پشتو شاعری کے "حافظ شیرازی” کہلائے جانے والے عظیم صوفی شاعر رحمان بابا کا اصل نام عبدالرحمان مہمند تھا۔ والد گرامی کا نام عبدالستار تھا۔
موصوف 1632ء بہ مطابق 1041 ہجری کو پشاور سے جنوب کی طرف پانچ میل کے فاصلے پر واقع ایک گاؤں "بہادر کلئی” میں پیدا ہوئے۔ آپ پختون قوم کے مہمند قبیلے کے ذیلی شاخ "غوریہ خیل” سے تعلق رکھتے تھے۔
قارئین، رحمان بابا پشتو کے عظیم شاعر اور بہادر جنگجو یعنی "صاحبِ سیف و قلم” خوشحال خان خٹک کے ہم عصر تھے۔ آپ بچپن ہی سے تصوف کی طرف مائل طبیعت کے مالک تھے اور دنیا و ما فیھا سے بے نیاز تھے۔ آپ نے بڑے معتبر علماء کرام سے "تصوف” اور "فقہ” کی تعلیم حاصل کی۔ یہی وجہ ہے کہ موصوف اپنے وقت کے ایک بڑے عالم اور متقی انسان ہو کر گزرے ہیں۔
قارئین، موصوف بغداد کے عبدالقادر جیلانی رحیمہ اللہ کے بہت بڑے پیروکار تھے، جس کا اظہار آپ نے خود اپنی شاعری میں بھی بڑے احترام کے ساتھ کیا ہے۔
پختون قوم کے چھوٹے بڑے، پڑھے لکھے، اَن پڑھ، مرد اور عورت سب موصوف سے بے انتہا عقیدت رکھتے ہیں۔ کوئی ایسا پختون ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا جس کو آپ کی شاعری کا کوئی حصہ یاد نہ ہو۔ آپ کا نام نہایت احترام کے ساتھ "بابا” لگا کر لیا جاتا ہے۔ تبھی تو پختون موصوف کی صوفیانہ کلام اپنی روز مرہ زندگی میں ایک دوسرے کو ضرب المثل کے طور پر بھی سناتے ہیں۔
قارئین، رحمان بابا ایک درویش صفت اور امن پسند انسان تھے۔ آپ مختلف قبائل کے مابین جنگ و جدل کو ناپسند فرماتے۔ یہی وجہ ہے کہ موصوف زندگی بھر کبھی ان قبائلی جھگڑوں کا حصہ نہ رہے۔
ڈھیر سارے تاریخ دانوں کا ماننا ہے کہ آپ کے والد ایک مال دار شخصیت تھے پَر رحمان بابا نے فقیری کو ترجیح دی جس کا اظہار آپ نے اپنی شاعری میں بھی کیا ہے۔ کیوں کہ آپ فقیری اور گدا گری کو پسند کرتے تھے۔ تبھی تو کہتے تھے کہ:
بادشاہان کہ اوبہ سکی پہ جام دہ زرو
ما رحمان لہ د خاورو کنڈول بس دے
ما رحمان لہ د خاورو کنڈول بس دے
اسی طرح ایک اور شعر میں کہتے ہیں کہ:
نشی د ملنگانو د خانانو سرہ کلی
چرتہ عزیز خان او چرتہ ملنگ عبدالرحمان
موصوف کی شاعری کو پشتو زباں و ادب میں اعلا مقام حاصل ہے۔ آپ ایک بہترین فلسفی تھے، آپ نے ہر قسم کے علم اور فلسفہ کو اپنی شاعری میں بیان کرنے کی بہترین کوشش کی ہے۔ آپ پشتو صوفیانہ شاعری کے بادشاہ ہیں۔ اگرچہ آپ کی بہت سی شاعری اُس وقت کے نامساعد حالات کی نظر ہو چکی ہے لیکن پھر بھی پانچ ہزار اشعار پر مشتمل آپ کے کلام کا مجموعہ "دیوان” کے نام سے شائع کیا جا چکا ہے۔ کہتے ہیں اب تک وہ درخت موجود ہے جس کی چھاؤں میں بیٹھ کر آپ اشعار لکھا کرتے تھے۔
آپ کی شاعری انسانیت، امن، اسلام اور اخلاقِ حسنہ کی درس پر مبنی ہے۔ چہار صدیاں گزر جانے کے باوجود آپ کی اشعار سن کر ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ آج کے زمانے کی کسی طاق شاعر نے موجودہ حالات اور واقعات کو دیکھ کر اسی مناسبت سے لوگوں کی دینی و دنیاوی راہ نمائی کرنے کی خاطر ایک خوب صورت لڑی میں پروئی ہو۔ آپ کی شاعری میں ہر شخص کو اپنا آپ نظر آتا ہے۔ لہٰذا کوئی بھی آپ کی شاعری سے راہ نمائی حاصل کر سکتا ہے۔ آپ کے عقیدت مند حضرات آپ کو پشتو شاعروں کا سلطان مانتے ہیں۔ انگریزی سمیت مختلف زبانوں میں آپ کے کلام کے تراجم شایع ہو چکے ہیں۔
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ آپ ایک سچے عاشق رسول تھے۔ آپ صوم و صلواہ کے پاپند تھے۔ آپ کی شاعری سمجھنے پر عبور حاصل کرنے والے پشتو کے نامور واعظ مولانا بجلی گھر ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ "ایک دن حکومتِ پاکستان کے ایک وزیر کی درخواست پر رحمان بابا پر ریسرچ کرنے والے امریکہ کے دو باشندے میرے پاس آئے اور مجھ سے رحمان بابا کی قبر کشائی کے وقت رونما ہونے والے واقعہ کے بارے میں دریافت کیا۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ کابل کے بادشاہ ظاہر شاہ نے رحمان بابا اور خوشحال خان خٹک کے قبور کے لیے سنگ مرمر کے تحفے بھیجے تھے۔ رحمان بابا کی قبر کھولتے وقت میری نظر آپ کے چہرے پر پڑی، آپ اتنا زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود بالکل صحیح سلامت حالت میں ابدی نیند سو رہے تھے۔ آپ کے چہرہ مبارک پر مسکراہٹ تھی، آپ کی داڑھی مبارک کو ہاتھ سے چھو کر حیرت ہوئی جو غسل کے پانی سے اب تک تر تھی”۔ مولانا صاحب کا یہ بیان یوٹیوب پر دستیاب ہے۔
قارئین، پشتو زبان و ادب کا یہ درخشاں ستارہ عشق، محبت، انسان دوستی اور بھائی چارے کا درس دیتے دیتے 1706 ء کو اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ موصوف کا مزار پشاور میں رنگ روڈ پر ہزار خوانی کے مقام پر واقع ہے۔ ہر سال 04 اپریل کو آپ کا عرس مبارک نہایت عقیدت کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ جس میں شرکت کرنے کے لیے آپ کے عقیدت مند پاکستان اور افغانستان کے مختلف علاقوں سے آکر آپ کا کلام گاتے اور سناتے ہوئےانہیں خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں۔ جاتے جاتے بس یہی دعا ہے کہ اللہ تعالا انہیں جنت الفردوس عطا فرمائے، آمین۔
____________________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔