قارئین، راقم نے اپنا بچپن اور لڑکپن جس معاشرتی ماحول میں گزرا، اس میں حجرہ کلچر عام تھا۔ نوجوان رات گئے تک حجرے میں اپنے بزرگوں سے سبق آموز باتیں اور قصے سنا کرتے تھے۔ ان کی زندگی، تجربات اور دیگر سماجی اور سیاسی معاملات پر ان کے تجزیے اور دانش سے بھری ہوئی گفتگو سے مستفید ہوتے رہے۔ بڑوں کا ادب کیا ہوتا ہے، کسی مجلس میں بات کیسی کی جاتی ہے، روایات، اخلاق اور اقدار کس شے کا نام ہے اور سب سے بڑھ کر “پختون ولی” (جسے پختونوں کا ضابطۂ حیات کہا جاتا ہے) کیا ہے…؟ یہ علم اور اسباق ہماری عمر کے لوگوں نے اپنے اپنے حجرے میں بیٹھ کر ہی حاصل کیے ہیں۔ مطلب کہ حجرہ اُس زمانے میں پختون ولی کا پہلا مدرسہ ہوا کرتا تھا مگر جیسا کہ رفتہ رفتہ حجرہ کلچر ختم ہوتا جا رہا ہے اس طرح “پختون ولی” بھی متاثر ہوتی جا رہی ہے۔ کیوں کہ روایت اور جدت کے معاملے میں ہم نے بیک وقت دو رواں کشتیوں پر پاؤں رکھے ہوئے ہیں جس کانتیجہ ظاہر ہے کہ کشتی سے گرکر دریا میں ڈوبنا ہی ہے۔
سائنس اور ٹیکنالوجی کی بڑھتی ہوئی ترقی نے یقینًا ہمیں کہاں سے کہاں تک پہنچا دیا ہے۔ ہمیں کتنی آسانیاں اور سہولتیں فراہم کی ہیں اور ہم دن رات سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعریف، اہمیت اور افادیت کے بارے میں زمیں وآسمان کے قلابے ملاتے نہیں تھکتے۔ لیکن کچھ دیر کے لیے اگر ہم غیر جانب داری سے اپنے گریبانوں میں جھانکیں اور اپنے احساسات اور جذبات کی جانب اپنے کان دھریں، تو اندر کی دنیا میں یعنی روحانی طور پر اپنی اقدار و روایات اور ثقافت کے حوالے سے ہم ایک عجیب اور خوف ناک قسم کا خلا محسوس کرتے ہیں۔ زندگی میں ہر قسم کی آرائش و زیبائش کے ساتھ ساتھ طرح طرح کی سہولتوں اور آسانیوں کے باوجود پھر بھی اجتماعی و معاشرتی اور ثقافتی لحاظ سے یہ بات شدت کے ساتھ محسوس کرتے ہیں کہ:
جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی…؟
اور وہ چیز ہماری روایات واقدار اور روحانی زندگی کی رگ رگ میں وہ روح اور اطمینان ہے، جو آج کے اس مشینی اور بڑھتے ہوئے اجارہ دار سرمایہ دارانہ و استحصالی نظام، عالم گیریت اور صارفیت کے عہد نے ہم سے زبردستی چھینا ہے اور جہاں سرمایہ پرستی کی تیز دھار نے آج ہمارے درمیان سماجی، خاندانی اور قبائلی رشتوں کا گلا کاٹ رکھا ہے اور تمام تعلقات اور رشتے سر کے بغیر ایک لاش کی مانند پڑے نظر آرہے ہیں۔ کیوں کہ دیکھنے، سننے اور سوچنے کی تمام صلاحیتیں اور طاقتیں تو سر میں موجود ہوتی ہیں۔
اس لیے آج ہمارے معاشرے میں قائم ہر قسم کے رشتوں ناطوں میں وہ جوش، خلوص، محبت اور گرمی نہیں رہی جو آج سے کئی برس پہلے نظر بھی آتی اور محسوس بھی کی جاتی تھی۔ ذات پسندی، مقابلہ بازی حد سے بڑھ کر فیشن پرستی، نمود و نمائش کے کھوکھلے کلچر اور اپنی خواہشات کو ضروریات سمجھ کر ہم ایک ایسے تہذیبی ویرانے میں کھڑے نظرآرہے ہیں جہاں نہ ایک دوسرے کی آواز سن سکتے ہیں اور نہ ایک دوسرے کی مکمل شناخت کر سکتے ہیں۔
انفرادیت، سرمائے کی دوڑ اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے رجحان نے جہاں ہماری معاشرتی اور تہذیبی زندگی کی دیگر چیزوں اور اقدار کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ وہاں ہماری اشتراکی اور مساوی زندگی کا اعلا ترین نمونہ اور یادگار “حجرہ” کی شکل بھی مسخ کر کے رکھ دی ہے۔ آگے جانے، دور نکلنے اور تیز چلنے کے اس عمل اور رجحان نے ہمیں کبھی اس بات پر سوچنے کا موقع ہی نہیں دیا کہ مادی لحاظ سے تو ہم بہت آگے جا رہے ہیں لیکن روحانی یا تہذیبی طور پر ہم بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔
ترقی کی نئی سوچ، سائنسی ایجادات اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے کلچر نے حجرے کا تصور بھی ماند کر دیا ہے۔ اور یہ کتنے افسوس اور شرم کی بات ہے کہ اب ایک پڑوسی کو اپنے دوسرے پڑوسی کے دُکھ درد کے بارے میں کچھ علم نہیں ہوتا۔ ایک ہی محلے اور ایک ہی گلی میں ساتھ رہنے والے ایک دوسرے کے لیے اجنبی بن چکے ہیں۔ ذاتی زندگی کا مفہوم ہی کچھ اس انداز سے بدل چکا ہے کہ الیکٹرانک و سوشل میڈیا کے ذریعے آپ کو پوری دنیا کے بارے میں علم بھی ہوگا، جانتے بھی ہوں گے لیکن اپنے پڑوسی کے بارے میں آپ کو یہ بھی معلوم نہیں کہ کہاں کا رہنے والا ہے اور کیا کام کرتا ہے…؟
ایک زمانہ تھا کہ لوگوں کے لیے حجرے تعلیمی درس گاہیں ہوا کرتی تھیں جہاں بغیر کسی تفریق اور سماجی رتبے کے ہرکسی کو حجرے میں بیٹھنے، سونے اور بحث ومباحثے میں شریک ہونے کا مکمل اختیار حاصل تھا۔ حجرے ہی میں پختونوں کی نوجوان نسل کو علم و دانش کی باتیں سنائی اور سکھائی جاتی تھیں اور اسے “پختون ولی” کا پہلا سبق اور تربیت حجرے ہی میں دی جاتی تھی۔ حجرے کو افغانستان کے صوبہ قندہار میں کوٹہ، کابل میں سراچہ، خوست میں جمہ، ڈیرہ اسماعیل خان اور لکی مروت کے لوگ چوک، ننگرہار اور خیبر پختون خوا کے اکثر علاقوں میں حجرہ اور ڈیرہ کہا جاتا ہے۔
قارئين، پختون اور حجرہ دونوں ایک دوسرے کے لیے ہاتھ اور آستین کی مانند سمجھے جاتے تھے۔ پختونوں کی زندگی رسم و رواج اور تہذیب و ثقافت میں حجرہ کو ایک کلیدی حیثیت حاصل رہی ہے۔ خیبر پختون خوا، بلوچستان اور افغانستان میں اب بھی آپ کسی ایسے گاؤں کا تصور ہی نہیں کر سکتے، جہاں پختونوں کا مشترکہ حجرہ یا ڈیرہ موجود نہ ہو۔ حجرہ نہ صرف پختونوں کی اجتماعی زندگی، مساوات، اشتراکیت، مشاورت، مہمان نوازی، کلب، پارک، جنرل اسمبلی، عدالت، روایتی کھیل کود، نشانہ بازی اور علم و ہنر کا مرکز رہا ہے۔ بلکہ اسی حجرے نے ایک زمانے میں ابتدائی مدرسے، سکول، کالج اور یونی ورسٹی کا کردار بھی ادا کیا ہے۔
قارئين، برطانوی آئین کی طرح “پختون ولی” کا کوئی تحریری آئین، مسودہ یا کتابی شکل موجود نہیں۔ کیوں کہ یہ ایک عملی زندگی کا نام ہے اور اس ضابطۂ حیات کو سیکھنے اور اس پر عمل کرنے کے تمام اصول و قواعد گاؤں اور محلے کے حجرے میں اپنے بزرگوں اور بڑوں سے سیکھے جا رہے تھے۔ کیوں کہ حجرہ تمام محلے اور گاؤں والوں کی مشترکہ ملکیت ہوتی ہے۔ کوئی بھی فرد، خان، نواب یا ملک اس حجرے پر اپنا ذاتی دعویٰ نہیں کر سکتا اور نہ اس میں کسی کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک کر سکتا ہے۔ پشتو عوامی شاعری کی مقبول صنف ٹپہ میں ایک پختون دوشیزہ حجرے کی مشترکہ ملکیت کو ظاہر کرتے ہوئے کہتی ہے کہ:
حجرہ دَ قام کلی دَ سرہ
تر نیمو شپو منگے زما لالے وھینہ
(حجرہ تو پوری قوم اور گاؤں کی ملکیت ہے جب کہ آدھی راتوں تک رباب کے ساتھ گھڑا اکیلا میرا محبوب ہی بجاتا ہے)۔
قارئين، پختونوں کی سماجی زندگی میں رائج کھیل کود، کبڈی، آنکھ مچولی، انگئی مل دے سوک دے یا دیگر روایتی کھیل بٹیر بازی، مرغ بازی، مشاعرے، جلسے، رقص و سرود کی محفلیں، نشانہ بازی کے تمام گر حجرہ ہی میں سکھائے جاتے تھے۔ حجرہ پختونوں کا مشترکہ مہمان خانہ (گیسٹ ہاؤس) رہا ہے۔ حجرے کا ماحول مردانہ زندگی کا ماحول ہوتا ہے۔ یہاں پختون بچہ مردانہ صفات سیکھتا تھا، جو کچھ دیکھتا اور اپنے بزرگوں اور بڑوں سے سنتا، وہ سب باتیں اس کی شخصی تعمیر میں اپنا کردار ادا کرتی رہیں۔
حجرے نے پختونوں کی روایات، رسم و رواج، تاریخ، جمہوریت، اشتراکیت، مساوات، کھیل، موسیقی، سٹیج، تھیٹر، تاریخ، ادب، شطرنج، سیاست، دست کاری اور دیگر فنون کو زندگی اور تربیت بخشی ہوئی تھی۔ آج سے کئی برس پہلے ہمارے دیہاتوں میں عشاء کی نماز سے فارغ ہو کر لوگ اپنے اپنے حجرے کا رُخ کیا کرتے تھے۔ وہاں بیٹھ کر نہ صرف حالاتِ حاضرہ پر سیرِ حاصل بحث مباحثے اور تبصرے کیا کرتے تھے بلکہ ایک دوسرے کے حال احوال، مال مویشیوں، کھیتوں کھلیانوں کے بارے میں بھی اپنے آپ کو باخبر رکھتے تھے۔ مقامی سیاست سے لے کر ملکی اور بین الاقوامی سیاست کے بارے میں اپنا اپنا نقطۂ نظر پیش کیا کرتے تھے۔ حجرے میں بیٹھے ہوئے نوجوان ان تمام بحث و مباحثوں کو بڑے انہماک سے سنتے اور ان باتوں پر غور و حوض کیا کرتے تھے۔
حجرے نے آج سے کئی برس پہلے نہ صرف ایک پارک، کلب، لنگر خانے، قلعے اور مورچے کا کردار ادا کیا ہے بلکہ یہی حجرہ پختونوں کی عدالت، جنرل اسمبلی، تفریح کی جگہ اور ایک دوسرے پر تنقید کرنے کا مرکز و محور بھی رہا ہے۔
حجرے کو “پختون ولی” میں اتنا اہم مقام اور مرتبہ حاصل رہا ہے کہ آج بھی کسی پختون سے ایسا ویسا کوئی کام سرزد ہو جائے، تو اسے یہی ایک طعنہ دیا جاتا ہے کہ “حجرہ جماعت خو نہ پیژنے” (حجرہ، مسجد کے آداب سے نا واقف ہو) یا “د حجرے پاس خو نہ ئی کنہ” (حجرہ پاس تو نہیں ہو نا) “چرتہ حجرہ جماعت کے ناست ئی”؟ (کبھی حجرہ یا مسجد میں بھی بیٹھے ہو…؟)
قارئین، حجرے میں ہر چیز کا بندوبست کیا جاتا تھا۔ خصوصاً چلم (حقہ) اور حجرہ دونوں تو لازم و ملزوم رہے ہیں۔ یہاں تک کہ پختونوں کے بعض علاقوں میں چلم کو “د حجرے مشر” (حجرے کا سرپنچ) بھی کہا جاتا ہے۔ رباب، ستار، مٹی کا گھڑا یہاں تک کہ روایتی نشوں کا پورا ساز و سامان یعنی نسوار بنانے اور دیگر اشیاء پینے کے تمام آلات بھی حجرے کے کسی کونے میں پڑے رہتے تھے۔
لیکن افسوس کہ جہاں ہمارے آبا و اجداد پختون ولی، انسانیت، اچھے اخلاق، بحث و مباحثے، کھیل کود، علم و ہنر اور دیگر فنون و علوم سیکھتے تھے۔ جس جگہ اور مکان نے انہیں محبت، بھائی چارے، اتفاق، برادری، رشتہ داری اور ایک دوسرے کے ساتھ خلوص اور صداقت کا عظیم سبق سکھایا ہے۔ ہماری اشتراکی اور مساوی زندگی کے وہ اعلا نمونے آج ویران و سنسان نظر آرہے ہیں۔ گھر میں موجود ذاتی بیٹھک، ڈرائنگ روم، ٹیلی وژن، موبائل اور سوشل میڈیا نے ہم میں اجتماعیت کی جگہ انفرادیت اور ذات پسندی کی ایک ایسی بیماری پیدا کی ہے جس کی وجہ سے ہم اپنی ذات اور اپنے گھر کی دیواروں سے باہر نہ کچھ دیکھ سکتے ہیں اور نہ کچھ سن سکتے ہیں۔ حجرہ جیسے دیگر اجتماعی مقامات اور ان مقامات سے وابستہ اقدار و روایات کے زوال نے ہمیں معاشرتی اور تہذیبی زوال کی راہ پر ڈال رکھا ہوا ہے، آج ہماری سماجی زندگی پر خود غرضی، انا پرستی، لالچ، تعصب پسندی اور خواہش پرستی نے ڈیرے ڈال دیے ہیں۔
آج ہم اپنی ذات کے ایک ایسے خیالی زندان میں مقید ہوکر رہ گئے ہیں کہ جہاں ہجوم کے شور میں بھی ہم اپنے آپ کو تنہا اور ذہنی طور پر جلا وطن محسوس کرتے ہیں۔ آئیے، ایک بار پھر اپنے ویران و سنسان حجروں کو آباد کریں۔ اپنی بیٹھکوں اور ڈرائنگ رومز کے دروازے اپنے پڑوسیوں، رشتہ داروں اور دوستوں کے لیے کھلے رکھیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھ کر نفرتوں اورکدورتوں کو منفی کریں۔ خوشیوں کو جمع کر کے انہیں ضرب دیں اور پھر آپس میں ایک دوسرے پر تقسیم کریں۔ بھلا اتنی مختصر ترین زندگی میں سے ایک دوسرے سے نفرت کرنے کے لیے وقت نکالنے کا کیا جواز بنتا ہے۔
جاتے جاتے امیر حمزہ خان شینواری کے اس شعر پر اجازت طلب کرنا چاہوں گا کہ:
لا دَ زڑہ حجرہ کے می پختو کوربنہ خکاری
وی کہ تنگ دستی ھم میلمنو تہ خوشالیگم
(تاحال میرے دل کے حجرے میں پشتو میزبانی دیکھی جاسکتی ہے۔ چاہے کتنی ہی تنگ دستی بھی ہو، تب بھی مہمانوں کی آمد پر خوش ہوتا ہوں)۔
__________________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: