29 جولائی 1897ء کو دن کے آغاز پر دفاعی کاموں کو ذیادہ توجہ دی گئی۔ چکدرہ قلعہ سے سگنل ٹاور کے ذریعے رابطہ کیا گیا۔ سہ پہر کے وقت برطانوی فوج کا نمبر گیارہ بنگال لانسرز کا رجمنٹ 12 ہزار ایمونیشن تھیلوں کے ساتھ ملاکنڈ پہنچا۔جب کہ نمبر 35 سکھ، نمبر 38 ڈوگرا اور دوسرے پیدل دستے بھی نوشہرہ سے درگئی پہنچے۔ چوں کہ سخت گرمی تھی، اس لیے سخت لو کی وجہ سے سفر کے دوران میں نمبر 35 سکھ رجمنٹ کے 19 سپاہی راستے میں مر گئے۔ اس دن سرتور فقیر کی سرکردگی میں قبائلی لشکر نے مرکزی کیمپ پر حملہ کردیا۔ دونوں اطراف سے گولہ باری ہوتی رہی۔ سرتور فقیر کو دائیں ہاتھ کے انگلی پر گولی لگی جیسے پھر زخمی حالت میں لنڈاکی پہنچایا گیا۔ سرتور فقیر کی یہ انگلی بعد میں کاٹی گئی۔
رپورٹس کے مطابق 29 جولائی کی لڑائی میں دہلی کا شہزادہ بھی شامل تھا جو بعد میں پھر شہید ہوا۔ سہ پہر کو یہ اطلاعات آتی رہی کہ بونیر سے  ایک بڑا قبائلی لشکر سرتور فقیر کے امداد کے لیے آرہا ہے اور ایک بڑے حملے کی تیاریاں شروع ہیں۔ اس دن کے حملے میں برطانوی فوج کے دو افسر مارے گئے اور کئی زخمی ہوئے۔ دوسری طرف 29 جولائی کو چکدرہ قلعہ بھی قبائلی لشکر کے حملے کی زد میں تھا۔ قبائلی لشکر چکدرہ گاؤں سے سیڑھیاں اور خشک لکڑی لے کر آئے تاکہ چکدرہ قلعہ کو قبضہ کرنے کے بعد اسے آگ لگا دی جائے۔ دونوں اطراف سے گولہ باری ہوتی رہی۔ شام پانچ بجے تک قبائلی لشکر اس کوشش میں تھا کہ سگنل ٹاور پہنچ کر اسے آگ لگادی جائے لیکن انگریزوں کے پاس میکسم گن تھے اس وجہ سے قبائلی لشکر سگنل ٹاور پر قبضہ کرنے میں ناکام رہا اور انگریز بڑی کام یابی سے اپنا دفاع کرتے رہے۔ رات کے وقت فائرنگ کا سلسلہ تھم گیا اور قبائلی لشکر جتنے زخمی لے جاسکتے تھے وہ لے گئے لیکن پھر بھی پچاس کے قریب قبائلی لشکر کے پچاس شہداء کی لاشیں سگنل ٹاور کے قریب پڑی رہی۔
(جنگ جاری ہے … مزید تفصیل اگلی قسط میں)
بہ حوالہ کتاب “سرتور فقیر، جنگِ ملاکنڈ 1897ء کا عظیم ہیرو”
__________________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: