چالیس سال تک کسی سخت چٹان پر پانی کے قطرے گر جائے، تو وہ بھی اس پر اپنے اثرات چھوڑ جاتے ہیں۔ لیکن 40 سال تک ایک سیاسی اور نظریاتی جماعت میں رہنے اور 35 سال تک اس کی ترجمان کے طور پر صَرف کرنے کے بعد بھی زاہد خان پر عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے نظریات اور احسانات کا کوئی مثبت اثر نہیں ہوا اور وہ باچا خان کو چھوڑ کر سیدھے قیوم خان کو پیارے ہوگئے، تو ایسی حالت میں زاہد خان کے کردار اور سیاسی سفر پر نقد و نظر ڈالنا ضروری ہو جاتا ہے تاکہ آنے والے دنوں میں ان کی سیاست کو سمجھنے میں آسانی ہو۔
قارئین، راقم کو وہ رات اچھی طرح یاد ہے جب اعظم خان ہوتی اپنی چھوڑی ہوئی سینیٹ نشست پر زاہد خان کو سینٹر بنوانے کے لیے پارٹی کی تمام مرکزی قیادت کے سامنے ڈٹ گیا تھا کیوں کہ پارٹی قیادت اُس وقت یہ سیٹ میجر مختیار کو دینا چاہتی تھی۔
زاہد خان کو اپنے بارے جب پارٹی فیصلے کا یقین ہوگیا، تو وہ مایوس ہوکر اپنے ڈرائیور کے ساتھ وہاں سے نکل گیا۔ جب کہ اُس دوران میں اعظم خان بار بار فون کرکے ان کو یقین دلا رہا تھا کہ سینیٹ کی سیٹ تمہاری ہی ہے لیکن موصوف اعظم خان ہوتی پر اخلاقی پریشر بڑھاتے ہوئے کہتا رہا کہ میں پنڈی کےلیے نکل گیا ہوں اور جی ٹی روڈ پر ہوں۔ جب کہ وہ مردان ہی میں موجود تھا۔ آخری بار اعظم خان ہوتی کا فون آیا کہ واپس آجائے فیصلہ آپ کے حق میں ہوگیا ہے، تو زاہد خان نے جواب دیا کہ مَیں تو حسن ابدال کراس کرچکا ہوں۔ اس کے بعد بھی ڈیڑھ گھنٹے وہاں بیٹھ کر زاہد خان واپس اعظم خان ہوتی کے پاس آیا اور سینیٹر بن گیا۔ بے شک زاہد خان نے طالب علمی کے دور سے سیاست شروع کی ہوگی لیکن ان کی سفید ٹوپی اور اسی رنگ کی پکول میں یونین کونسل کی جیت کا بھی کوئی پَر موجود نہیں تھا اور نہ ہے۔
قارئین، اعظم خان ہوتی کو جو لوگ قریب سے جانتے ہیں ان کا دعویٰ ہے کہ وہ تادیر احساس مند رہنے والی شخصیت تھے۔ ان کی دوسری فیملی پنڈی میں زاہد خان کے ایک گھر میں رہائش پذیر تھی جس کی وجہ سے انہوں نے ہمیشہ زاہد خان کو سب پر فوقیت دی اور ثبوت میں ویسٹریج میں رہائش پذیر، خان پلازہ کے مالک اور اوورسیز پروموٹر کو اس نے سینٹر زاہد خان بنا کر چھوڑا جو دو دفعہ سینٹر بنا اور دس سالوں تک ملک کے ہر ٹی وی چینل پر عوامی نیشنل پارٹی کے واحد ترجمان بن کر اے این پی کی سیاست پر چھایا رہا، نتیجتاً ہر جگہ عوامی شناخت مل گئی۔
قارئین، میں مانتا ہوں کہ زاہد خان اور اے این پی کے درمیان مسائل ہوں گے، جن کی رسائی اپنے وقت میں اعظم خان ہوتی کے علاوہ بھی ٹاپ لیڈر شپ تک تھی اور پنڈی میں پارٹی اجلاسوں اور مہمان نوازی کے لیے ان کا گھر ہمیشہ حاضر اور کھلا رہتا تھا۔ اس کے علاوہ انہوں نے اپنے علاقے میں ترقیاتی کام یعنی گیس اور بجلی وغیرہ کے منصوبے بھی کئے، تو وہ زاہد خان پر پارٹی کی اعتماد اور نظر کرم کی وجہ سے تھا ورنہ زاہد خان خود بھی جانتا ہے اور پارٹی بھی جانتی ہے کہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے…؟
قارئین، راقم کو گذشتہ عام انتخابات سے پہلے ہی معلوم ہوگیا تھا کہ مسلم لیگ (ن) زاہد خان کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھی کیوں کہ موصوف پارٹی سے ٹکٹ کے معاملے پر ناراض ہوگیا تھا۔ ٹکٹ جب تقسیم ہو رہے تھے، تو مَیں نے اس فیصلے پر بھر پور اعتراض کرکے لکھا تھا کہ جس پارٹی کی ٹکٹ کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی، وہ پارٹی وقت سے پہلے ایسے فیصلے کرتی ہے، وگرنہ صحیح طریقہ یہ ہے کہ آخری وقت تک ٹکٹ روک کر پارٹی اپنی پوزیشن مضبوط کرتی ہے اور عین وقت پر اہل اور جیتنے والے گھوڑے کو ٹکٹ دی جاتی ہے۔ نیز وقت سے پہلے ٹکٹ دیے جانے پر اگر الیکشن کے قریب کسی دوسری جماعت کے ساتھ اتحاد کرنا پڑے اور ٹکٹ ہولڈر سے ٹکٹ واپس لی جائے، جس نے اپنے حلقہ میں محنت، خرچ اور کمپئین کی ہو، تو پھر مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔
زاہد خان نے اگر نظریاتی روگردانی کی وجہ سے پارٹی چھوڑی ہے جیسا کہ ان کا دعویٰ ہے، تو کیا (ن) لیگ میں جاکر وہ باچا خان کے نظریات کا محافظ بن گیا ہے یا قیوم خان بن کر تاریخ دہرا رہا ہے…؟ زاہد خان سمیت ہر کسی کو اختیار ہے کہ جس پارٹی میں جانا چاہے، جائے لیکن باچا خان اور ان کے نظریات کا تکرار نہ کرے۔ اگر موصوف نے واقعی نظریات کی بنا پر پارٹی چھوڑی ہے، تو پھر نون لیگ سے زیادہ بہتر پارٹیاں موجود ہیں جو باچا خان کے پیروکار ہونے کا دعویٰ بھی کرتی ہے۔ لیکن زاہد خان کی زیادہ تر جائداد اور روزگار پنڈی میں ہیں اور پنجاب میں اس وقت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے۔ ہر کوئی چاہتا ہے کہ وہ خوش حال اور محفوظ رہے۔
شانگلہ سے امیر مقام کا تعلق اور آگے اسی پہاڑی پٹی میں، باجوڑ سے مبارک زیب اور دیر سے زاہد خان نون لیگ میں شمولیت اختیار کرتے ہیں، تو پارٹی مخصوص علاقے میں مظبوط ہو جائی گی۔ ممکن ہے مستقبل میں دوسرے ناراض امیدوار بھی یہی راستہ اختیار کرے، اگر نون لیگ پی ٹی آئی کو ٹکر دینے میں سیریس ہو اور وہ پنجاب سے باہر بھی مضبوط ہونا چاہتی ہو۔
__________________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔