مدّبر، زیرک، غیرت مند اور پختون سیاست دان کی حیثیت سے جانے والے ملک کالو خان 1529ء کو ضلع صوابی کے گاؤں کالو ڈھیر میں ملک علی خان یوسف زئی کے ہاں پیدا ہوئے۔
معروف پختون مؤرخ ڈاکٹر محمد ہمایوں ہماؔ کے مطابق کالو خان کا قد لمبا اور رنگت گوری تھی۔ وہ پختونوں کا روایتی لباس زیب تن کیا کرتے تھے۔ جب آپ پیدا ہوئے، تو آپ کی بہتر صحت کو دیکھتے ہوئے عزیز و اقارب نے آپ کا نام کالو خان رکھ دیا کیوں کہ پشتو زبان میں اگر اسم “کالو” کو واوِ معروف سے پڑھا جائے، تو اس کے معنی “کالا کلوٹا” کے بنتے ہیں اور اگر کو واوِ مجہول سے پڑھا جائے، تو اس کے معنی زیورات یا زیب و زینت کی دیگر اشیا کے بنتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کالو رنگت کے نہیں بلکہ خوب صورتی کے معنوں میں مستعمل ہے۔ اس لیے آگے جاکر آپ کو اسی نام سے پُکارا جانے لگا۔
قارئین! کالو خان مغل بادشاہ شہنشاہِ اکبر کے ہم عصر تھے۔ دلیری، ہمت، بہادری اور شجاعت کی وجہ سے اُس وقت قبیلۂ یوسف زئی کے سردار چُن لیے گئے جب مذکورہ قبیلہ مغلوں کو خراج نہ دینے، اُن کی حکمرانی نہ ماننے اور اپنی سرزمین پر غیروں کے تسلط کے مخالفت کی وجہ سے مغل بادشاہ اکبر کی دشمن بن کر چلی آرہی تھی۔ مغل حکمرانوں نے ہر ممکن کوشش کی کہ یوسف زئی قبیلے کو شکست دے کر اس پر اپنا تسلط قائم رکھے لیکن یہ ارمان وہ اپنے ساتھ قبر تک لے گئے۔
سال 1580ء کو جب قبیلۂ یوسف زئی دو گروہوں یعنی اخون درویزہ گروپ اور پیر روخان گروپ میں بٹ گیا، تو دونوں کے درمیان صوابی کے علاقہ ٹوپی باڑہ کے مقام پر خون ریز جنگ ہوئی، جس میں ہزاروں لوگ جان سے گئے۔ اس جنگ میں پیر روخان گروپ کو شکست ہوئی اور ایک فیصلہ کن لڑائی ختم ہوئی۔ مذکورہ جنگ میں پیر روخان کا ایک بیٹا جان سے ہاتھ دھو بیٹھا، جب کہ دوسرا زندہ رہتے ہوئے مغل نے قید کردیا۔
افراتفری کے اس عالم میں ملک کالو خان بابا نے غیر جانب دار رہتے ہوئے دوبارہ یوسف زئی قبائل کو ایک لڑی میں پرونے کی کوشش کی۔ اس مقصد کے حصول کےلیے انہوں نے ایک جرگہ تشکیل دیا اور یوسف زئیوں کے تمام علاقوں کے دورے کیے۔ اس حوالہ سے ملک کالو خان کی ایک ہی کوشش ہوتی، وہ جہاں بھی جاتے، یوسف زئیوں کو اس بات پر سمجھانے کی کوشش کرتے کہ پختونوں کو آپس میں لڑانا مغلوں کی سازش ہے۔ یوں بہت جلد ملک کالو خان کی کوششیں رنگ لائیں اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے۔ جس کے بعد تمام یوسف زئی پختونوں نے باہمی مشاورت سے ان کو اپنا راہنما مقرر کرلیا۔ یوں ملک کالو خان یوسف زئی قوم کے سردار منتخب ہوئے۔
اخون درویزہ نے شہنشاہِ اکبر کو یہ باور کرانے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی کہ آنے والے دور میں ملک کالو خان مغل شہنشاہیت کےلیے ایک بڑا خطرہ ثابت ہوسکتا ہے۔ اخون درویزہ نے اکبر کو یوسف زئیوں کے جرگوں اور ملک کالو خان کے حوالے سے بطورِ خاص آگاہ کیا کہ ملک کالو خان ایک کھرا مسلمان ہے اور ہماری ایک نہیں مانتا۔ کیوں کہ ہر وقت مغل سلطنت کے ساتھ برسرِ پیکار رہتا ہے اور شہنشاہِ اکبر کی فرمان برداری نہیں کرتا۔ اس بارے اکبر نے ایک جرگہ نوشہرہ کے علاقے میں بلوایا۔ جرگہ ختم ہونے کے بعد اکبر نے دیگر شرکا کو جانے کا حکم دیا جب کہ حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے ملک کالو خان کو اپنے ساتھ آگرہ لے گئے۔ آگرہ جاتے ہوئے ملک کالو خان نے غازی خان بابا کو اپنی جگہ یوسف زئی قبیلے کا سربراہ مقرر کیا۔ آگرہ میں شہنشاہ اکبر نے ملک کالو خان کے خوب صورت جوانی، عقل مندی اور مہذب اندازِ گفتگو کی وجہ سے ان کو بڑی عزت بخشی مگر اسے واپس جانے کی اجازت نہیں دی، یعنی ان کو سیاسی نظر بند کیا گیا تھا۔

مغل شہنشاہ اکبر، جن کے جلال کو ملک کالو خان جیسے شخصیت نے روبہ زوال کیا

جب قبیلۂ یوسف زئی کے آپس میں اختلافات ختم ہوئے، تو مانیرئی گاؤں کے مطرب زینون کو کالو خان بابا کے پاس دہلی بھیجا گیا اور جب نمازِ فجر کے بعد دونوں کی جامع مسجد دہلی میں ملاقات ہوئی، تو زینون نے بابا کو فارسی زبان میں کہا کہ “ہانڈی” تیار ہے۔ چوں کہ زینون نے اپنا حلیہ ایک دیوانے کا بنایا ہوا تھا، اس لیے دوسرے لوگ ان کی بات کا اصل مطلب نہ سمجھ سکے۔ اگلے ہی روز کالو خان بابا نمازِ فجر کے بعد وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہوئے لیکن بدقسمتی سے اٹک کے مقام پر دریائے سوات کو عبور کرتے ہوئے شمس الدین خان خانی کے ہاتھوں ایک بار پھر گرفتار ہوئے۔ شمس الدین خان خانی نے اسے واپس شہنشاہ اکبر کے حوالے کر دیا، جہاں اُسے ایک بار پھر نظر بند کر دیا گیا۔ اُس وقت عام تاثر یہ تھا کہ اب اکبر انہیں قتل کیے بغیر نہیں چھوڑے گا مگر وہاں اُسے مزید مراعات سے نوازا گیا۔ لیکن قوم، مٹی اور غیرت کا تقاضا تھا، اس لیے کچھ عرصہ بعد دوبارہ فرار ہوتے ہوئے اپنے علاقے اور قبیلے تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ کیوں کہ ان کو مغل کی سازشوں کا بخوبی علم تھا۔ نتیجتاً انہوں نے وطن پہنچتے ہی بغاوت کا اعلان کیا اور مغل کی کھل کر مخالفت شروع کی۔ یہ دراصل وہ مخالفت تھی جو ’’روخانی تحریک‘‘ کے پیروکار بھی کرتے تھے۔ بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ یوں روخانی تحریک نے ایک نیا روپ دھار لیا۔ اسی دوران غازی خان بابا وفات پاچکے تھے۔ قوم نے ایک بار پھر کالو خان بابا کو قبیلے کا سربراہ مقرر کیا۔ جس کے بعد ملک بابا نے نے جنگ کی تیاری کرتے ہوئے لشکر کے ساتھ پہاڑی کی طرف روانہ ہوئے، جہاں ان کا مقابلہ مغل سپہ سالار بیربل، جرنیل زین خان کوکہ اور حکیم ابوالفتح کے لشکر سے ہوا۔ جب جنگ شروع ہوئی، تو مغل حکمران اکبر کے چہیتے اور قابل سپہ سالار بیربل قتل ہوا اور یوں مغلوں نے شکست کھالی۔ مغل یہ تسلیم کرچکے ہیں کہ اِس جنگ میں اُن کے آٹھ ہزار سپاہی قتل ہوئے ہیں جب کہ دوسری طرف غیر جانب دار مؤرخین یہ تعداد چالیس ہزار تک بتاتے ہیں۔ تاریخ کی کتابوں میں رقم ہے کہ اکبر بیربل کی موت پر اتنا افسردہ تھا کہ دو دن تک اس نے کچھ کھانے پینے کو ترجیح دی اور نہ ہی زین اور ابوالفتح کے ساتھ بات چیت تک کو گوارا کیا۔
کالو خان کی لیاقت، سیادت اور قیادت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اپنے علاقائی ضرورتوں کو دیکھتے ہوئے پانی کے ذخائر کا ایک زبردست طریقے سے اہتمام کیا۔ آج بھی صوابی کے علاقہ میں ان کے نام پر پانی کو ذخیرہ کرنے کےلیے کئی چھوٹے بڑے تالاب موجود ہیں، جن میں ’’کالو ڈنڈ‘‘ کا نام سرِفہرست ہے۔
قارئین! تاریخ بتاتی ہے کہ ملک کالو خان نے سلطنتِ مغلیہ کے خلاف کُل 79 جنگیں لڑیں جو سب کے سب وہ جیت چکے ہیں۔ دوسری تاریخی لڑائی صوابی کے میدانی علاقے میں لڑی گئی۔ جس میں مغلوں کو تمام تر جنگی ساز و سامان موجود ہونے کے باوجود شکست ہوئی۔ اس کے علاوہ سب سے بڑی اور مشہور لڑائی مغلوں کے خلاف بونیر کے”ملندری“ کے مقام پر لڑی گئی، جس کےلیے مغلوں نے چالیس ہزار فوج کے علاوہ اپنی بہترین حکمت عملی اور جنگی ساز و سامان سے لیس لشکر تیار کیا تھا۔ مگر یہاں بھی غیر تربیت یافتہ غیور قبائلی فوج نے کالو خان بابا کی سربراہی میں مغلوں کو اذیت ناک شکست دی، جس کی بازگشت نہ صرف ہندوستان میں بلکہ آس پاس کے دوسرے ممالک میں بھی سنی گئی۔ یہ لڑائی جیتنے کی وجہ سے کالو خان بابا کو ”فاتح ملندری“ کا خطاب بھی دیا گیا ہے۔ کال درہ اور جگنات کے مقامات پر لڑائیوں میں فتح حاصل کرنے اور مغل فوجی جرنیل زین خان کو گرفتار کرنے کے باوجود اسے زندہ چھوڑا، کیوں کہ 1581ء کو جب یوسف زئی قبیلہ کمزور حالت میں تھا، تو جرنیل زین خان نے اکبر بادشاہ کو اس کی سفارش کرکے قبیلے کو مکمل تباہی سے بچایا تھا، اس لیے کالو خان بابا نے ان کے احسان کا بدلہ چکا دیا۔
دور اندیشی اور بہادری کے ساتھ ساتھ کالو خان بابا اعلا پائے کے شعلہ بیان مقرر بھی تھے۔ جس کا اندازہ ان کی اُس تقریر سے ہوتا ہے جو انہوں نے”دمغار“ میں فتح کے بعد اپنے لشکر کے سامنے کی تھی اور انہوں نے مغلوں کے حمایت یافتہ لوگوں کو ورتۂ حیرت میں ڈال دیا تھا۔ کالو خان بابا کی دور اندیشی ان کے خطوط سے بھی واضح ہے جو انہوں نے مغلوں کے ساتھ خط و کتابت میں لکھے تھے۔
قارئین! پختونوں کی آزادی کےلیے لڑنے والے یہ عظیم ہیرو گزشتہ چار سو سالوں سے اپنے قوم کی بے حِسی کے سبب گم نامی کے اندھیروں میں غرق صوابی کے نواں کلی میں ایک شکستۂ حال قبر میں آسودۂ خاک ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ خیبر پختون خوا میں تو کیا، نواں کلی میں بھی کسی کو اس عظیم سپہ سالار کی قبر تک معلوم نہیں۔ یہ صرف ایک سپہ سالار کی درد بھری داستاں ہے، لیکن ایسے سیکڑوں پختون شخصیات ہیں، جنہوں نے ہی اصل میں پختون قوم کو عظمت، جُرأت اور بہادری کا نشاں ٹھہرایا مگر آج ہمیں ان کی قبروں کا تو کیا، ناموں تک کا بھی پتا نہیں۔
افسوس ناک امر یہ ہے کہ ہمارے ایسے مشاہیر کا نصابی کتب میں کوئی تذکرہ ہی نہیں، اُلٹا ان کی تضحیک کےلیے مضامین چھاپے جاتے ہیں۔ لہٰذا آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے مضامین شاملِ نصاب کیے جائیں جن سے یہ مشاہیر طلبہ پر آشکارا ہو سکیں اور ان سے سبق سیکھیں کہ اپنی مٹی پر جاں قربان کرنا کس قدر عظیم عمل ہے۔
شیئرکریں: