جب تک وہ عبدالغفار خان تھے، ہم بس پختون ہی تھے۔ ایک دوسرے سے ہمشہ برتر اور ایک دوسرے کو ہر حالت میں نیچا دکھانے کے لیے تیار تھے۔ لیکن انہوں نے باچا خان بن کر ہمیں ایک قوم میں پرونا چاہا۔ جس کی خاطر ہمیں تعلیم اور سیاسی شعور سے آراستہ کیا۔ اس دور میں انگریز نے ہماری جو بھی تاریخ لکھی، تو اپنی ہر کتاب کے سرورق پر ہماری پرچھائی کے ساتھ بندوق کی تصویر بنائی اور ہر صفحے پر جنگوں کی کہانیاں لکھیں۔ لیکن باچا خان نے ہمارے ہاتھوں میں قلم تھمایا اور ہمیں مرغوں، کتوں اور تربوروں کو لڑانے کی بجائے تنظیم، نظم وضبط اور معاش کے لیے نئی طرح کی صفیں بنانا سکھائیں۔
باچا خان کی تحریک کے اثرات جہاں جہاں تک پہنچے، ان علاقوں اور لوگوں، اور جہاں تک وہ نہیں پہنچ سکے، ان علاقوں اور لوگوں کی طرز زندگی اور سیاسی سوجھ بوجھ اور ترجیحات میں آج بھی بڑا فرق موجود ہے۔
وہ ہندوستان کے مہذب، معاشی طور پر مضبوط اور سیاسی طور پر ترقی یافتہ قوموں کی ساری اچھی خوبیاں اپنی قوم کے اندر سمونے کےلیے کوشاں رہیں۔ ان کا راستہ بھی، آج کے روشن فکر پختونوں کے راستے کی طرح رجعت پسند اور پیسا پرست نوسر بازوں نے روکا تھا، لیکن وہ چراغ سے چراغ جلاتے آگے بڑھتے گئے۔
قارئین، دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر پاکستان اگر اچانک معرض وجود میں نہ آتا، تو آج پختون نسبتاً زیادہ تعلیم یافتہ، زیادہ خوش حال اور روشن فکر ہوتے۔ پاکستان بننے کے بعد اور ان کو آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت نہ دیئے جانے کی وجہ سے، جو انہوں نے بویا تھا، وہ سب سرکاری سرپرستی میں ضائع کرا دیا گیا۔ انہوں نے پختونوں کو غیروں کے خلاف تشدد کرنے سے روکا تھا لیکن اب پختونوں کو تشدد کی ایک ایسی مشینری میں تبدیل کیا گیا، جس نے اس سیکھی ہوئی تشدد کو، عدم تشدد کے خوگروں یعنی اپنے بھائیوں کے خلاف استعمال کیا۔
جن علاقوں کے پختونوں تک باچا خان کو پہنچنے نہیں دیا گیا تھا، ان علاقوں کو تشدد کے مستقل مراکز میں تبدیل کیا گیا۔ اور اب بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ان علاقوں میں تسلسل سے امن مارچیں اور پاسون ہو رہے ہیں لیکن امن کی ناراض اور خوف زدہ پری وہاں واپس آنے پر کسی طرح تیار نہیں۔ امن واپس نہ آنے کی ایک اور بڑی وجہ یہ ہے کہ جن نوسر بازوں نے وہاں کے باشندوں کو دنیا بیزار مجاہد اور ابدی جنتی بنایا ہوا تھا، آج بھی وہ ان کے راہ بر و امیر بنے ہوئے ہیں۔
پختون علاقوں کا امن، واپس پختون بن کر واپس آسکتا ہے۔ یاد کریں، جنگ لانے سے پہلے آپ کے وہ بزرگ قتل کردیے گئے تھے، جو آپ کے درمیان جرگہ بٹھا کر صلح کردیا کرتے تھے، تاکہ جنگ پسند آپ کے لیڈر بن سکے۔ آج بھی کرم کے پختون صرف پختون بن کر دوبارہ امن پاسکتے ہیں۔ ورنہ جس طرح باچا خان دوبارہ آنا اب ممکن نہیں، اسی طرح امن بھی ہمیشہ کےلیے رخصت ہو سکتاہے۔
__________________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔