27 جولائی 1897ء کو دن کے آغاز پر قبائلی لشکر اپنے زخمیوں کو اٹھا کر جانے لگے جب کہ دوسری طرف برطانوی فوج کی نمبر 24 پنجاب رجمنٹ کی دو کمپنیاں ملاکنڈ بازار سے تاجروں اور دوسرے لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے لگے۔ میجر گبز کی کمان میں فوج کا ایک دستہ جو نمبر 31 پنجاب انفنٹری کے دو میکسم گن، بنگال لانسرز کے 40 گھڑ سواروں، نمبر 24 پنجاب انفنٹری اور  بنگال لانسرز کے 40 انفنٹری دستوں پر مشتمل تھا، شمالی کیمپ سے نکلا اور وادی ملاکنڈ میں ریسکیو آپریشن کرتا رہا۔ چوں کہ قبائلی عوام ملاکنڈ کے پہاڑوں میں مورچے سنبھالے ہوئے تھے، اس لیے مسلسل گولہ باری کے نتیجے میں میجر گبز کے دستے واپس ہوئے۔ ایک دستہ نمبر 11 بنگال لانسر جس کی کمان کپٹن رائٹ کررہا تھا، قبائلی لشکر کے نشانے پر رہا۔ اس دوران میں لیفٹننٹ کلیمو نمبر 24 پنجاب انفنٹری کے دو کمپنیوں کے ساتھ قبائلی لشکر سے لڑنے لگا۔ اس دوران میں ملاکنڈ قلعہ کے کمانڈنٹ کرنل مائیکل جان کو یہ رپورٹس آنے لگی کہ قبائلی لشکر کی مزاحمت بڑھ رہی ہے۔
پس کرنل مائیکل جان نے شمالی کیمپ کو فورآ خالی کرنے کا حکم دیا اور تمام دستے ملاکنڈ چھاؤنی جانے لگے۔ صبح 8:40 بجے مردان سے ایک گھڑ سوار دستہ 37 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے ملاکنڈ پہنچا۔ شمالی کیمپ میں زیادہ تر دستے محصور تھے اور چاروں اطراف سے قبائلی لشکر کے حملوں کی زد میں تھے۔ 27 جولائی کی لڑائی میں اگرہ، ٹوٹی گاؤں کے اتمان خیل کو لڑائی لڑتے ہوئے دیکھا گیا جو نمبر 24 پنجاب انفنٹری کے دستوں کے  ساتھ لڑائی لڑتے رہے۔ دوسری طرف پیادہ فوج کا ایک رسالہ جو 260 سپاہیوں پر مشتمل تھا، لیفٹننٹ ایلیٹ لوکہارث کی کمان میں شام 7:30  بجے ملاکنڈ پہنچا۔ اس رسالے کے 50 سپاہیوں کو درگئی گریزن کی حفاظت کے لیے چھوڑ دیا گیا۔
جیسا کہ پہلے بتایا جاچکا ہے کہ سرتور فقیر کے قبائلی لشکر نے ایک ساتھ ملاکنڈ اور چکدرہ قلعوں پر حملے کئے، پس چکدرہ قلعہ میں محصور  برطانوی فوج بھی بڑی مشکل میں تھی۔ شام کے وقت قبائلی لشکر چکدرہ اور خار کی سڑکوں پر جمع ہونا شروع ہوا۔ ملاکنڈ کے شمالی کیمپ کو قبائلی عوام نے لوٹنے کے بعد اسے نذر آتش کردیا گیا۔ جنگ ہر سو جاری تھی۔ بدھسٹ سڑک کے اطراف میں (لیفٹننٹ میکرے جسکے پاس نمبر 45 سکھ رجمنٹ کی کمان تھی) مورچہ زن تھا۔ جب کہ نمبر 24 پنجاب انفنٹری کے لیفٹنٹ کرنل لیمب جنگ میں جب زخمی ہوئے، تو اس کی جگہ لیفٹننٹ کلیمو نے کمان سنبھالی۔
ملاکنڈ بازار مکمل بند تھا۔ ملاکنڈ بازار میں ایک سرائے کی حفاظت کے لیے صوبیدار سید احمد شاہ کی کمان میں نمبر 31 پنجاب انفنٹری کے 24 جوانوں کو بیجھا گیا۔ رات بھر لڑائی ہوتی رہی۔ قبائلی لشکر نے نمبر 45 سکھ رجمنٹ کے دستوں پر اتنے زور سے دھاوا بولا کہ وہ سراسیمگی کی حالت میں ایک دوسرے پر گولیاں برسانے لگے۔ ملاکنڈ بازار کے سرائے کو پر حملے کے دوران میں صوبیدار سید احمد شاہ سخت زخمی ہوئے اور 20 سپاہی مارے گئے۔
چرچل کی رپورٹس کے مطابق بعد میں رات کے آخر تک برطانوی فوج ملاکنڈ گریژن کا دفاع کرتی رہی۔ چکدرہ قلعے کے دفاع کو بھی مضبوط بنانے کے لیے اقدامات ہوتے رہے۔ کپٹن بیکر (جو گرینیڈ استعمال کرنے کا ماہر تھا) اس کو یہ اہم ٹاسک سونپا گیا کہ قبائلی لشکر کو چکدرہ قلعہ میں داخل ہونے سے روکا جائے۔ 27 جولائی کو دھمکوٹ پہاڑی پر موجود سگنل ٹاور کو بھی قبائلی لشکر نے نشانہ بنایا لیکن لیفٹننٹ ویٹلے کے حکم سے مشین گنوں اور میکسم گنوں کی گولہ باری سے قبائلی لشکر سگنل ٹاور  کو قبضہ کرنے میں ناکام رہی۔ اس گولہ باری کے نتیجے میں 70 کے قریب قبائلی شہید ہوئے۔
(جنگ جاری ہے … مزید تفصیل اگلی قسط میں)
بہ حوالہ، امجد علی اُتمان خیل کی کتاب “سرتور فقیر، جنگِ ملاکنڈ 1897ء کا عظیم مجاہد”
_________________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: