشہ صفِ اول ہی میں کھڑے نظر آتےہیں۔
بقولِ علامہ محمد اقبال!
ہے لوگ وہی جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے
آپ نے 2010ء کو “خہ بی بی ویلفئیر ٹرسٹ” کے نام سے ایک فلاحی ادارہ کی بنیاد رکھی جو ایک غیر سرکاری، غیر سیاسی اور غیر منافع بخش تنظیم ہے اور تاحال اپنے خدمات نبھا رہی ہے۔ یہ تنظیم امریکہ میں عموماً جب کہ پاکستان میں خصوصاً اپنا ایک فعال کردار ادا کر رہی ہے۔ تنظیم لوئر دیر، اپر دیر اور کراچی میں تعلیم، صحت اور کھیل کے میدان میں خدمت خلق کی گراں قدر خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ اسی طرح آپ “سر فاونڈیشن” کے نام سے ایک اور فلاحی ادارہ بھی چلا رہے ہیں جس کا کام بھی مذکورہ بالا شعبہ جات میں انسانیت کا بے لوث خدمت کرنا ہے۔ واضح رہے کہ یہ دونوں ادارے وہ ذاتی بنیاد پر چلا رہے ہیں، جس میں ان کو سرکاری یا غیر سرکاری کوئی امداد نہیں مل رہی۔ آپ نے اپنے کاروبار کے آمدن کا تیسرا حصہ ان فلاحی و سماجی کاموں کےلیے وقف کر رکھا ہے جس کا پچاس فیصد وہ پاکستان میں مذکورہ بالا شعبہ جات میں جب کہ باقی ماندہ پچاس فیصد امریکہ میں اسلامی مدارس، مساجد اور سکولوں پر خرچ کرتے ہیں۔
جاتے جاتے بس یہی دعا ہے کہ اللہ تعالا موصوف کو لمبی زندگی عطافرمائے، تاکہ خدمتِ خلق کے جذبے سے مخلوقِ خدا کی ایسی خدمت جاری رکھ سکیں، آمین!
بقولِ پروفیسر ڈاکٹر اباسین یوسف زئی:
پہ جوند کے ھغہ وخت دہ کار شی سڑے
دہ بنیادمو چی پہ کار شی سڑے
دہ خلی خبری وی دہ خلی خبری
سڑے ھغہ چی پہ کردار شی سڑے