پورے 62 سال کا طویل عرصہ گزر گیا، مگر پشتو ادب اور ملک کے مظلوم و محکوم طبقات کے لیے کاکاجی صنوبر حسین مومند کی عملی جد و جہد، ادبی و سیاسی خدمات، ان کے افکار اور اشعار آج بھی یاد کیے جاتے ہیں۔ پشتو کے جدید ادب میں اگر انہیں "بابائے تنقید” کہا جائے، تو بے جا نہیں ہوگا کیوں کہ موصوف نہ صرف پشتو ادب کی سب سے مشہور ترقی پسند ادبی تنظیم "اولسی ادبی جرگہ” کے بانی ہیں بلکہ بہت سے لکھاریوں کی ادبی اور فکری آبیاری میں بھی کاکاجی صنوبر حسین مومند کا بہت بڑا کردار رہا ہے۔ جس کا اعتراف اس تنظیم کی ادبی نشستوں میں حصہ لینے والے اور کاکاجی سے ادبی اور فکری راہ نمائی حاصل کرنے والے پشتو کے بڑے بڑے لکھاری کرچکے ہیں۔
پشتو زباں کے تمام محققین اور نقاد اس بات پر متفق ہیں کہ پشتو کے جدید ادب میں "اولسی ادبی جرگہ” وہ پہلا اور واحد ادبی مدرسہ رہا جس نے نہ صرف جدید تنقید کو متعارف کرایا بلکہ پشتو زباں و ادب کو ڈھیر سارے نامور ادبی اور علمی شخصیات بھی دیں۔ جس کا سہرا اس تنظیم کے بانی، پشتو کے معروف ترقی پسند شاعر، ادیب، دانشور اور سیاست دان کاکاجی صنوبر حسین مومند کے سر سجتا ہے۔
بہر حال اس حوالے سے تھوڑا بہت لکھا جاچکا ہے، تاہم مزید بھی لکھنے اور تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔ آج کاکاجی صنوبرحسین مومند کی 62 ویں برسی کے موقع پر وہ اپنے اس شعر میں بالکل حق بہ جانب ہیں کہ:
بل سروے صنوبر ئی یو پہ غاڑہ زرغون نہ شو
راوتی لہ باڑے نہ نورے ہم کگے ولے دی
(دوسرا ایک سروے صنوبر بھی اس کے کنارے نہیں اُگا، اگر چہ دریائے باڑہ سے اور بھی ٹیڑے نالے نکلے ہیں۔)
قارئین، اس شعر میں کاکاجی نے اپنے آبائی گاؤں "کگہ ولہ” کو کتنے خوب صورت انداز میں سمویا ہے۔ ملک کے غریب، مزدور اور کسانوں کی موجودہ حالت کو دیکھتے ہوئے کاکاجی کا یہ مقبول التجائی شعر آج بھی اپنے معنیٰ و مفہوم کے ساتھ تر و تازہ ہے کہ:
 خدایا! دا بازار تالا کڑے د مغلو
د مفلس حسن پہ یو موٹے چنڑو زی
(اے خدا، مغلو کے اس بازار کو نیست و نابود کردے کہ جس میں مفلس کا حسن ایک مٹھی بھر چنوں کے عوض بِکتا ہے۔)
قارئین، ہماری تاریخ اور تعلیمی نصاب کا سب سے بڑا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ملک و قوم اور اپنے معاشرے کی محکوم اور مغلوب اکثریت کی ترجمانی کرنے والے عوامی قائدین، مصلحین، دانشور اور لکھاریوں کو اس میں رتی برابر جگہ نہیں دی گئی ہے۔ مگر کب تک یہ جھوٹ اور پراپیگنڈے پر مبنی تاریخ اور نصاب چلتا رہے گا…؟ آخر اس کے چہرے سے نقاب اُٹھے گا اور اصل حقائق پھر گلی گلی کوچہ کوچہ اور شہر شہر میں بولا جائے گا۔
 برِصغیر پاک و ہند کی تحریک آزادی کے صفِ اول کے ہیرو کاکاجی صنوبر حسین مومند کا نام طبقاتی سیاست، انقلابی ادب اور صحافت میں جاننا پہچانا ہے لیکن یہ امر افسوس ناک ہے کہ آج تک صنوبر حسین مومند المعروف کاکاجی کی تخلیقی کاوشوں، تنقیدی بصیرت اور منفرد سیاسی فکر کا درست تعین نہیں کیا جاسکا۔ تقسیمِ ہند سے قبل علم و سیاست کے میدان میں بالادست طبقہ کی بالادستی نے کبھی بھی حقیقی عوامی سوچ و اَپروچ کو اُجاگر نہیں ہونے دیا۔ کاکاجی صنوبرحسین مومند کی سب سے بڑی امتیازی خاصیت یہی ہے کہ وہ بہ یَک وقت استعمار، جاگیر دار اور سرمایہ دار کے مخالف تھے۔ وہ بیرونی آقاؤں کے خلاف مسلح جد و جہد میں بھی سرگرمِ عمل تھے اور ساتھ اندرونی گماشتہ اشرافیہ پر بھی تنقید کرنے سے گریز نہیں کرتے تھے۔ متحدہ ہندوستان اور پختون خوا پر برطانوی سامراج کے قبضے کے دوران میں بھی کاکاجی صنوبر حسین مومند بہ یَک وقت "مارکسی نظریات” اور قومی آزادی کی جد و جہد کے نہ صرف پُرزور حامی تھے بلکہ محکوم اقوام کی قومی آزادی کا پرچم نہ اُٹھانے والوں کو "مارکسسٹ” ماننے کےلیے بھی تیار نہ تھے۔ کاکاجی کی یہی سائنٹفک اور متوازن سوچ و اَپروچ سے سامراج کے پروردہ، مفاد پرست اور موقع پرست حاشیہ برداروں کو ہمیشہ ان سے دور رکھا۔ کاکاجی نہ صرف مظلوم و محکوم طبقات کو بلکہ ان کی زبان، ادب اور ثقافت کو بھی کامل طور پر آزاد کرانے کے قائل تھے۔ اگرچہ کاکاجی "مارکس اِزم” اور "نیشنل اِزم” کے حسین امتزاج کے حامی تھے، تاہم برطانوی سامراج کی بہ راہِ راست موجودگی اور خطے کے مخصوص معروضی حالات کے پیشِ نظر وہ قومی آزادی کی جد و جہد کو اولین اہمیت دیتے تھے۔
ذہن نشین رہے کہ کاکاجی صنوبر حسین قومی آزادی اور طبقاتی جد و جہد میں "موہن داس کرم چند گاندھی” کے عدمِ تشدد کی بہ جائے مسلح "پرولتاریہ” جد و جہد کے قائل تھے۔
قارئین، اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پشتو زبان و ادب کی تاریخ میں اب تک کسی بھی شخصیت کو "بابائے تنقید” کا لقب نہیں دیا گیا ہے، تاہم پشتو کے اکثر ناقدین کی نظر میں کاکاجی پشتو زبان و ادب میں اس معیار پر پورے اُترتے ہیں کہ انہیں "بابائے تنقید” کہا اور لکھا جائے۔ کیوں کہ اُبھرتے رحجانات کا نباض، اپنی تنقیدی بصیرت، بلند افکار، مغلوب افراد کا محافظ اور انقلابی اعمال کے باعث صنوبر حسین مومند پشتو زبان و ادب کے دیگر تمام اہلِ علم و ادب میں ایک منفرد اور اعلا مقام کے حامل ہیں جنہوں نے پشتو زبان و صحافت میں تنقیدی روایت کی باقاعدہ بنیاد ڈالی۔
افغان پایہ تخت کابل میں "اکیڈمی آف سائنسز” اور خیبر پختون خوا کے مرکزی شہر پشاور میں "پشتو اکیڈمی” کے قیام سے قبل کاکاجی صنوبر حسین نے "اولسی ادبی جرگہ” کا قیام عمل میں لایا تھا جس میں وقت کے نمائندہ ادباء، شعراء اور سیاسی شخصیات باقاعدگی سے شرکت کیا کرتی تھے۔
قارئین، پشتو ادب میں صنوبر کاکاجی کو "بابائے تنقید” کا لقب شاید آپ کو ایک نیا دعویٰ لگے، مگر قائدِ اعظم یونی ورسٹی اسلام آباد کے پروفیسر اور ہمارے دیرینہ یار ڈاکٹر حنیف خلیل کی کتاب "پشتو ادب میں تنقید” نامی کتاب میں نہ صرف مختلف پہلوؤں کو باقاعدہ قلم بند کیاگیا ہے بلکہ مختلف مستند کتابوں کے حوالے بھی دیے ہیں جن میں پشتو ادب اور سیاست کے بعض نامور اشخاص نے پشتو ادب میں تنقید کو رواج دینے کا کریڈٹ باقاعدہ کاکاجی صنوبر حسین مومند کو دیا ہے۔ ان نامور اشخاص میں بابائے جدید پشتو غزل امیر حمزہ خان شینواری، دوست محمد خان کامل، ہمیش خلیل، ایوب صابر، قلندر مومند، رضا ہمدانی، قمر راہی، اجمل خٹک، ایوب صابر، سیف الرحمان سلیم اور سلیم راز وغیرہ کے نام شامل ہیں۔
سرِدست یہاں صرف "بابائے غزل” امیر حمزہ خان شینواری کا حوالہ دینا ضروری سمجھتا ہوں۔ وہ  کہتے ہیں کہ: ہمارے "اولسی ادبی جرگہ” نے ادب اور خاص کر تنقید کے بارے میں بہت بڑا کام کیا ہے بلکہ میں یہ کہوں گا کہ اولسی ادبی جرگہ کے قیام سے پہلے ادب میں تنقید نام کی کوئی چیز موجود نہیں تھی۔ کوئی جانتا بھی نہیں تھا۔”
اسی طرح معروف شاعر و ادیب قمر راہی نے برِصغیر کی تحریکِ آزادی کے ناقابلِ فراموش کردار صنوبر کاکاجی اور "اولسی ادبی جرگہ” کی گراں قدر تنقیدی خدمات کو دو ٹوک الفاظ میں یوں بیان کیا ہے کہ: کاکا جی صنوبرحسین مومند نے بکھرے ادیبوں کو یَکجا کرنے کےلیے اولسی ادبی جرگہ بنایا۔ مَیں بلا خوف تردید یہ کہہ سکتا ہوں کہ آج جو ہم میں کوئی تنقیدی شعور ہے یا ادب کے کسی موضوع پر گفتگو کر سکتے ہیں، تو یہ سب کچھ کاکاجی کی کرم فرمائیاں ہیں۔”
قارئین، کاکا جی صنوبر حسین مومند کے زیرِ اہتمام تنقیدی نشستوں کی شمع پہلی بار پشاور میں روشن کی گئی تھی۔ دھیرے دھیرے اس کی روشنی پورے پختون خوا میں پھیل گئی اور وہ روشنی آج بھی مختلف ناموں اور شکلوں میں موجود ہے۔
واضح رہے کہ کاکا جی صنوبر حسین مومند اپنی بنیادی شناخت سیاست کو ہی بتاتے ہیں ہر چند کہ وہ ادب و صحافت کے شعبوں میں ہمیشہ زیادہ موثر وفعال رہے۔ وہ سیاست اور ادب کو اولسی حقوق و اختیارات کا محافظ گردانتے ہیں۔ صنوبر کاکاجی سیاسی شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ شعر و ادب کی دنیا میں بھی اپنا بھر پور حصہ رکھتے ہیں۔ ان کی شاعری منفرد انداز کی حامل ہے۔ ان کی شاعری میں گہرا طبقاتی اور قومی شعور بہت نمایاں اور واضح نظر آتا ہے۔
________________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: