31 جولائی کو کیپٹن ریڈ سات سو (700) سپاہیوں کے ساتھ ملاکنڈ پہنچا اور چار سو (400) سپاہیوں کی کمپنی کو درگئی میں چھوڑ دیا گیا۔ دن بھر گولہ باری ہوتی رہی۔جب کہ دوسری طرف قبائلی لشکر نے چکدرہ قلعہ پر حملے کے دوران میں دو انگریز افسر اور 16 سپاہی مارے جب کہ 26 کے قریب گھوڑے کام سے گئے۔
یہ کہانی کچھ یوں ہے کہ چکدرہ میں لڑائی کے دوران میں انگریزوں کا تازہ دم کمک پہنچا۔ قبائلی لشکر اس دوران میں پیچھے ہٹنے لگا کہ اچانک ایک ملک جمروز خان بابوزئی نے بہادری دکھاتے ہوئے اپنے ساتھیوں کی ہمت بڑھائی اور دوبارہ انگریزوں سے لڑائی شروع کی جس میں کئی سپاہی جان سے گئے۔ 31 جولائی کی لڑائی میں سید اکبر بامی خیل بھی اپنے لشکر کے ساتھ شریک رہا۔ دوسری رپورٹس کے مطابق ملیزئی قبیلے کا ایک بڑا لشکر بھی چکدرہ قلعہ پر حملے کے لیے آں پہنچا۔ دن بھر لڑائی جاری رہی، سگنل ٹاور کو بھی آخری بار پانی اور خوراک 31 جولائی کی صبح پہنچایا گیا۔ اس کے بعد دو اگست تک چکدرہ قلعہ اور سگنل ٹاور کے درمیان رابطہ منقطع رہا۔
The exhausted sowars and sepoys constantly fell asleep, to be aroused by the British and Indian officers.  There was no sign of a relief column and no messages from the outside world.
(جنگ جاری ہے … مزید تفصیل اگلی قسط میں)
بہ حوالہ، امجد علی اُتمان خیل کی کتاب “سرتور فقیر، جنگِ ملاکنڈ 1897ء کا عظیم مردِ مجاہد”
__________________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: