ماضی قریب میں پشاور کے ہر محلے میں “ماشکی” ہوا کرتے تھے جو تمام محلہ داروں کی پانی کی ضروریات کو پوری کرنے کے علاوہ ان کے خوشی اور غمی میں بھی شریک ہوتے تھے۔ یعنی وہ خاندان کے فرد کی حیثیت رکھتے تھے۔
قارئین، “ماشکی” فارسی لفظ “مَشک” سے نکلا ہے، جس کے معنی چمڑے کا ایسا بیگ یا تھیلا ہے، جس میں پانی بھرا جاتا ہو۔ “ماشکی” ایک قدیم پیشہ ہے کیوں کہ عربوں کے ہاں اس کا باقاعدہ محکمہ قایم تھا۔ خانہ کعبہ کے انتظامات کی ذمے داریاں مختلف قبایل میں تقسیم تھیں۔ ان میں “سقایہ” یعنی پانی کا انتظام بنو ہاشم کے ذمے تھا۔ مکہ میں پانی کی قلت تھی اور حج کے موقع پر ہزاروں حاجیوں کےلیے پانی کا خاص انتظام کیا جاتا تھا۔ اس کے لیے چمڑے کے حوض بنوا کر اُنہیں صحنِ کعبہ میں رکھا جاتا اور آس پاس کے چشموں سے پانی منگوا کر اُنہیں بھر دیا جاتا تھا۔ ماشکی کا دوسرا نام سقّہ یا سقایہ سے نکلا ہے، جس کے معنی پانی کا انتظام کرنے والا یا پانی پلانے والا کا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عرب جنگ میں زخمی سپاہیوں کو پانی پلانے کےلیے باقاعدہ ماشکی رکھے جاتے تھے۔
مغل دَور میں بھی ماشکی ہوتے تھے، جو کنوئیں سے پانی نکال کر مشکیزہ گدھے پر لاد کر گھر گھر پانی پہنچانے کا کام کیا کرتے تھے۔ انگریز فوج بھی اُن سے خدمات لیتی تھیں۔ برطانوی شاعر “رڈیارڈ کپلنگ” (Rudyard Kipling) نے اپنی ایک نظم کا نام “گنگا دِن” رکھا تھا، جو برِصغیر میں انگریزوں کے دورِ حکومت میں ایک ماشکی تھا۔ اُس کا کام فوجی مشقوں اور لڑائی کے دوران زخمی فوجیوں کو پانی پلانا تھا۔ کپلنگ نے اپنی مذکورہ نظم میں گنگا دِن کی بہادری کی تعریف کی ہے، جو میدانِ جنگ میں اپنی جان کی پروا کیے بغیر زخمی اور پیاسے سپاہیوں کو اپنے مشکیزے سے پانی پلاتا تھا۔
جنوبی ایشیائی ممالک میں “ماشکی” کو “بہشتی” بھی کہتے ہیں، جو فارسی زبان کے لفظ “بہشت” سے نکلا ہے، جس کے معنی جنت کے ہیں۔ اسلام میں کسی کو پانی پلانا ثواب ہے۔ بعض ماشکی اپنے آپ کو شیخ عباسی کہلوانا پسند کرتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ واقعۂ کربلا میں عباس رضی اللہ عنہ علم دار اپنے مشکیزے سے پانی بھرتے ہوئے شہید ہوئے تھے اور ہمارا کام بھی پیاسوں کی پیاس بجھانا ہے۔
قارئین، انڈیا میں ماشکیوں کی باقاعدہ ایک برادری “آل انڈیا جماعت العباسی” کے نام سے موجود ہے، جب کہ دوسری برادری “مہاراشڑا بہشتی سماج” کہلاتی ہے۔ تاریخ میں ایک ماشکی ایسا بھی گزرا ہے، جسے ایک دن کی بادشاہت نصیب ہوئی تھی۔ یہ نظامِ سقّہ تھا، یہ قصہ بھی نہایت عجیب ہے۔مغل بادشاہ نصیر الدین محمد ہمایوں شیر شاہ سوری سے شکست کھانے کے بعد دہلی واپس آرہا تھا کہ راستے میں دریا پڑا۔ اُسے تیرنا نہیں آتا تھا۔ دریا کے کنارے پر نظام نامی سقّہ اپنے مشکیزے میں پانی بھر رہا تھا، اُس نے ہمایوں کو دریا پار کرانے میں مدد کی تھی۔ ہمایوں کو جب دوبارہ اقتدار نصیب ہوا، تو اس نے سقّہ کو اپنے دربار میں بلوایا اوراس کی خواہش پر اپنا تاج اس کے سر پر رکھ کر اسے ایک دن کی بادشاہت عنایت کی تھی۔ آج بھی دہلی کے ماشکی اُس کی یاد میں جامع مسجد کی سیڑھیوں اور ہمایون کے مزار پر چاندی کے کٹوروں میں لوگوں کو پانی پلاتے ہیں۔ یہاں کی ایک گلی بھی نظام سقّہ کے نام سےمنسوب ہے۔
قارئین، ایک دور وہ بھی تھا جب ماشکی (بہشتی) اکثر نظر آیا کرتے تھے، جو لوگوں کو چمڑے کی بنی ہوئی تھیلیوں میں پانی مہیا کیا کرتے تھے۔ پھر جدید دور آیا، تو یہ بھی کم ہوتے گئے۔ معلوم نہیں کہ اب بھی کسی شخص نے اپنے باپ دادا کا پیشہ جاری رکھا ہوا ہے یا یہ روایت بھی مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے۔
___________________________________
قارئین، ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: