دلوں پر راج کرنے والی شخصیات کے عمل اور کردار پر بحث کرنا نابغہ لوگوں کا کام ہے۔ جو لوگ پُرجوش، پُرعزم، متحرک، محکوم قومیتوں کے ہم درد اور پسے ہوئے طبقات کے حقوق کے لیے لڑنے والے مبارز کو قریب سے دیکھ لیتے ہیں، وہ بڑے خوش نصیب ہوتے ہیں۔ کیوں کہ وہ ان مبارزین کی عملی جد و جہد کو سامنے رکھ کر ان کے افکار پر عمل پیرا ہو کر اپنے لیے راہیں متعین کرتے ہیں۔
جی چاہتا ہے کہ ایسی ہی شخصیات میں شامل گلہ من وزیر (شہید) کی زندگی کا احاطہ مختصر الفاظ میں کروں، مگر ایسے الفاظ جن کی بنا پر اس شخصیت کی عملی جد و جہد اُجاگر ہوسکے، ایک مشکل کام ہے۔ کیوں کہ ایسا مضمون جسے پڑھ کر قاری کے دل میں مرنے والے کی یاد تازہ ہو جائے، اور اس کے جذبات میں گہرائی تک اُتر جائے، ناممکن اگر نہیں، تو مشکل ضرور ہے۔ پھر بھی موصوف کی مختصر حالاتِ زندگی اور جد و جہد کو ضبطِ تحریر میں لانے کی جسارت کر نے جا رہا ہوں۔
مرحوم کا اصل نام حضرت نعیم تھا، لیکن پختون نوجوانوں میں “گلہ من وزیر” کے نام سے مشہور تھے۔ گلہ من خیبر پختون خوا کے قبائلی علاقے شمالی وزیرِستان کے تحصیل “دوسلی” کے “اسد خیل” نامی گاؤں میں ساول خان کے ہاں پیدا ہوئے تھے۔ اپنی شاعری سے افغانستان اور پاکستان میں مقیم پختون سمیت دیگر محکوم قوموں کے درد اور احساسات کی ترجمانی کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کی اُن کی انقلابی شاعری لوگوں میں کافی مقبول تھی۔ اس کے علاوہ اُن کی مقبولیت کی وجہ یہ بھی تھی کہ وہ پختون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے سربراہ منظور احمد پشتین کے قریبی ساتھی بھی تھے۔ پی ٹی ایم جلسوں میں اُن کی شاعری کی وجہ سے لوگوں میں ایک جوش اور جذبہ پیدا ہوتا تھا۔ اُن کی خصوصیت یہ بھی تھی کہ وہ شاعری میں جو کچھ کہتے، اُس پر عمل بھی کرتے تھے۔ کیوں کہ وہ پختون قوم سے بے پناہ محبت کرتے تھے اور اس محبت کا اظہار عملی طور پر کرتے تھے۔ تبھی تو کہتے تھے:
ستا پہ بیلتون دومرہ غم جن یمہ چی حد نہ لری
پہ ماشوم زڑہ داسی خوگمن یمہ چی حد نہ لری
کہ ئی پہ مینہ کے پہ دار شمہ پروا نشتہ
پہ پشتون قام دومرہ میئن یمہ چی حد نہ لری
قارئین، گلہ من وزیر کی شاعری اور اُن کی انقلابی سوچ نے دنیا بھر میں کروڑوں لوگوں کو متاثر کیا تھا۔ وہ منظور پشتین کے قریب آئے اور پی ٹی ایم کے نظریے کے حامی بنے۔ یہی انقلابی سوچ اُنھیں وہاں لے گئی، جہاں سے واپسی ممکن نہیں تھی۔ اُن کے الفاظ ہی اُن کا اثاثہ تھے اور یہی الفاظ اُنھیں اُس ادارے کے چنگل میں دے گئے، جس سے ہر کوئی پناہ مانگتا ہے۔ خوشحال خان خٹک کے بہ قول:
چی زما پہ خیل خانہ پہ اولس وشول
اودی نہ شی پہ ہندو پہ مسلمان
قید میں گلہ من وزیر کو جس ظلم کا سامنا کرنا پڑا، وہ الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ اُنھیں موت سے ڈرایا گیا، دھمکیاں دی گئیں اور ہر دن اُنھوں نے موت کو قریب سے دیکھا۔ اُنھوں نے قبر میں خود کو زندہ گڑھتے دیکھا، اپنی لاش کو دیوار پر لٹکتے دیکھا۔اُن کی موت اُن کے قید ہونے کے وقت ہی ہو گئی تھی اور جو زندہ تھا، وہ محض ایک لاش تھی۔ اس بارے وہ خود کہتے ہیں کہ:
مڑ یم خو پہ زور می زندگی پہ اوگو بار دہ
اَخ، زندانہ ھرہ پلہ دی ڈکہ لہ انگار دہ
زہ بہ یم مجرم خو ما د ھغی پہ خاطر پریگدہ
جج صاحبہ، خیر دے زما مور د زڑہ بیمار دہ
قارئین، گلہ من وزیر اپنی نظموں میں اپنی شریکِ حیات اور تین سالہ بچی کی پیار اور جدائی کا بار بار ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
اَخ، وڑہ لورکئی می پہ ما خانہ وا ودانہ وا
اوس بہ خوارہ شوی وی وخت وشو چی بے پلارہ دہ
زہ ترینہ قید یم پہ پنجروں کے بندی وان یم
ناوی می پہ شتہ خاوند کے کونڈہ دہ بے سنگارہ دہ
اسی طرح اُن کو جیل میں جو اذیتیں دی گئیں، اُس بارے کہتے ہیں کہ
یو گیرور سڑے راتلو چی خوش خبری درکوم
نن بہ سحر د آذانہ پہ وخت پانسی درکوم
زہ بہ خوشال شومہ چی شکر دے چی زر مڑ شمہ
چی بے ننگی رانہ ونہ شی بہادر مڑ شمہ
بس ہرہ شپہ بہ ئی وئیل چی تیار اوسہ
د پانسی وخت دی رانیزدی شولوبیدار اوسہ
ماتہ بہ می مور او ماشومہ لور رایادہ شولہ
خو د وطن بہ ہرہ بورہ مور را یادہ شولہ
ما وئیل کہ مرم شکر پہ ننگ د مظلومانو مرمہ
زہ د وطن پہ کونڈو، بورو، یتیمانو مرمہ
قارئین، اسی نظم کا اُردو ترجمہ ہمارے فیس بُک کے دوست وحید مراد نے کیا ہے، جسے پڑھ کر آپ خود محسوس کریں گے کہ وہ اس ادارے کی تحویل میں کس کرب سے گزرے ہیں:
وہاں ایک لوہے کی کرسی پڑی تھی
گرد جس کے فولاد کی زنجیر کَسی تھی
مجھے اسی کرسی پر پھر باندھا گیا
سانس تک لینے کو مشکل بنایا گیا
کرسی کے نیچے لگی آگ بڑھتی رہی
میرے تن بدن کے جلنے کی بو مجھ میں بستی رہی
کچھ سزائیں فقط احساس میں ہیں
اور ان سے جلتے لمحے بیان سے باہر
سانپوں بچھوؤں سے ڈسوایا گیا
ایک سانس لیتے انسان کا گوشت کتوں کو کھلایا گیا
اور پھر ایک شخص آتا کہ کل صبح پھانسی دیں گے
مَیں خوش ہوا کہ اذیت ختم ہو گی
دل کو مسرت ہوتی کہ جلد مروں گا
بزدلی کی آمد سے قبل عزت سے مروں گا
ہر رات وہ کہتے مجھے تیار رہو
پھانسی کا وقت ہے نزدیک بیدار رہو
مجھے اپنی ماں اور معصوم بیٹی کی یاد آتی
اور پھر اس دیس کی ہر مجبور ماں یاد آ جاتی
سوچتا کہ اچھا ہے
کہ یہ موت وطن کے سب مجبور لوگوں کے لیے ہے
صبح ہوتی تو دھکے دے کر روانہ کرتے
ٹھڈوں اور ڈنڈوں سے روانہ کرتے
آنکھوں پر پٹی اور زخمی پاؤں لیے روانہ کرتے
کچھ وقت بعد عجیب حادثے کی منزل ہوتی
ہر طرف قبریں اور مردوں کا بسیرا تھا
میری آنکھوں کے سامنے کئی کم عمر جوان مار دیے
چند ساعتوں میں پانچ سات انسان مار دیے
وہ سب تیار تھے اور مجھے زندہ قبر میں اُتار دیا
کوئی ہاتھ میں کدال اور بیلچے لیے
کئی نے بندوقیں میرے سر پر تانیں
منھ ڈھاٹوں سے چھپائے ہاتھوں پر خون
وہ انسانوں کے روپ میں قصاب کھڑے تھے
فرمان تھا، بتاؤ ہماری بات تسلیم ہے کہ نہیں؟
آخری وارننگ ہے، اپنی جان عزیز ہے کہ نہیں؟
قارئین، گلہ من وزیر کو پہلے بھی کئی بار گرفتاری کا سامنا کرنا پڑا، مگر پچھلے سال اُن کو وزیرِستان کے علاقے میں فوجی چیک پوسٹ پر گرفتار کرتے ہوئے اُن کو دو ساتھیوں سمیت آٹھ مہینے تک ٹارچر سیل میں رکھا گیا۔ ٹارچر سیل سے رہا ہونے کے بعد بھی ان کو مسلسل دھمکی آمیز فون کالز موصول ہوتی تھیں اور اُن کے خاندان کے دیگر لوگوں کو بھی ہراساں کیا جاتا تھا۔ اگر اُن پر ہونے والے قاتلانہ حملے پر بات کریں، تو بلا شک و شبہ ریاست اور سیکورٹی ادارے اس میں نہ صرف ملوث ہیں، بل کہ اُنھوں نے آزاد داوڑ جیسے بندے کو بہ طورِ مہرہ استعمال کیا اور یہ واردات کی ایک نئی شکل ہے، تاکہ اس تمام تر واقعے کو قبائلی رنگ دیا جا سکے اور یہ بھی پراپیگنڈا کیا جا سکے کہ سابقہ فاٹا اور باقی پختون خطے میں جو بھی اندھے قتل ہوتے ہیں، وہ سب قبائلی دشمنیوں کا شاخسانہ ہیں اور ریاست کا اس سے کچھ لینا دینا نہیں۔ بہ قول رحمت شاہ سائل:
تار تار پروت دے چا راٹول نہ کڑو سائلہؔ
دَ پختون وطن گریوان دَ لیونی دے
محرکات کے حوالے سے اگر بات کی جائے، تو اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس وقت پاکستان میں قومی جبر اپنے عروج پر ہے۔ جہاں مظلوم اقوام بالخصوص پشتون، بلوچ اور دیگر مظلوم اقوام پر مختلف ناموں کے ذریعے مسلسل جبر ڈھایا جا رہا ہے اور تمام تر انسانی، جمہوری، آئینی اور قانونی حقوق نہ صرف ریاستی اداروں کی جانب سے پامال کیے جا رہے ہیں، بل کہ روزانہ نت نئے قوانین لاگو کیے جا رہے ہیں، جس کی وجہ سے ظلم، جبر اور بربریت کے خلاف اُٹھنے والی آوازوں کو گلہ من وزیر جیسے واقعات کے ذریعے مٹانے کی کام یاب یا ناکام کوششیں ہو رہی ہیں۔ جبری گم شدگی، ٹارگٹ کلنگ، ماورائے عدالت قتل، بم دھماکے اور فوجی آپریشن مظلوم اقوام کے لیے ایک مستقل عذاب بنتے جا رہے ہیں۔ ان تمام تر مظالم کے خلاف لوگوں میں ایک غم و غصہ اور نفرت جنم لے رہی ہے۔ ساحر لدھیانوی کے بہ قول:
لب پہ پابندی تو ہے احساس پر پہرا تو ہے
پھر بھی اہلِ دل کو احوالِ بشر کہنا تو ہے
ہے جنھیں سب سے زیادہ دعوا حب الوطن
آج ان کی وجہ سے حبِ وطن رسوا تو ہے
بجھ رہے ہیں ایک اِک کر کے عقیدوں کے دیے
اس اندھیرے کا بھی لیکن سامنا کرنا تو ہے
جھوٹ کیوں بولیں فروغِ مصلحت کے نام پر
زندگی پیاری سہی، لیکن ہمیں مرنا تو ہے
قارئین، گلہ من وزیر کو مارنے کے اس ظالمانہ اقدام کے پیچھے ریاست کا اہم محرک ملک بھر میں قومی تنازعات کو مہمیز دینا اور بالخصوص پختونوں اور پنجاب کے عوام کے بیچ نفرتوں اور تعصب کی آگ بھڑکانا ہے، تاکہ ریاست جتنے بھی عوام دشمن پالیسیاں لاگو کر رہی ہے، عوام کی توجہ اُس طرف مبذول نہ ہو اور قومی تضادات اور منافرت کو اتنی ہوا دی جائے کہ لوگ بنیادی ضروریاتِ زندگی پر بحث کو چھوڑتے ہوئے نسل پرستی کی اتھاہ گہرائیوں میں چلے جائیں۔ مظلوم و محکوم اقوام کی انھی تحریکوں کا خوف ہے کہ حکم ران طبقہ قومی تضادات کو اُبھارنے کی خاطر ہر قسم کے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنے پر اُترا ہوا ہے اور گلہ من وزیر کا قتل بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
زما غانٹول زما ریدے مڑ دے
زما سادہ بادہ لالے مڑ دے
زمونگ دَ کلی خلق ٹول ژاڑی
زمونگ پہ چم کے یو سڑے مڑ دے
زما دَ زڑہ دَ سرہ وینی ساسی
زما دَ زڑہ دَ سر ازغے مڑ دے
ھغہ چی تہ بہ ئی دَ خوبہ ویستی
لیونئی ھغہ لیونے مڑ دے
ھغہ چی تا بہ تری رانجہ اغیستہ
خبر ئی ھغہ بنجارے مڑ دے
خلقہ پہ مرگ باندے ئی نہ یم خفا
خو پہ زڑہ ڈیر سورے سورے مڑ دے
ستا منیر ستا دَ پنڈ غمونو سرہ
پروت دے پہ سرو غرمو موسکے مڑ دے
قارئین، یہ نوجوان پشتو زبان کے انقلابی شاعر تھے۔ تخلص گلہ منؔ تھا۔ جس کے لیے فارسی مرکب “شکوہ کناں” موزوں ترین ہے۔
گلہ من کا ہر شکوہ مظلوم قوم کا ترجمان تھا۔ اپنے ویران گاؤں سے اسلام آباد کی طرف دیکھنے والے اس شخص کو ریاست سے کچھ شکایتیں تھیں۔ اس بات کی شکایت تھی کہ ہمارے وسائل پر ہمارا اختیار کیوں نہیں؟ جنگ کا کاروبار ہر بار ہماری یعنی پشتون سرزمین پر کیوں گرم کیا جاتا ہے؟ اس بات کی شکایت کہ میرے لوگ خوشی سے ہر بار اس پرائے جنگ کا ایندھن کیوں بن جاتے ہیں؟ ان شکایات کی وجہ سے اُن پر 07 جولائی کی شام کو شہرِ اقتدار جیسے نام نہاد ’’فول پروف سیکورٹی سٹی‘‘ کے مرکز میں دن دہاڑے دس سے بارہ مسلح اور ڈنڈا بردار افراد نے قاتلانہ حملہ کرتے ہوئے اُنھیں شدید زخمی کیا۔ واقعے کے بعد اُن کو قریبی ہسپتال لے جایا گیا، جہاں سے پھر اُنھیں پمز ہسپتال اسلام آباد منتقل کیا گیا۔ تین دن تک کوما میں رہنے کے بعد بالٓاخر 11 جولائی کی درمیانی شب گلہ من وزیر کی سانسیں رُک گئیں اور وہ ہمیشہ کے لیے ہم سے جدا ہوگئے۔
یہاں یہ بات واضح رہے کہ گلہ من وزیر کا قاتل ’’بہ طورِ ریاستی مہرہ‘‘ اسلام آباد میں رہایش پذیر ایک کاروباری آدمی ہے، جس کا تعلق گلہ من وزیر کے آبائی علاقے ہی سے ہے اور پاکستان تحریکِ انصاف سے قومی اسمبلی کا سابقہ امیدوار بھی ہے، مگر اس کا تو صرف کندھا استعمال ہوا ہے۔ بندوق کسی اور نے رکھی اور چلائی ہے۔ جس کا واضح ثبوت 12 ملزمان میں اب تک کسی کا گرفتار نہ ہونا ہے۔
دَ منصب دعوا گیر شا پہ قرار ناست دی
خو کہ مری زما چنار چنار زوانان مری
دُکھ اس بات پر ہے کہ اُنھوں نے اپنی ایک بھی شکایت کا اِزالہ تو دور کی بات، اِزالے کا کوئی ارادہ تک نہیں دیکھا۔ اس بات کا اظہار وہ اپنی ایک نظم میں کچھ یوں کرتے ہیں:
ناوی می کونڈہ، مور می بورہ، پاکستان زندہ باد
خور می د بل لاش تہ مجبورہ، پاکستان زندہ باد
پہ پاٹک کوز شہ لاس اوچت کہ بیا غوگونہ اونیسہ
دری زلہ اوایہ پہ زورہ، پاکستان زندہ باد
د ترور می لس کالا پورہ شول چی زلمے زوے ئی ورک دے
گرزی پہ یو دَر سر تورہ، پاکستان زندہ باد
پختون وطن ئی پہ اوور اوریت کڑو دا منم درسرہ
خو جنت ئی جوڑ کڑو د لاہورہ، پاکستان زندہ باد
منم چی تہ ئی بے عزتہ کڑی بے کورہ ئی کڑی
خو اوس ئی بد مہ وایہ ورورہ، پاکستان زندہ باد
پختون کہ ھر سو ترھگر بولے پردے ئی گنڑی
خو گلہ منہ گورہ گورہ، پاکستان زندہ باد
قارئین، گلہ من نے اپنی موت سے متعلق اپنے ایک شعر میں خود ہی کہا تھا کہ:
زما پہ لاش بہ دومرہ ویر وی چی توبی بہ اوباسی
زکہ چی زہ د شپگو خویندو کشرے ورور یم
یعنی میری لاش پر وہ ماتم ہوگی کہ تم حیراں رِہ جاؤگے۔ کیوں کہ مَیں چھے بہنوں کا اکلوتا چھوٹا بھائی ہوں۔
لیکن آج صرف گلہ من کی چھے بہنیں نہیں، اُن کے ساتھ ہزاروں پختون اور بلوچ مائیں اور بہنیں بھی ماتم کر رہی ہیں۔ صبح 7 بجے اُن کا جسدِ خاکی اسلام آباد سے نکلا، لیکن 10 گھنٹوں میں وہ صرف کوہاٹ تک پہنچ پائی۔ شہر شہر قریہ قریہ گلہ من کا “گِلہ” (شکوہ) مٹانے کے لیے اتنے لوگ نکلے تھے کہ جن کی وجہ سے اُن کے جسدِ خاکی ان چھے بہنوں تک نہیں پہنچ پائی، جن کی ماتم کرنے کی گلہ من نے پیش گوئی کی تھی۔ لوگ راستے پر ایمبولینس کو روک روک کر اپنے شاعر اور ہیرو کا آخری دیدار کر رہے تھے۔ اُن کی گاڑی پر پھول نچھاور کر رہے تھے۔ دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے ۔ ایمبولینس کو مقدس جان کر ہاتھ لگا رہے تھے۔ اُنھیں “کامریڈانہ انداز” میں لال سلام پیش کر رہے تھے۔ اب ایسی محبت، ایسی عقیدت، ایسی قدر و منزلت ملنے پر کس کا جی نہیں چاہے گا کہ وہ وطن اور قوم کے لیے اپنی جان کی بازی نہ لگائے۔
ما بہ اکثر پہ جنازو باندی گلونہ لیدل
خاطرہ نن می دگلونو جنازے اولیدے
قارئین، آج جب ہم مین سٹریم میڈیا کی بے حِسی کا مشاہدہ کرتے ہیں، تو شدت سے یہ احساس ہوتا ہے کہ میڈیا نے اکثر اہم شخصیات اور ان کے کارناموں کو نظر انداز کیا ہے۔ مثال کے طور پر گلہ من وزیر ایک ممتاز شخصیت تھے، جنھیں سوائے ایک امریکی چینل (وائس آف امریکہ) کے پاکستان کے کسی بھی میڈیا چینل نے کوریج نہیں دی۔ کیوں کہ پاکستانی میڈیا کی ترجیحات کچھ اور ہیں، ذرا ان کی خبریں ملاحظہ کیجیے: شادی میں گوشت نہ ملنے پر باراتیوں نے دُلھن کی پٹائی کردی۔ اننت رادھیکا شادی، وکی اور کترینہ کی جوڑی نمبر ون قرار۔ سوناکشی سنہا شادی کے تیسرے دن بعد ہی حاملہ، ہسپتال جا پہنچی۔ شاہین شاہ آفریدی کے ہاں چند دنوں میں ننھے مہمان کی آمد متوقع۔ کترینہ نے اننت امبانی کی شادی میں شرکت کیوں نہیں کی، وجہ سامنے آگئی۔ سوناکشی سنہا کی حاملہ ہونے کی خبروں میں کتنی صداقت ہے۔ پنجاب میں بھینس نے 22 کلو دودھ دے کر عالمی ریکارڈ قائم کردیا۔ وعلیٰ ہذا القیاس۔
قارئین، پاکستانی ٹی وی چینلوں نے شاعر احمد فرہادؔ کے لیے آواز اُٹھائی، تو کیا گلہ من وزیر شاعر نہیں تھے، یا وہ احمد فرہاد کی طرح پاکستانی باشندے نہیں تھے؟ کیا وہ اُس وزیرستان کے باشندے نہیں تھے، جس کے لوگوں نے ملک کی سلامتی کے لیے بے شمار مالی اور جانی قربانیاں دی ہیں؟ لیکن مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ پاکستانی میڈیا مقتدر قوتوں کا غلام تھا، ہے اور رہے گا۔
اس کے برعکس سوشل میڈیا نے اُنھیں وہ مقام دیا جو رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا، مگر مین سٹریم میڈیا نے وہ کردار ادا نہیں کیا، جو اسے کرنا چاہیے تھا۔ کیوں کہ یہ اس استعمار کے ہاتھوں میں ہے جس نے پختونوں کو تباہ و برباد کیا ہے ۔ بہ قولِ تسنیم:
ملنگہ! پہ اخبار کی یو خبر ھم زمونگ نیشتہ
وئیل ئی، روغ عالم زمونگ پہ درد کلہ خبریگی
گلہ من کی شہادت پر ڈاکٹر اشرف غنی، حامد کرزئی، راشد خان، محمد نبی، رحیم صدیقی، شفیق مرید، جاوید امیر خیل، رحمان اللہ گربز، نجیب اللہ زدران اور اللہ داد نوری سمیت دیگر عالمی شخصیات نے ٹویٹس کیے، لیکن مجال ہے کسی پاکستانی اینکر، صحافی، کرکٹر، سیاست دان (سوائے قوم پرستوں کے) یا کسی اور نے منھ کھولنے کی ہمت کی ہو۔ پروفیسر اسحاق وردگ کے بہ قول:
فضائے شہر کو حیرت ہے اک زمانے سے
خطیب امن پہ کچھ بات ہی نہیں کرتے
قارئین، گلہ من وزیر پختون قوم میں موجود ریاستی اداروں کے دَلالوں کے کردار اور خاموشی سے بھی نالاں تھے، تبھی تو کہا تھا کہ:
دَ پختنو پہ قتلِ عام خاموش ملک او ملا
لہ ستاسو دومرہ گلہ من یمہ چی حد نہ لری
قارئین، سید قطب نے کہا تھا کہ انسانی خون اور اس کی قربانیوں ہی سے بے جان الفاظ میں جان پڑتی ہے۔ اس سے انسانی فکر میں پائیداری پیدا ہوتی ہے۔ اِنھی قربانیوں کی بہ دولت کوئی نظریہ، تاریخ اور معاشروں پر گہرے اثرات ڈالتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گلہ من وزیر کا قتل، اُن کی فکر اور اُن کے نظریات کو مزید تقویت دے گا۔ کیوں کہ نظریات کو کبھی کچلا نہیں جاسکتا۔ انھیں جتنا آپ کچلیں گے، اتنا ہی ان کی تاثیر اور وسعت میں اضافہ ہوگا۔ نظریات کو مضبوط منطق اور اخلاقی برتری کے ساتھ ہی زیر کیا جا سکتا ہے۔
د جنازے بازو می نیسہ
ما چی د ننگ ٹپہ وئیلہ مڑ ئی کڑمہ
امن کے جذبے اور انصاف کی جد و جہد سے گونجنے والی اُن کی آواز اگرچہ بہت جلد خاموش ہوگئی، لیکن گلہ من وزیر کی پختون قوم کے حقوق کی وکالت کے لیے غیر متزلزل عزم اور ہمارے ثقافتی ورثے میں اُن کی گراں قدر خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جائے گا۔ کیوں کہ ظلم اور انتہا پسندی کے خلاف مسلسل جد و جہد میں اُن کی شاعری اور فعالیت اُمید کی ایک کرن تھی۔ گلہ من وزیر کے کام کو جاری رکھتے ہوئے اُنھیں ہمیشہ یاد رکھا جاسکتا ہے۔ بہ قولِ شاعر:
دورِ باطل میں حق پرستوں کی
بات رہتی ہے سر نہیں رہتے
قارئین، گلہ من وزیر کی موت کے بعد اُن کے الفاظ زندہ رہیں گے اور اُن کی آواز گونجتی رہے گی۔ اُن کا پیغام اور انقلابی سوچ ہمیشہ کے لیے ہمارے دلوں میں زندہ رہے گی اور اُن کی قربانی کو کبھی نہیں بھلایا جائے گا۔
تکبیر د جنازے چی ملایان را پسے وکی
قسم دے چی ڈیر خلک ارمان بہ را پسے وکی
پشتو کا یہ ٹپہ گلہ من وزیر کی شریک حیات کے نام کرنا چاہوں گا کہ:
سہ نادانی دی وکڑہ لاڑے
ھم دی زان خوار کڑو ھم دی زہ محتاجہ کڑمہ
جاتے جاتے بس یہی دعا ہے کہ اللہ تعالا اُنہیں جنت الفردوس عطا فرمائے، آمین!
آخر میں عطاء اللہ جان ایڈوکیٹ کے اس مرثیے پر اجازت طلب کرنا چاہوں گا، جو اُنھوں نے گلہ من کی موت پر لکھا ہے:
لگ شان ایسار شہ داسی مہ زہ گلہ منہ یارہ
د لوے وطن د جوڑیدلو ارمان جنہ یارہ
ھلہ مسکے شہ سر کڑہ پورتہ لہ کفنہ یارہ
د ادی اوخکی دی کڑہ اوچی پہ لمنہ یارہ
تہ سومرہ مست وی پہ نعرہ د لر او بر یو افغان
سومرہ پہ نرہ دی سر زار کڑو لہ وطنہ یارہ
تہ نوی چغہ د غیرت ئی ستا ھر غگ انقلاب
تا رو گودر دی خطا کڑے لہ دشمنہ یارہ
ستا اتنڑونہ ستا ٹپی بہ سنگہ ھیری کڑمہ
زما سادہ بادہ معصومہ گل بدنہ یارہ
د ننگ غیرت او د وفا د لار تورزن شہیدہ
پہ “دری رنگہ” بہ درلہ وتڑمہ زنہ یارہ
د خاوری مور دپارہ مڑ شوی حلالی بچے وی
پیغلی زلمی دی پہ ٹپو کوی ستائینہ یارہ
د ژوبل ژوبل وطن درد دی ھر یو زڑہ تہ کوز کڑو
تہ وی رشتونے تا پورہ کڑہ خپلہ ژمنہ یارہ
____________________________
راقم کے اس تحریر کو آج یعنی 19 جولائی 2024ء بہ روزِ جمعہ کو روزنامہ آزادی سوات نے پہلی بار شرف قبولیت بخش کر شایع کروایا ہے۔ ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔