☆ حیاتِ مقدسہ
حضرت شاہ ولی اللہ 21 فروری 1703ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ اپنے والد شاہ عبدالرحیم جو خود ایک عظیم عالم اور صوفی تھے، سے علمی اور روحانی تعلیم حاصل کی۔ جب وہ نوعمر تھے، تو والد کا انتقال ہو گیا۔ تب انہوں نے اپنے والد کے مدرسہ "مدرسہ رحیمیہ” میں تدریس کا آغاز کیا اور وہاں 12 سال تک پڑھاتے رہے۔ اس کے بعد اعلا تعلیم اور حج کی غرض سے حجاز تشریف لے گئے۔ 14 ماہ کے قیام کے دوران میں انہوں نے مکہ و مدینہ کے جید علما سے علم حاصل کیا۔ انہوں نے اپنے محبوب استاد شیخ ابو طاہر بن مدنی سے ملاقات کی اور ان سے حدیث کی سند حاصل کی۔ (1) جولائی 1732ء میں وہ واپس دہلی آ گئے اور پھر ہندوستان کے مسلمانوں کی اصلاح کے لیے کمر بستہ ہو گئے۔ انہوں نے "اسلامی علوم” کی مختلف شاخیں کھولیں اور مسلم معاشرے کی اصلاح میں اہم کردار ادا کیا۔ 10 اگست 1762ء کو ان کا انتقال ہوا۔ (2)
☆ شاہ ولی اللہ کے معاشی و سماجی نظریات
پسِ منظر: شاہ ولی اللہ کا دور سیاسی عدمِ استحکام اور زوال کا دور تھا۔ سیاسی زوال عام طور پر اخلاقی اور سماجی تنزلی کا سبب بنتا ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ اخلاقی و سماجی زوال سیاسی گراوٹ کو جنم دیتا ہے۔ شاہ ولی اللہ کے زمانے میں بادشاہوں خاص طور پر محمد شاہ (1719-48)، احمد شاہ (1748-54) اور جہان دار شاہ (1754-59) اور عام امراء سماجی و اخلاقی جرائم میں ملوث تھے اور عوام بھی ان سے متاثر تھے۔ ریاست کی بڑھتی ہوئی مالیاتی مطالبے، زمین داروں، ٹھیکے داروں اور دیگر لوٹ مار کرنے والوں کے مظالم نے عوام کی زندگی اجیرن بنا دی تھی۔ ایسے میں ایک روحانی رہ نما کی ضرورت تھی جو قوم کو صحیح راستہ دکھائے اور انہیں ان چیلنجز سے نمٹنے کی تربیت دے جو معاشرے، خاص طور پر مسلمانوں کی معاشی حالت کے لیے نقصان دہ تھے۔ شاہ ولی اللہ نے حکومت اور عوام دونوں کو جھنجوڑا۔ انہوں نے حاکم اور رعایا دونوں کو یہ احساس دلایا کہ جو ذمے داری انہیں سونپی گئی ہے، اسے پورا کریں اور ایسے اعمال سے بچیں جو معاشرے کی ترقی اور خوش حالی میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ (2)
قارئین، شاہ ولی اللہ کے چند اہم معاشی و سماجی نظریات درج ذیل ہیں:
1۔ ریاست کی ذمے داری: ان کا ماننا تھا کہ ریاست کی اولین ذمے داری معاشرے کی خوش حالی اور ترقی کے لیے اقدامات کرنا ہے۔ ریاست کو برائیوں کا خاتمہ کرنا چاہیے۔ (3) تجارتی بدعنوانیوں پر نظر رکھنی چاہیے۔ ریاست کو لوگوں کو مختلف پیشوں جیسے معاشیات، زراعت، فوج وغیرہ میں منظم کرنا چاہیے تاکہ انسانی ضروریات پوری ہو۔ وہ زراعت کو سب سے اہم سرگرمی سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ ریاست کو اس کی ترقی کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنے چاہیے۔ انہوں نے لوگوں کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے ماہر پیشوں کو ہی اختیار کریں۔ (4)
2۔ معاشی بگاڑ کی وجوہات: اپنی مشہور کتاب "حجۃ اللہ البالغہ” میں انہوں نے انتشار اور زوال کی وجوہات بیان کیں: "آج کل ریاست کی تباہی کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ لوگوں نے بغیر کوئی خدمت کیے خزانے سے رقم لینے کی عادت بنا لی ہے۔ وہ یہ بہانہ بناتے ہیں کہ وہ سپاہی یا علماء ہیں اور خزانے پر ان کا حق ہے، یا وہ ان لوگوں میں سے ہیں جنہیں بادشاہ خود انعامات دیتا ہے، جیسے صوفیا، شعرا یا دیگر گروہ جو بغیر کسی خدمت کے وظیفے حاصل کرتے ہیں۔ یہ لوگ دوسروں کی آمدنی کے ذرائع کم کرتے ہیں اور معیشت پر بوجھ بنتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ کسانوں، تاجروں اور مزدوروں پر بھاری ٹیکس لگائے جاتے ہیں اور ان کے ساتھ ناانصافی کی جاتی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ جو لوگ ریاست کے وفادار ہیں اور اس کے احکامات مانتے ہیں، وہ آہستہ آہستہ تباہ ہو رہے ہیں۔ باغی اور ٹیکس چور مزید باغی ہو رہے ہیں اور ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ کسی ملک کی خوش حالی ہلکے ٹیکس اور فوج و دیگر محکموں میں ضروری تقرریوں پر منحصر ہے۔ لوگوں کو اس اصول کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔” (5)
3۔ مزدوروں اور کسانوں کی اہمیت: انہوں نے کاریگروں، مزدوروں اور کسانوں کو بیدار کیا کہ معاشی خوش حالی انہی پر منحصر ہے۔ لہٰذا، انہیں ریاست کے لیے اپنی صلاحیتیں وقف کرنی چاہیے اور غیر اخلاقی لذتوں سے بچنا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا: "صبح و شام عبادت میں گزارو۔ ہمیشہ اپنا خرچ اپنی آمدنی سے کم رکھو۔ جو کچھ بچاؤ، مسافروں اور ضرورت مندوں پر خرچ کرو۔ غیر متوقع اخراجات اور اچانک مصیبتوں کے لیے کچھ بچت رکھو۔” (6)
4۔ غربت کی نفی: انہوں نے اس نظریے کو مسترد کیا کہ غربت اللہ کو پسند ہے۔ انہوں نے کہا: "بعض طبقات کا جبری فاقہ کشی معاشرے کی بہبود کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔ یہ کوئی فضیلت نہیں بلکہ جرم ہے۔ اسلام کسی طبقے کو یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ دوسروں کو ہمیشہ محنت کش ہی رہنے پر مجبور کرے۔ اسلام کا مقصد سماجی انصاف ہے، جو تب ہی ممکن ہے جب معاشرہ طبقاتی کشمکش سے پاک ہو اور ہر فرد کو اپنی صلاحیتیں نکھارنے اور اپنی انفرادیت کو مضبوط بنانے کا موقع ملے۔ اسلام سکھاتا ہے کہ یہ مضبوط انفرادیت، جو تجربات سے پختہ ہو، خود غرضی کا شکار نہ ہو بلکہ اللہ کی عبادت اور انسانیت کی خدمت کے لیے وقف ہو۔ اسلام کبھی بھی اپنے پیروکاروں کو ظالمانہ نظام کے آگے بے چوں و چرا جھکنے کی تعلیم نہیں دیتا۔ پیغمبرِ اسلام نے غربت نہیں بلکہ انصاف کی تعریف کی ہے۔” (7)
5۔ دنیاوی دولت کا خطرہ: انہوں نے خبردار کیا کہ مادی دولت کی محبت قوم کو اخلاقی خلا اور انتشار کی طرف لے جاتی ہے، جو بالآخر اس کے زوال کا سبب بنتی ہے۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول یاد دلایا: "خدا کی قسم! مجھے تمہاری غربت کی فکر نہیں، بلکہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں تم پر دنیا کی دولت اس طرح نہ پھیل جائے جیسے تم سے پہلے لوگوں پر پھیلی تھی، اور پھر وہی دولت تمہیں تباہ کر دے جیسے اس نے تم سے پہلے کے لوگوں کو تباہ کیا۔” (8)
6۔ امیر و غریب کا فرق: ان کا کہنا تھا کہ دولت کی ہوس کے ساتھ طاقت کی محبت بھی جڑی ہوتی ہے۔ امراء خود غرض، لالچی اور ظالم ہو جاتے ہیں، جس سے معاشرہ دو طبقات میں بٹ جاتا ہے: امیر اور غریب۔ ان کے درمیان شدید کشمکش پیدا ہوتی ہے۔ امیر طبقہ غریبوں پر ظلم کرتا ہے، جس سے معاشرے کا اخلاقی ڈھانچہ تباہ ہو جاتا ہے اور بالآخر معاشرہ گر جاتا ہے۔ (9)
7۔ سماجی انصاف کی اہمیت: ان کا ماننا تھا کہ انفرادی نجات سماجی انصاف کے بغیر ممکن نہیں۔ اسلام نے خاندانی نظام کو بنیادی اہمیت دی ہے، جو اسلامی معاشرے کی بنیاد ہے۔
8۔ قومی ترقی کا راز: انہوں نے زور دیا کہ جب تک ہر مسلمان ایمانداری سے روزی کمائے، اپنے اہل و عیال کی دیکھ بھال کرے، اور اپنی بچت کو قومی ترقی کے لیے وقف کرے، قوم کی سیاسی زندگی کم زور رہے گی اور ہر مشکل سے ٹوٹ جائے گی۔ ان کا کہنا تھا: "جیسے ایک صحت مند دماغ صرف صحت مند جسم میں رہ سکتا ہے، اسی طرح ایک صحت مند معاشرہ صرف ایمان داری اور محنت سے ترقی کر سکتا ہے۔” (10)
9۔ فوج کی تنخواہوں میں بہتری: انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ فوج کے تنخواہوں کو بہتر بنایا جائے کیوں کہ فوج ملک کا اہم اثاثہ ہے۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ فوج کو اتنی تنخواہ دی جائے کہ بدعنوانی ختم ہو، اور جو لوگ بدعنوانی میں ملوث ہوں، انہیں سزا دی جائے۔
10۔ مہنگائی اور لوٹ مار پر تشویش: انہوں نے آصف جاہ کو خط لکھا: "بہ راہ کرم، اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے مہنگائی کے بڑھتے ہوئے رجحان کو روکیں۔ ہر طرف ہونے والی لوٹ مار کو بند کریں۔” (11)
11۔ معاشرتی خرابیوں پر نظر: انہوں نے حکم رانوں کو مشورہ دیا کہ وہ ان لوگوں پر نظر رکھیں جو معاشرے میں انتشار پھیلاتے ہیں کیوں کہ ان کے بغیر قوم کی معاشی خوش حالی ممکن نہیں۔ (12)
☆ اختتامیہ
قارئین، حضرت شاہ ولی اللہ مسلم معاشرے کے حقیقی مصلح تھے۔ انہوں نے مسلمانوں کو غفلت سے جگایا اور انہیں ایسے اعمال سے روکا جو ریاست کے لیے نقصان دہ تھے۔ انہوں نے حکومت کو امن و استحکام قائم رکھنے اور عوام پر بوجھ کم کرنے کی تلقین کی۔ انہوں نے عوام کو بھی اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کی یاد دہانی کرائی۔ وہ ایک عظیم معاشی مفکر تھے جنہوں نے اپنے دور کے معاشی مسائل کو اجاگر کیا اور ان کا حل پیش کیا۔ ان کے نظریات نہ صرف عوام کی بہبود بلکہ ریاست کی معاشی ترقی کے لیے بھی انتہائی اہم ہیں۔
☆ حوالہ جات
1. ایس ایم اکرم، تاریخ تمدن اسلام ہند و پاک (لاہور: انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک کلچر، 1993)، ص 478-479.
2. افسانہ خاتون، "شاہ ولی اللہ کے معاشی و سماجی نظریات” (علی گڑھ یونیورسٹی، 2016)، ص 20.
3. جی اللہ دینہ، ہمارے مجاہدین آزادی (کراچی: نیشنل بک فاؤنڈیشن، 1977)، ص 142-143.
4. آئی ایچ قریشی، پاکستان کی مختصر تاریخ (کراچی: بی سی سی اینڈ ٹی پریس، 2018)، ص 622-623.
5. جی اللہ دینہ، ہمارے مجاہدین آزادی، ص 42.
6. اعجاز احمد فاروقی، پاکستان: اسلام کے احیاء کا بحران (لاہور: سنگ میل پبلیکیشنز، 1991)، ص 144.
7. ایضاً، ص 145.
8. ایضاً، ص 145-146.
9. ایضاً، ص 142.
10. جی اللہ دینہ، ہمارے مجاہدین آزادی، ص 42.
11. ایضاً، ص 44.
12. ایضاً، ص 45
______________________________
قارئین، یہ تحریر لیکچرار عمران خان کے انگریزی مضمون "Socio-economic views of Shah Wali Ullah” کا اردو ترجمہ ہے۔ ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔