بانی خدائی خدمت گار تحریک خان عبدالغفار خان (باچا خان) کے سیاسی جانشین اور رہبر تحریک خان عبد الولی خان برصغیر کی نظریاتی سیاست میں ایک ایسا نام ہے جن کے کردار و افکار کی آج بھی مثالیں دی جاتی ہیں۔ پاکستان کے موجودہ حالات کی بات ہوتی ہے، تو ولی خان کی کہی گئی تاریخی باتوں کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ایک تلخ بات بھی کہی جاتی ہے کہ ولی خان نے جب یہ حقائق کہے تھے، تو ان پر ملک دشمنی اور روسی ایجنٹ کے فتوے لگائے گئے۔ لیکن اس کے باوجود ولی خان نے 1965ء کے صدارتی انتخابات میں محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کی تھی کہ 1948ء میں مسلم لیگ ہی کے دور حکومت میں بابڑہ کے اندوہناک واقعے میں 600 سے زائد خدائی خدمت گاروں کو شہید کر دیا گیا تھا۔ ولی خان جب محترمہ فاطمہ جناح سے ملنے سردار عبد الرشید کے گھر پہنچے، تو عبدالقیوم خان کی طرف دیکھ کر کہا کہ مجھے یوں لگ رہا ہے کہ جیسے میں بابڑہ کے 600 شہیدوں کی لاشوں پر چلتا آپ کی طرف آیا ہوں لیکن ہم نے ڈکٹیٹر کے بجائے جمہوریت کا انتخاب کیا ہے۔ سردار حسین بابک کے بقول: 1965ء کے صدارتی انتخابات میں ولی خان نے ایک دکٹیٹر کے مقابلے میں فاطمہ جناح کا ساتھ دے کر یہ بات واضح کیا کہ ہم جمہوریت پسند سیاسی راہ نما ہے۔”
پہ ڈک خار ئی ملغلری خرسولی
چا غزلی چا سندری خرسولی
کہ دا زہ چرتہ د مینی دکان دار وے
ما بہ ستا د خولی خبری خرسولی
ہماری آج کی کاوش رہبر تحریک خان عبدالولی خان کی سیاسی زندگی اور جد و جہد پر مختصر نظر ڈالنا ہے۔
قارئین، ولی خان نے 11 جنوری 1917ء کو اتمان زئی چارسدہ میں سرحدی گاندھی کہلانے والے خان عبد الغفار خان کے گھر جنم لیا۔ سینئر صحافی سلیم صافی کے بقول: ولی خان اپنی عملی اور سیاسی زندگی میں اگر کچھ بھی نہ کرتے، تو ان کےلیے یہ تعارف ہی کافی تھا کہ وہ باچا خان کے بیٹے اور سیاسی جانشین تھے۔ ان کے نقاد اور مخالفین بھی اس حقیقت کو نہیں جھٹلا سکتے کہ ولی خان پاکستان کی سیاست میں وقار کی علامت تھے۔
موصوف نے ابتدائی تعلیم بھی اسی آزاد اسلامیہ ہائی سکول سے حاصل کی جس کی بنیاد باچا خان نے رکھی تھی بلکہ ولی خان اس سکولنگ سسٹم کے پہلے طالب علم تھے۔ 1933ء میں اُنہوں نے سینئر کیمرج (میٹرک) کیا لیکن انہی دنوں آنکھ میں تکلیف شروع ہو گئی اور پھر ڈاکٹروں نے مزید پڑھنے سے منع کر دیا تھا۔
1942 میں خدائی خدمت گار تحریک سے اپنی سیاسی جد و جہد کا آغاز کیا اور ابتدائی سال کے دوران میں پہلی مرتبہ 1943 میں ایف سی آر کے تحت گرفتار کر لیے گئے۔ ولی خان کو 15 جون 1948ء کو دوبارہ گرفتار کیا گیا اور ہری پور جیل بھیج دیا گیا۔ 12 اگست 1948ء کو بابڑہ کا افسوس ناک واقعہ اسی جلسے کے دوران میں رونما ہوا جو ولی خان، باچا خان اور دیگر گرفتار خدائی خدمت گار راہ نماؤں کی رہائی کے لیے بطورِ احتجاج ہو رہا تھا۔
زہ چی غم د پختانہ خورم
نو سرکار جی ستا نہ سہ خورم
ما پہ کمہ گناہ وژنے
خزانے تہ خوری کہ زہ خورم
1953ء میں جس وقت فیڈرل کورٹ (اب سپریم کورٹ) نے ولی خان کو رہائی دی اس سے پہلے ولی خان 5 سال، 5 مہینے اور 5 دن قید کاٹ چکے تھے۔ 1954ء میں “ون یونٹ” کے قیام کے خلاف جد و جہد شروع کی گئی جس میں ولی خان بھی باچا خان کے شانہ بشانہ رہے۔ اسی سیاسی مزاحمت کے دوران میں 1957ء میں ایک نئی پارٹی عمل میں لائی گئی جس کا نام نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) رکھا گیا۔ 1969ء میں ولی خان نیپ کے مرکزی صدر بنے۔ 13 نومبر 1968ء کو ولی خان کو جنرل ایوب کے خلاف بیانات دینے کے جرم میں پھر گرفتار ہوئے اور مارچ 1969ء میں رہا ہوئے۔ ولی خان کی فوجی ڈکٹیٹروں کے خلاف جد و جہد کبھی نہیں رکی اسی وجہ سے 26 نومبر 1971ء کو یحییٰ خان نے نیپ پر پابندی لگا دی لیکن بعد میں بھٹو نے پابندی ہٹالی۔ 1975ء میں اس وقت کے صوبہ سرحد (اب خیبر پختون خوا) کے گورنر اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے راہ نما حیات خان شیر پاؤ ایک بم دھماکے میں شہید ہوئے، تو پیپلز پارٹی کی حکومت نے قتل کا الزام ولی خان پر لگا دیا اور انہیں اسی رات پنجاب کے شہر گجرات کے قریب گرفتار کر لیا گیا۔ اس کے بعد نیپ کے تمام سرکردہ راہ نما اس وقت کے صوبہ سرحد، بلوچستان، پنجاب اور سندھ سے گرفتار ہوئے۔ بھٹو جیسے ہی دورہ امریکہ سے لوٹے، تو انہوں نے 9 فروری 1975ء کو نیپ پر پابندی لگانے ہوئے ولی خان اور ان کے ساتھیوں پر مشہور زمانہ حیدر آباد سازش کیس کا مقدمہ بنایا گیا۔
حق می د ژبی سر تہ راشی حق پرور شمہ زہ
د ولی خان تقرير چی واورم زڑور شمہ زہ
د ولی خان جھنڈا چی واخلمہ سرلوڑے خکارم
پہ خپلو سترگو کے تر ھر چا قداور شمہ زہ
د ولی خان کتاب چی ولولم ریختیا ریختیا دی
ریختیا ریختیا دی، ریختیا وايم، خولور شمہ زہ
دا سوک لگیا دی امتحان د سورخ پوشانو اخلی؟
تر ٹولو سختہ مورچہ چرتہ دہ چی ور شمہ زہ؟
زما ارمان دے چی بے وزله زڑو ته لاره وکڑم
زما ارمان دی چی د خلکو د باور شمہ زہ
د زان دپارہ چی لمحہ نيمہ ھم تیرہ کڑمہ
بيا پہ کلونو لہ خپل زانہ مرور شمہ زہ
زما دليل تہ توان بخلی دی رھبر ولی خان
چی پہ وینا کے لکہ خپل زخم ژور شمہ زہ
زما خوا خوگو مہربانو پہ ما وس تمام کہ
چی د خپل قام خبرہ پریگدم دانشور شمہ زہ
قارئین، ولی خان پر چار بار قاتلانہ حملے ہوئے۔ دو خیبر پختون خوا میں جب کہ دو حملے پنجاب میں ہوئے مگر ولی خان محفوظ رہے۔ بقول ریاض تسنیم،
وليان نہ يو خو بيا ھم پہ زیگر مو غشے کوگ شی
تسنيمہ! دا پہ کومو دعاگانو باندے پايوو؟
مارچ 1977ء میں قومی اسمبلی کے الیکشن ہوئے جن میں سرکاری اعلان کے مطابق پیپلز پارٹی نے بھاری اکثریت حاصل کرلی تھی لیکن “پاکستان نیشنل الائنس” (پی این اے) نے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے 10 مارچ 1977ء کے صوبائی انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ اپوزیشن کے منتخب ارکان قومی اسمبلی نے احتجاجاً استعفے دیے اور بھٹو کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کی۔ جولائی1977ء میں مارشل لا لگانے کے تقریباً تین ہفتے بعد جنرل ضیاء الحق ولی خان اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ ملاقات کے لیے حیدر آباد جیل گئے۔ ان سے مذاکرات کیے اور آخر کار حیدر آباد سازش کیس میں ملوث تمام افراد کو رہا کر دیا گیا۔ جنرل ضیاء کی حکومت کے خلاف  ایم آر ڈی” (مومنٹ فار ریسٹورنگ آف ڈیموکریسی) کی تحریک میں ولی خان کو ایک اہم حیثیت حاصل تھی اور اس تحریک کے دوران میں بھی وہ متعدد بار گرفتار ہوئے۔ لیکن وہ ہمیشہ جنرل ضیاء کے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے چیلنج کرتا تھا۔ سلیم صافی کے بقول: ہماری سیاست اور معاشرے سے کھری اور سچ بولنے کی روایت رخصت ہوئی ہے، لیکن خان صاب ہی وہ شخصیت تھے جنہیں آمروں کے سامنے سچ بولنے کی ہمت تھی۔”
پہ جیل خانہ کے مرگے نشتہ
چی د یارئی می توبہ گار نہ شی مئینہ
قارئین، رہبر تحریک خان عبدالولی خان ایک زیرک، مدبر اور دور اندیش سیاست دان تھے۔ کیوں کہ موصوف بہ یک وقت تین زمانوں یعنی ماضی، حال اور مستقبل میں رہا کرتے تھے۔ ان کی منھ سے نکلی ہوئی ہر بات کا ایک خاص پس منظر ہوا کرتا تھا۔ عوامی نیشنل پارٹی خیبر پختون خوا کے صدر غازی میاں افتخار حسین کے بقول:
“مجھے اچھی طرح یاد ہے جب ولی خان نے باچا خان مرکز پشاور میں اپنی زندگی کی آخری پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا افغانستان کو برباد کرکے بے یار و مدد گار چھوڑ کر نہ جائے۔ اگر امریکا نے افغانستان کو برباد کیا ہے، تو اب آباد بھی کرے۔ ولی خان کے اس موقف سے عوامی نیشنل پارٹی کی مقبولیت میں کسی حد تک کمی بھی آئی تھی۔ تاہم، وقت گزرنے کے ساتھ ولی خان بابا کی منطق ان کے حلیفوں اور حریفوں پر عیاں ہوگئی۔ انہوں نے مان لیا کہ ان کا موقف سو فی صد درست تھا۔ امریکا نے روس کے خلاف ہمارے خطے کو استعمال کیا تھا اور جنگ لڑنے کےلیے افغان مجاہدین کے نام سے ایک فورس قائم کی تھی جس نے روس کی شکست کے بعد طالبان کی شکل اختیار کرلی۔ ولی خان بابا کا موقف تھا کہ افغانستان کی تباہی اور طالبان کی پرورش میں امریکا براہ راست ملوث ہے۔ لہذا یہ اس کی ذمے داری بنتی ہے کہ افغانستان کو آباد کرے اور اپنی قائم کردہ تنظیم کو غیر مسلح کرے۔ امریکا نے ولی خان کے اس موقف کو اہمیت نہ دی اور تباہ حال افغانستان کو اپنے حال پر چھوڑ دیا جس کے نتیجے میں آج بھی جنگ و جدل کی آڑ میں افغانستان اور پاکستان میں ایک کاروباری جنگ جاری ہے۔ اگر ماضی میں ولی خان کے موقف کو اہمیت دی جاتی، تو آج صورت حال یکسر مختلف ہوتی۔ یہ ولی خان کی دور اندیشی اور وسیع النظری تھی جو بعد میں سیاسی پنڈتوں پر کھلی اور ان کی سوچ اور فکر کو تسلیم کیا گیا۔”
جب کہ سینئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس کہتے ہیں کہ: 80 کی دہائی میں افغانستان میں جو حالات چل رہے تھے اور اس میں پاکستان کا جو کردار تھا، اس پر مجھے ولی خان کا وہ تاریخی جملہ یاد آتا ہے کہ آج افغانستان میں جو گولی اور بندوق چل رہی ہے، ایک دن اس کا رخ اسلام آباد کی طرف ہوگا اور وہ ہوگیا۔ اس وقت تو ہم نے امریکا اور ڈالروں کی ایما پر خان صاب کو غداری کی سرٹیفکیٹ سے تو نوازا، لیکن 9/11 کے بعد پاکستان کا جو نقصان ہوا ہے اور ہورہا ہے وہ ہم سب کے سامنے ہیں۔”
برسبیل تذکرہ، رہبر تحریک نے ساری زندگی اپنے والد بزرگوار باچا خان کی طرح عدم تشدد کی اصولوں پر کاربند رہتے ہوئے پختونوں کی آئینی اور قانونی حقوق کے حصول کے لیے ایک لازوال جد و جہد کی۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے زندگی کا بیشتر حصہ ان کی زندگی جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارا، لیکن کبھی بھی اپنی اُصولوں پر سودے بازی نہیں کی۔
قارئین، 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں “نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی (این ڈی پی) نے حصہ لیا۔ اس وقت سردار شیر باز خان مزاری این ڈی پی کے مرکزی صدر تھے۔ لیکن جولائی 1986ء کو کراچی میں این ڈی پی کو عوامی نیشنل پارٹی میں تبدیل کردیا گیا جس کے بعد ملک کے کئی نامور قوم پرست راہ نماؤں نے ولی خان کی قیادت میں اے این پی سے نیا سیاسی سفر شروع کیا۔ 1988ء کے عام انتخابات میں ولی خان این اے 05 چارسدہ سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے اہم راہ نما کے طور پر سامنے آئے۔
آخری الیکشن 1993ء میں اپنے آبائی حلقے چارسدہ سے لڑے اور ناکامی کے بعد ہمیشہ کے لیے انتخابات سے دستبردار ہوئے اور پارٹی قیادت درویش صفت شاعر و سیاستدان اجمل خٹک کے حوالے کر کہ خود عملی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ اس کے بعد بھی ولی خان کو میاں نواز شریف، میر افضل خان اور رحمان اللہ کاکا (صوابی) نے پارلیمانی سیاست میں واپس آنے کے لیے قائل کرنے کی کوششیں کرتے ہوئے انہیں اپنی نشستوں سے الیکشن لڑنے کی پیش کش کی مگر ولی خان نے شکریہ کے ساتھ معذرت کر کے کہا تھا کہ اگر میرے اپنے حلقے کے لوگوں کا مجھ پر اعتماد نہیں رہا، تو کسی اور جگہ سے لڑنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں بنتا۔ صاحب کردار ولی خان کا یہ کردار اس ملک کے داغ دار سیاسی تاریخ میں ہمیشہ سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔
قارئین، ولی خان نے آخری دم تک فخر افغان باچا خان کے سیاسی فلسفے اور نظریات پر پورے اعتماد کے ساتھ کار بند رہتے ہوئے اصولی سیاست کی جس کی پاداش میں انہیں متعدد بار جیلوں کی صعوبتیں اور ذہنی اذیتوں سے گزرنا پڑا۔ موصوف نے اپنے اصولوں کی خاطر جتنی جیل کاٹی، شاید ہی کسی اور سیاسی لیڈر نے کاٹی ہو۔ وہ خود اس بات کا برملا اظہار کرتے تھے کہ “بچوں! ہمارے اور حکومت کے درمیان جنگ سیاست اور اقتدار کی نہیں، بلکہ آپ کے وسائل، حقوق اور روشن مستقبل کی ہے۔” اس حوالے سے میاں افتخار حسین کہتے ہیں کہ “ولی خان کا جھگڑا اسلام یا سوشل ازم سے نہیں تھا بلکہ وہ ترقی پسندانہ قوم پرست سیاسی نظریہ یعنی نیشنل ازم کے حامی تھے۔ وہ اپنی دھرتی ماں سے بے پناہ پیار اور محبت کرتے تھے۔ اس لیے وہ اپنی تاریخ، ثقافت، تہذیب اور جدید تقاضوں کے حوالے سے پختون خوا کے وسائل پر پر پختون قوم کا اختیار چاہتے تھے۔ ان کی اسی قوم پرستانہ سیاسی نظریہ کو مخصوص سیاسی حلقے اور مقتدر قوتیں ان کی زندگی میں پوری چابک دستی کے ساتھ ہدف تنقید بناتی رہی اور عوام کے سامنے ان کے سیاسی قد کاٹ کو گرانے کی مذموم اور ناکام کوششیں کرتی رہی۔ انہیں غدار اور علاحدگی پسند سیاست دان جیسے منفی القابات سے نوازا جاتا رہا۔ بقول شاعر
خلقت نے آوازیں کسے طعنے دیئے فتوے گڑے
وہ سخت جاں ہنستا رہا گو خود کشی پل پل میں تھی
مجھے وہ دن بھی یاد ہے جب ضیاء الحق نے ولی خان کے خلاف ایک سیاسی بیان داغتے ہوئے کہا تھا کہ “پاکستان کو ایک درجن ولی خان بھی نہیں توڑ سکتے۔ جس پر ولی خان نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ایک درجن ولی خانوں کو پاکستان توڑنے کی کیا ضرورت ہے…؟ پاکستان توڑنے کے لیے پہلے بھی ایک جرنیل کافی تھا اور اب بھی ایک جرنیل کافی ہے۔”
قارئین، یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ ولی خان کا نظریہ نیشنل ازم محض پختونوں تک محدود نہیں تھا بلکہ وہ پاکستان کے چاروں صوبائی اکائیوں اور چھوٹے قومیتوں کو مکمل طور پر آزاد اور خود مختار دیکھنا چاہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ہر موڑ پر ان کی حقوق کےلیے نڈر اور بے باک موقف اختیار کیا۔ اس حوالے سے موصوف کے بیٹے اسفندیار ولی خان کہتے ہیں کہ: آج تک ملک میں جتنے بھی حکم ران آئے، انہوں نے بھر پور کوشش کی کہ ولی خان کو دبا کر اسے اپنا تابع بنا دے لیکن بقول جالب:
مرے کارواں میں شامل کوئی کم نظر نہیں ہے
‏جو نہ مٹ سکے وطن پر میرا ہم سفر نہیں ہے
‏در غیر پر ہمیشہ تمہیں سر جھکائے دیکھا
‏کوئی ایسا داغ سجدہ مرے نام پر نہیں ہے
‏کسی سنگ دل کے در پر مرا سر نہ جھک سکے گا
‏مرا سر نہیں رہے گا مجھے اس کا ڈر نہیں ہے
قارئین، ولی خان کرسی اور اقتدار کی سیاست کے مخالف تھے کیوں کہ وہ وحدت فکر اور عمل پر یقین رکھتے تھے۔ ولی خان خود اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ہم پارلیمنٹ سے باہر رہ کر بھی اپنی قوم کی خدمت کر سکتے ہیں۔ وہ کہا کرتے تھے کہ اچھی لیڈر شپ وحدت فکر سے پیدا ہوتی ہے اور پاکستان میں وحدت فکر کے بجائے انتشار ہے جب کہ یکسانیت کی بجائے شخصیت اور انا پرستی ہے۔ وہ قومی کردار کے فقدان پر بھی رنجیدہ تھے اور کہا کرتے تھے کہ پاکستان میں ادارے مقدم نہیں شخصیات مقدم ہیں۔
اس بات سے چنداں انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس ملک کے داغ دار سیاست اور جانب دار تاریخ میں ولی خان ایک متنازع شخصیت رہے لیکن اگر غیر جانب داری اور ایمان داری سے ان کی سیاسی زندگی پر نظر ڈالی جائے، تو کردار کی استقامت اور چاروں طرف بڑھتی پھیلتی ہوئی کرپٹ کلچر میں اپنے ملبوس کو پاک اور صاف رکھنے کی ہمت جن چند شخصیات میں نظر آتی ہے، ان میں ولی خان پہلی ہی صف میں نظر آئیں گے۔ کیوں کہ اپنے طویل سیاسی سفر میں انہیں ڈھیر سارے مواقع ملے، پیش کشیں ہوئیں۔ اگر وہ چاہتے، تو با آسانی اپنے ہم عصروں کی طرح دولت کے انبار جمع کر سکتے تھے۔ لیکن وہ مادہ پرست دنیا کے آدمی نہیں تھے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے مخالف بھی تادم تحریر ان پر مالی بد دیانتی کا الزام تک عائد نہ کر سکے۔ خواجہ آصف کے بقول: ولی خان نے پاکستان کی پارلیمانی سیاست میں جو روایات قائم کی تھی، وہ اور ان کے افکار آج کے اس پرفتن سیاست میں ہم سب کےلیے نہ صرف قابل تقلید ہیں بلکہ ہمیں اس کی ترویج کی بھی ضرورت ہے۔”
غرض رہبر تحریک خان عبدالولی خان شجاعت، اصول پرستی، جمہوریت پسندی، سیاسی بیداری اور اپنے عظیم والد باچا خان کے فلسفہ امن (عدم تشدد) کا ایک روشن استعارہ تھا جن کی سیاسی جد و جہد کو پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
جسم ہے خاک مگر زخم ہنر زندہ ہے
کیا ہوا تو جو نہیں تیرا سفر زندہ ہے
قارئین، یہ صاحب کردار اور اصول پرست سیاست دان ولی خان 26 جنوری 2006ء بروز جمعرات کو پختون قوم کی خوش حالی اور اتفاق کی ارماں دل میں لیے اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔ لیکن اپنے پیچھے نظریاتی سیاست کی ایک مکمل تاریخ چھوڑ گئے جس کو ہمیشہ مثال کے طور پیش کیا جاتا رہے گا۔ موصوف کی میت آخری دیدار کے لیے کننگھم پارک میں رکھی گئی تھی۔ 27 جنوری بروز جمعہ کو سہ پہر تین بجے ان کی نماز جنازہ ادا کردی گئی اور ان کی وصیت کے مطابق ولی باغ چارسدہ میں سپر د خاک کیے گئے۔
جانانہ لاڑے اسمانی شوی
اسمان چی زمکی لہ رازی قيامت بہ وینہ
جاتے جاتے اکمل لیونی (مرحوم) کے اس مرثیے پر اجازت طلب کرنا چاہوں گا جو انہوں ولی خان کی وفات پر لکھا تھا:
وی پہ دی لیلیٰ وطن مئین لکہ مجنون ولی
ننگ ولی، غیرت ولی، پختو ولی، پختون ولی
زڑہ کے د خپل قام او د وطن سرہ دی مینہ وہ
کلہ چی بہ وخت راغے شیندلی دی پی مینہ وہ
کمہ فیصلہ چی بہ دی اوکڑلہ سنگینہ وہ
ستا ھرہ خبرہ لکہ مخ د توری سپینہ وہ
نا منلو تا د چا جابر ظالم قانون ولی
ننگ ولی، غیرت ولی، پختو ولی، پختون ولی
نن د مرگ نہ پس خپلو پردو درپسی اوجڑل
لر او بر تمامو پختنو درپسی اوجڑل
چا چی جڑہ ولے وی ھغو درپسی اوجڑل
ٹولی پختون خوا لویو وڑو درپسی اوجڑل
کاش چی پیژندلے وے دی خلکو پہ ژوندون ولی
تا دی اللہ اوبخی خو شر راتہ لا پاتی دے
مخی تہ ولاڑ یزید شمر راتہ لا پاتی دے
سوال د پختنو د لر او بر راتہ لا پاتی دے
جنگ د کالا باغ ڈیم ڈیم پہ سر راتہ لا پاتی دے
ھیس چری مو نہ رازی د دوی سرہ سمون ولی
ننگ ولی، غیرت ولی، پختو ولی، پختون ولی
__________________________
راقم کے اس تحریر کو آج یعنی 31 مئی 2024ء بہ روزِ جمعہ روزنامہ آزادی سوات نے پہلی بار شرفِ قبولیت بخش کر شایع کروایا ہے۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: