مرد ہونا یا عورت ہونا ایک عام سی بات ہے۔ اس دنیا کی غالب اکثریت جو اربوں کی تعداد میں ہے، مرد اور عورت کی دو عام کیٹگریز میں منقسم ہیں۔ جس مرد کو دیکھو وہ دوسرے کی کاپی ہے، جس عورت کو ملو، وہ دوسرے کی جیسی ہے۔ ان دو عام جنسوں کے درمیان ایک تیسری، منفرد اور کم یاب جنس خواجہ سرا یعنی (Transgender) کی ہے جو کہیں سے مرد اور کہیں سے عورت ہوتی ہے۔
مرد کا جسم اور عورت کے احساسات، عورت کا جسم اور مرد کی حِسیات جو نہ مکمل طور پر مرد اور نہ ہی عورت ہوتی ہے۔ اس منفرد اور کم یاب جنس کو میڈیکل سائنس اور دوسرے علوم کچھ بھی سمجھتے ہوں، میری نظر میں یہ ادھوری مخلوق نہیں بلکہ انسانیت کی ایک ٹرانزیٹیو فیز ہے۔ جس طرح کوئی تخلیق کار فی الحال کوئی فیصلہ کن ارادہ رکھنے کی بجائے اپنی تخلیق کو مزید بہتر کرنے کا سوچ رہا ہو۔ اسی طرح ٹرانس جینڈر بھی ہے جس کا جسم اور سوچ و عمل ابھی مکمل نہیں، لیکن فنش بھی نہیں۔
کیا یہ کسی سپر انسان کو بنانے کی شروعات ہیں، جو لاکھوں سالوں کی ارتقائی سفر سے گذارا جا رہا ہے یا نئی میکس فیلنگز کو ایک ظرف میں اکٹھا کرنے کا کوئی انوکھا تجربہ جو ابھی لیبارٹری میں جاری ہے…؟ ایک مرد کیا ہوتا ہے اور ایک عورت کیا محسوس کرتی ہے….؟ اگر یہ دونوں کہیں پر ایک مکمل وجود میں پائے جائیں اور یہ انفرادیت عام ہوجائے، تب انسان انسان بنتا ہے۔ عورت مرد کو اور مرد عورت کو پورا نہ کرے بلکہ دونوں ایک ہی جنس میں موجود ہوں، تو کیا ہوگا…؟ فی الحال اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
انسانی ارتقاء کہیں پر رُک گیا ہے یا مکمل ہوگیا ہے، یہ دعوا کرنا فی الحال قبل از وقت ہے۔ ہم کن کن مراحل سے گزر کر یہاں تک پہنچے ہیں، اس کا کچھ نہ کچھ ادراک تو ہمیں ہوچکا ہے لیکن اچانک کوئی میوٹیشن ہو جائے اور وہ آنے والی نسلِ انسانی میں کیا کیا تبدیلی لائے، اس کے بارے میں صرف تصور ہی کیا جاسکتا ہے۔
ٹرانس جنڈر میرے خیال میں ادھورا نہیں ہے بلکہ منفرد اور کمیاب ہے۔ جو آگے کے انسانی سفر کا اختتام نہیں، ارتقائی منزل ہے۔ بلکہ ممکن ہے یہی جینیٹک مسائل سپر ہیومن بینگ کی طرف واضح لیکن کنفیوزنگ پیش رفت ہو۔ مرد اور عورت، دونوں معاشرتی کردار ہیں، لیکن ٹرانس جینڈر نئے معاشرتی کردار کا اگلا پڑاؤ ہے، جس نے ابھی اپنے آپ کو منوانا ہے۔
قارئین، ڈاکٹر مہرب معیز اعوان وہی اعلا تعلیمِ یافتہ، کلچرڈ، بیدار اور باشعور ٹرانس جینڈر کردار ہے جس کو اپنی شخصیت کی اہمیت اور انفرادیت کا بَہ خوبی احساس ہے۔ اس کی زبان عالمانہ، کردار قائدانہ اور شخصیت چھا جانے والی ہے۔ وہ کچلے ہوئے اور مارجنلائزڈ طبقے کی نمایندہ ہوکر بھی جس اعتماد اور بھر پور انداز میں خود کو پیش کرتی ہے، وہ ڈھیر سارے نام نہاد مردوں کے لیے باعثِ تشویش ہے۔
خدائی خدمت گار تحریک کے تسلسل یعنی عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) نے ڈاکٹر مہرب معیز اعوان کو سنٹرل ایگزیکٹو کونسل میں نمائندگی کر ایک شان دار، منفرد اور مثالی قدم اُٹھایا ہے۔ مہرب اعوان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنا مثبت کردار ادا کرتے ہوئے اپنے طبقے اور ہمارے لیے نئے راستے کھولے گی۔ امید ہے باقی سیاسی اور سماجی جماعتیں اور تنظیمیں  بھی ٹرانس جینڈر کو انسانی زندگی میں ان کا حصہ وصول کرنے میں مدد کرے گی۔
______________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: