رباب کے بارے میں کچھ پنجابی مؤرخین کا تاثر یہ ہے رباب سکھوں کے پیشوا بابا گرونانک نے ایجاد کیا تھا۔ لیکن جب پختون مؤرخین اس بات کو رد کرتے ہوئے یہ دعوا کرتے ہیں کہ رباب ہزاروں سالوں سے پختونوں کے ساتھ موجود ہے۔ پشاور یونی ورسٹی شعبہ پشتو کے پروفیسر صاحبان اور کچھ موسیقاروں اور گلوکاروں کا خیال ہے کہ رباب عربی زبان کا لفظ ہے اور یہ “روح باب” تھا اسکی معنی روح کا دروازہ ہے۔
کچھ مؤرخین کا خیال ہے کہ رباب ایران سے یہاں لایا گیا ہے لیکن یہ اندازے تب غلط ثابت ہوئیں جب افغانستان اور گندھارا سے ایسے آرٹ کے نمونے ملیں۔ ان نمونوں میں کچھ مجسمے تھے جن میں مردوں کے ساتھ رباب نظر آتا ہے۔ اسی طرح کندہ کاری میں بھی کچھ جگہوں پر رباب نظر آتا ہے۔ یہ مجسمے قبل مسیح کے ہیں اور کچھ دوسری صدی عیسوی کے ہیں۔ جس سے یہ تھیوری رد ہوتی ہے کہ رباب عربوں کی طرف سے آیا ہے کیوں کہ عرب تو ایک ہزار سال بعد یہاں پہنچے تھے اور نہ پہلے گندھارا کے ساتھ عربوں کا کوئی رابطہ تھا۔ لیکن ایران، ترکوں کے ثقافت میں رباب موجود تھا اور ایرانی، افغانی اور ترک پڑوسی بھی تھے۔ ایران اور افغانستان وسطی ایشیا آرین تہذیبوں سے بھی تھے اور آرین تہذیبوں میں رباب کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ کیوں کہ ایران وسطی ایشیا اور افغانستان گندھارا کے ارکیالوجی میں رباب نظر آتا ہے۔
اس کے علاوہ یورپی مؤرخین سمجھتے ہیں کہ آلات موسیقی پہلی بار یورپ میں گندھارا سے منتقل ہوئے تھے۔
سکاٹ لینڈ سے تعلق رکھنے والے مؤرخ “ویلیم ڈیرمپل” سوشل میڈیا کے ویب سائٹ ٹویٹر پر لکھتا ہے کہ یورپ میں بانسری وائیلن وغیرہ گندھارا دور میں گندھارا سے یہاں پہنچے تھے جو اب بھی میوزیم میں موجود ہیں۔
قارئین، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یورپین سیاح ادھر آئے تھے وہ یہاں موسیقی کی تعلیم حاصل کرکے واپس یورپ چلے گئے اور وہاں یورپین کو گندھارا کے موسیقی سے روشناس کرایا گیا۔ اس کے علاوہ اگر آپ گندھارا دور کے آرٹ نمونے دیکھیں جو مختلف میوزیم میں پڑے ہیں، ان میں ڈانس، رباب، بانسری، وائلن اور دوسرے آلات موسیقی نظر آتی ہیں۔ ظاہر ہے کچھ موسیقی کے آلات گندھارا کو دوسرے علاقوں سے آئی ہیں۔ یہاں لوگوں نے سیکھا اور طلباء کو سکھایا جو کلچر بن گیا۔ لیکن رباب کے بارے میں جتنی بھی ریسرچر ہیں، ان کو گندھارا سے باہر بہت کم آرٹ نمونے ملے ہیں۔ اگر ملی ہے، تو رباب کا ساخت مختلف ہے اور وہ بھی گندھارا سے پرانے نہیں ہے۔ اس لیے ہم یہ دعوا بھی کر سکتے ہیں کہ رباب اسی گندھارا کا ایجاد ہے اور یہاں سے دوسرے جگہوں پر منتقل کیا گیا ہے۔ یہ بات بھی تصدیق شدہ ہے کہ رباب پانچویں قبل مسیح سے اب تک یہاں موجود ہے۔ اسلام سے ایک ہزار سال پہلے بھی رباب ہماری ثقافت کا حصہ تھا اور یہ بات ارکیالوجی سے ثابت ہے۔
افغانستان اور موجودہ پختون خوا میں اسلام وقفے وقفے سے آیا ہے۔ جب گندھارا یا آدھا افغانستان راجہ جے پال کے سلطنت کا حصہ تھا۔ محمود غزنوی جب حملہ کررہا تھا، تو وہ ہندو شاہی سلطنت پر حملے کے لیے افغانوں کے کچھ قبیلوں کو اسلام اور کفر کی لڑائی پر اپنے ساتھ ملا رہا تھا جب کہ دوسری جانب اکثریت پختون راجہ جے پال کے لشکر کا حصہ تھے۔
قارئین، موسیقی کے بارے میں اگر تاریخ کے اوراق کو پلٹ دیا جائے، تو موسیقی پر زوال اور عروج آیا لیکن موسیقی ختم نہیں ہوئی۔ جب بھی موسیقی پر پابندی لگی، تو موسیقی نے جب موقع پایا، تو پریشر کے ساتھ ابھر کے سامنے آیا۔ خلفائے راشدین کے دور میں پوری دنیا میں موسیقی دربار کا باقاعدہ حصہ ہوتا تھا لیکن خلفائے راشدین نے اسے دربار سے نکالا، تو موسیقی محلے بازاروں میں چلی گئی۔ لیکن کچھ مذہبی لوگ مختلف ادوار میں موسیقی کے خلاف بھی کھڑے ہوئے جیسا کہ یوسف زئی ریاست میں پیر بابا نے موسیقی کو حرام قرار دیا لیکن اسی دور میں پیر روخان نے موسیقی کو حلال قرار دیا۔ پیر بابا کی سوچ تھی کہ موسیقی ختم کرکے یوسف زئی قبیلے سے ثقافت ختم کردیا جائے گا۔ جس سے یہ کم زور ہوں گے، نئی نسل تاریخ بھولے گی، مغل ریاست کے خلاف مزاحمت کم زور ہوگی، یوسف زئی ریاست کا خاتمہ ہوگا، تو یوسف زئی ریاست مغل ریاست میں ضم ہوگی۔ کیوں کہ اس وقت یوسف زئی ریاست ایک لاکھ مسلح فوج کے ساتھ ایک منظم ریاست تھی۔ جب کہ پیر روخان کا خیال تھا اگر مغل اسی طرح ہماری ثقافت، موسیقی، زبان اور تاریخ پر پابندی لگاتے رہین گے، تو ایک دن ہم اپنی شناخت بھول کر مغل کے غلامی میں جائیں گے۔ لہٰذا ہمیں ہر قیمت پر اپنی ثقافت اور آلات موسیقی کو زندہ رکھنا ہوگا۔ تاریخ سے واضح ہوتا ہے کہ پیر روخان اپنے مریدوں کے ساتھ موسیقی کے محفلیں سجاتے تھے۔
قارئین، موسیقی اور آلہ موسیقی یعنی رباب سے جاری یہ لڑائی آج کی نہیں بلکہ صدیوں پرانی ہے۔ لیکن پختونوں نے کبھی بھی موسیقی سے گناہ کی ڈر سے انکار نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان کے بادشاہ میرویس ہوتک، احمد شاہ ابدالی، غازی امان اللہ خان اور ظاہر شاہ سمیت دیگر بادشاہوں نے موسیقی کو دربار میں منتقل کردیا۔
قارئین، پختون خوا میں انگریزوں نے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ پشتون ثقافت کو ختم کیا جائے تاکہ پختون متحد نہ رہے۔ اسی لیے مولویوں کے ذریعے موسیقاروں کی حوصلہ شکنی کی گئی۔ حتیٰ کہ مولویوں نے تعلیم کو گناہ کبیرہ قرار دیا تھا۔ پاکستان بننے کے بعد موسیقی پر پختونوں نے ذاتی حیثیت سے کام شروع کیا لیکن ریاست نے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ پشتو موسیقی کی حوصلہ شکنی کی کرے۔
____________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔