منور شکیل فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ کے نواحی قصبے روڈالا کے مین بازار میں سڑک کنارے پچھلی 3 دہائیوں سے پھٹے پُرانے جوتے مرمت کرنے میں مصروف ہیں۔ حالیہ برسوں میں منور کی عارضی دکان پر جوتے مرمت کروانے والے گاہکوں سے زیادہ اُن کی تلخ اور شریں حقیقتوں پر مبنی شاعری سُننے والوں کا رش لگا رہتا ہے۔
1969ء میں پیدا ہونے والے منور شکیل نے ہوش سے پہلے ہی اپنے باپ کو کھو دینے اور رسمی تعلیم سے یکسر محروم رہنے کے باوجود 13 سال کی کم عمری میں شاعری کا آغاز کیا اُن کی پہلی کتاب “سوچ سمندر” 2004ء میں منظرِ عام پر آئی۔
انھوں نے بتایا کہ میں خاندانی موچی ہوں میں سارا دن جوتوں کی مرمت اور صبح سویرے قصبے کی دکانوں پر اخبار فروشی کرکے چند سو روپے کماتا ہوں جن میں سے روزانہ 10 روپے اپنی کتابیں شائع کروانے کے لیے جمع کرتا رہتا ہوں۔”
ان کی دوسری کتاب “پردیس دی سنگت” 2005ء، تیسری کتاب “صدیاں دے بھیت” 2009ء، چوتھی “جھورا دُھپ گواچی دا” 2011ء اور پانچویں “آکھاں مٹی ہو گیئاں” 2013ء میں شائع ہوئی۔ جب کہ چھٹی کتاب ابھی تکمیل کے مراحل میں ہے۔ اُن کی اب تک شائع ہونے والی تمام کتابیں ایوارڈ یافتہ ہیں۔
انھوں نے مزید بتایا کہ “بچپن میں میری خواہش تھی کہ میں پڑھ لکھ کر نام کماؤں۔ لیکن ہوش سنبھالنے سے پہلے ہی والد کی وفات اور مالی وسائل کی کمی کے پیش نظر ایسا ممکن نہ ہو سکا، تو میں نے خود کتابیں خرید کر مطالعہ شروع کیا اور اب کام سے واپس جا کر 3 سے 4 گھنٹے کتاب نہ پڑھوں، تو نیند نہیں آتی۔ محنت میں عظمت ہوتی ہے۔ مجھے جوتے مرمت کرنے میں کوئی شرمندگی نہیں لیکن میں چاہتا ہوں کہ لوگوں میں شعور پیدا ہو اور وہ کتابوں کا مطالعہ شروع کریں تاکہ ہم بھی ترقی یافتہ قوموں کی صف میں کھڑے ہو سکیں۔”