پاکستان تحریکِ انصاف کے مرکزی سیکرٹری جنرل عمر ایوب کا استعفیٰ آگیا ہے۔ مَیں نے یکم جون کو لکھا تھا کہ پی ٹی آئی کے اندر سب اچھا نہیں ہے اور یہ ایک جماعت کی بجائے گروہوں میں تقسیم لیڈر شپ گرومنگ کا کریش کورس پروگرام ہے، جو آج سچ ثابت ہوئی۔
قارئین، ایک شیر افضل مروت نامی بندہ بھی تھا جو اپنی شخصی خصوصیات کی بناء پر آکر چھا گیا، کارکن پیچھے لگائے، میڈیا کی توجہ حاصل کی۔ لیکن پرانی لیڈر شپ کو ایک آنکھ نہیں بھایاجو خود نکلنے کا حوصلہ نہیں رکھتی، لیکن کوئی اور ایسا کرے ان سے برداشت نہیں ہوتا۔
اب بیس سے زائد ارکان اسمبلی اور اکثریتی کارکن مع عمران خان کی بہن علیمہ خان جس کے پیچھے عمران خان کی خواہش بھی موجود ہے، موجود پریس کانفرنسی لیڈر شپ سے مایوس ہے جو برسرِ زمین کوئی ہلچل مچانے میں ناکام نظر آتی ہے۔ اگرچہ موسم احتجاج کے لیے بلکل بے رحم ہے۔ لیکن اس کے باوجود بجٹ کے قصائی پن سے فایدہ اٹھانے اور احتجاج منظم کرکے برپا کرنے کی کوئی کام یاب تو کیا نیم دلانہ کوشش بھی نہیں ہورہی ہے۔ اس وقت عمران خان جیل میں ہے۔ پی ٹی آئی خبروں میں، گنڈا پور حکومت میں، پنجاب کی کریم جس کی اکثریت خواتین پر مشتمل ہے، جیلوں میں، ان کے وکیل عدالتوں میں اور مخلص کارکن تذبذب میں ہیں۔
الیکشن میں عدالتی موشگافیوں کی خاطر پارٹی کی تمام تر لیڈر شپ وکلا کے حوالے کی گئی، جو ہر پیشی کے بعد پریس کانفرنس زبردست کرتے ہیں۔ لیکن ایک سلیمان راجہ کے علاؤہ باقی “مائی لارڈ شپ، مائی لارڈشپ” کے علاؤہ کچھ نہیں کرتے۔ وکیلوں نے اپنے لیے وکیل رکھے ہیں۔ وکالت اور سیاست میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ وکیل قانون اور آئین کے حوالے ڈھونڈتے اور دیتے ہیں جب کہ سیاست دان مواقع کو اپنے حق میں موڑنے اور استعمال کرنے کا فن جانتے ہیں۔ لیکن اس وقت تحریکِ انصاف ایسا کرنے میں بالکل ناکام نظر آتی ہے۔
شبلی فراز سینیٹ میں اور گوہر خان اسمبلی میں بہت خوب صورت تقریر کرتے ہیں، لیکن تقریروں اور قرار دادوں سے صرف مطالعہ پاکستان کی کتاب میں سیاسی مقاصد حاصل ہوسکتے ہیں، بر سرِ زمین کچھ اور کرنا پڑتا ہے۔
پنجاب کی خواتین (ان کی انتھک جدوجہد کو سلام) کے علاؤہ سارا پنجاب شیخ رشید، فواد چودھری اور پرویز الٰہی کی طرح غیر متعلقہ ہوگیا ہے۔ جب کہ کچھ کھسیانی بلیوں کی ایسی آوازیں بھی اُٹھتی ہیں کہ پی ٹی آئی تو پختونوں کی پارٹی بن گئی ہے۔ پختونوں کی پارٹی اس لیے بن گئی ہے کہ دوسرا کوئی ٹکا نہیں۔
اب فواد چودھری جو ہمیشہ ایک مشکوک کردار بنا رہا، دوبارہ پنجاب کی سیاست سے پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے پاکستانی افق پر لانچ ہونے کا منتظر ہے۔ یہ بھی تماشا ہوگا کہ فواد چودھری اور صنم جاوید ایک قطار میں بیٹھے ہوں گے اور پی ٹی آئی کی “پختون لیڈر شپ” کے خلاف پنجاب سے لیڈرز آئیں گے تاکہ پنجاب کو متحرک کیا جاسکے۔ مزاحمت منظم کرکے استعفیٰ گروپ کو مطمئن کرسکے اور عمران خان کو بارگیننگ پوزیشن دلا کر ان کی واپسی کا راستہ ہموار کر سکے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا اب بھی مروت انگلینڈ سے واپس آکر لیڈ کرنے دیا جائے گا…؟ لگتا نہیں ہے۔
قارئین، جب لیڈر شپ بہادر اور مخلص ہو، تو مزاحمت اور احتجاج کےلیے گرمی یا سردی کوئی مسئلہ بنتا ہے اور نہ ہی حکومتی ظلم وستم کوئی معنیٰ رکھتی ہے۔ اس کی دو مثالیں دیتا ہوں: پریزن وین (Prison Van) سے باہر آنے والی عالیہ حمزہ اور صنم جاوید کی مسکراہٹ آپ کا حوصلہ نہیں بڑھاتی…؟ پختون خوا میں آپریشن کے خلاف نکلنے والے لوگ آپ کو نظر نہیں آتے…؟
منظور پشتون کی آمد نے پختون خوا میں پختونوں کا رویہ پھر سے تبدیل کردیا، تو پنجاب میں صنم جاوید کی مسکراہٹ کیوں ایسا نہیں کرتی…؟ یہ بھی میں بتادوں…؟
منظور پشتون پختون خوا کا حوصلہ بنا ہوا ہے، اکثریتی لوگ اس کے ساتھ نکلتے ہیں، باقی اس لیے نکلتے ہیں کہ منظور پشتون اس کے کارکن لے جائے گا اور کچھ کو اس کی وجہ سے نکلنے کا حوصلہ ملا ہے کہ نکلو گے، تو آواز سنی جائی گی۔
قارئین، اس وقت تحریکِ انصاف کا واحد ایجنڈا عمران خان کی رہائی ہے، جس میں وہ ناکام نظر آتی ہے۔ تبھی تو رانا ثناء اللہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی “ترقی” کے لیے خان صاحب کو چار پانچ سالوں تک اندر رکھنا ضروری ہے۔
_______________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: