د باجوڑ د غرونو بازہ
اے د پختون وطن آوازہ
زمونگ غرورہ زمونگ نازہ
ھیس کلہ مہ نشی بے پروازہ
خدائے دی کام یاب کڑہ نثار بازہ
د پختون خوا زلمی دعا درتہ کوینہ
فروری 2024ء کو وطنِ عزیز پاکستان میں عام انتخابات کا مرحلہ اپنے اختتام کو پہنچا ہے۔ جب کہ اس وقت قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے مختلف حلقوں پر ضمنی انتخابات کا بگل بج چکا ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں کمر کس کے میدان میں نکلنے والی ہیں۔ ان حلقوں میں صوبہ خیبر پختون خوا کے ضلع باجوڑ کا ایک صوبائی حلقہ PK-22 بھی شامل ہے، جس پر 11 جولائی کو انتخابات کا میدان سجنے والا ہے۔ اس الیکشن میں مختلف جماعتوں کے امیدوار میدان میں کود کر قسمت آزمائی کرنے والے ہیں۔ ان امیدواروں میں ایک معتبر حوالہ خدائی خدمت گار تحریک کے تسلسل یعنی عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار محمد نثار کا بھی ہے جو سیاسی حلقوں میں نثار باز کے نام سے جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔
قارئین، اس دنیائے آب و گل میں بہت کم شخصیات ایسی ہیں جو مثالی طرز حیات رکھتی ہیں۔ اُن کا رہن سہن، ملنا جلنا، اُٹھنا بیٹھنا، بات چیت، لب و لہجہ، اخلاق و تمیز، الغرض شخصیت کا ہر زاویہ بہترین اور بے مثال ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح سیاست کے میدان کا کھلاڑی اور عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار برائے صوبائی اسمبلی حلقہ PK-22 باجوڑ نثار باز بھی ہیں، جن کو اللہ تعالا نے بے شمار صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ اُنہوں نے اپنی غیر متزلزل جد و جہد کی خاطر پختون قومی سیاست میں اپنا ایک جداگانہ حیثیت اور مقام بنا رکھا ہے۔
شکر دے یمہ قام پرستہ
باچا خانی خا یم اولس تہ
بد نہ خکاریگمہ پہ مرستہ
اے جنگ پرستہ ستا د قستہ
زہ بہ د امن ٹپے ھر چاتہ کومہ
اکہرا بدن، دراز قد، متوسط مگر روشن آنکھیں، داڑھی موچھ چٹ، مخروطی انگلیاں، چال ڈھال میں سلاست روی، لمبے ہاتھ، بازوں تگڑے، کندھے مناسب اور گھٹی گردن سے قدرے اوپر چہرے کی خدوخال پہ نظر ڈالی جائے، تو ان کی سانولی رنگت میں اپنی اِک خاص جاذبیت موجود دکھائی دیتی ہے۔ دو عنابی ہونٹوں پہ ہر وقت ہلکی مسکان سجی رہتی ہے۔ جبڑوں میں دھنسے بادامی گال، متناسب ناک، نرم لب و لہجہ، شیریں گفتار، کانوں میں رس گھولتی آواز اور جھیل ایسی گہری آنکھیں ان کی شخصیت کو اور بھی پُرکشش بنا دیتا ہے۔ وجاہت اور شرافت کا یہ پیکر اپنا ایک کردار اور جداگانہ طرزِ سیاست رکھتے ہیں۔ بہترین اخلاق، تہذیب و تمدن سے بھر پور، علم و ادب کا درخشندہ ستارا اور ایک ایسی شخصیت جس کے چہرے پر مسکراہٹ، جوشیلہ پن، اطمینان و حوصلہ، اعتماد اور سنجیدگی کا ایک طوفان نظر آتا ہے۔ علاحدہ اخلاق، مِلن ساری اور لوگوں کے ساتھ شفقت کا ایک منفرد طریقۂ کار رکھتے ہیں۔ جس سے ملتے ہیں، تو اسے اپنا شیدائی بنالیتے ہیں یا اس پر فریفتہ ہوجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف سیاسی سوچ اور نظریات رکھنے والے لوگ آپ ہی کے شرافت اور اخلاق کے گن گاتے نظر آتے ہیں۔
موصوف زمانۂ طالب علمی سے ہی عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) سے وابستہ ہیں۔ دورانِ طالب علمی "پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن” (پی ایس ایف) کے سرگرم کارکن رہے۔ تعلیم سے فراغت کے بعد "نیشنل یوتھ آرگنائزیشن” (این وائی او) میں چلے گئے۔ جس کے بعد عملی سیاست میں قدم رکھتے ہوئے میاں افتخار حسین، سلیم خان ایڈوکیٹ، حیدر ہوتی، سردار حسین بابک، مولانا خان زیب، ادریس خان، ایوب خان اشاڑی اور ڈاکٹر خادم حسین سمیت دیگر قد آور شخصیات کے سیاسی تجربے سے براہِ راست مستفید ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ ننگ اور پت کا پیکر یہ نوجوان پختون دھرتی کی ترقی کےلیے تڑپ رہا ہے۔ یہ نوجوان اس دھرتی سے کس قدر پیار کرتا ہے، کس قدر پختون ولی اور اپنے اقدار کو یاد کرتا ہے، کوئی اس سے جانے جو پختون نوجوانوں کو خوش حال اور پختون خوا کو ترقی کی راہ پر گام زن دیکھنے کا متمنی ہے۔
د شا زلمو نہ لوگے لوڑو جذبوں نہ قربان
چی دوی پختو ساتلی د دوی پختو نہ قربان
پہ خپلو ہمتونو یی گٹلے نن پرون دے
ننگ کڑے نثار باز پہ خپلہ خاورہ نر پختون دے
آپ نے ہر قدم پر ملی مشر اور رہبرِ تحریک (دوم) اسفندیار ولی خان اور پارٹی کا بھر پور ساتھ دیتے ہوئے غاصبوں کی رعونت کو للکارا، جس کی وجہ سے ان پر وقتاً فوقتاً ایف آئی آر کاٹے گئے۔ پارٹی کے ساتھ وفادار ہونے کی وجہ سے طرح طرح کی تکالیف اُٹھائیں اور صعوبتیں جھیلیں لیکن پختون سیاست اور اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹے۔
مردہ پرست نہ یم زه پہ ژوندو مئین یم
چی انقلاب راولی پہ وینو سرو مئین یم
ھغہ د قام غاصبان چی ما غدار بولی
گریوان کے خپل نہ گوری ما گناہ گار بولی
سیاسی جد و جہد کے دوران میں موصوف کو مختلف سیاسی جماعتوں کی طرف سے طرح طرح کی پیش کشیں ہوئیں لیکن نظریہ اور ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اسے ٹھکرا دیا۔ بقولِ اسلم شاہؔد!
مَیں جس کا ہاتھ پکڑتا ہوں تھامے رکھتا ہوں
مرا مزاج زمانے سے تھوڑا ہٹ کر ہے
موصوف کے سیاسی کیرئیر کے بارے میں ہمارے استاد اور دوست فضل احد صاحب کہتے ہیں کہ: "میں باز کو بچپن سے جانتا ہوں۔ اُن کی طویل سیاسی، عوامی اور جمہوری جد و جہد سے انکار نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ موصوف ایک منجھے ہوئے، زیرک، بہادر اور ایک وفا دار سیاسی کارکن ہیں۔ وہ نہ صرف باجوڑ بلکہ پورے پختون خوا کےلیے ایک توانا آواز ہیں۔ موصوف جس جواں مردی سے پختون قوم کے مقدمے کا حق ادا کرنے اور عوامی مسائل کے حل کےلیے بدترین ریاستی پروپیگنڈے کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہے ہیں، وہ تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ عوامی مسائل کے لیے لڑنا، مکالمہ کرنا، خطاب کرنا اور سب سے بڑھ کر اپنے ساتھیوں پر محبت کے پھول نچھاور کرنا باز جیسی ہستیوں کا کام ہی ہیں۔ نثار باز ابھی نوجواں ہے اور اس عمر میں اکثر نوجواں اپنی مستقبل سنوارنے کے لیے تگ ودو کرنے میں مصروف ہوتے ہیں لیکن باز کو پختون قوم کی بے بسی اور غم کھا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جوانی میں ہی ہر در اور گلی جا کر "پختون قامی وحدت” کے لیے مصروف عمل ہیں۔ مجھے باز اس لیے پسند ہیں کہ وہ ایک بے ریا اور بے باک انسان ہیں۔ خوئی خصلت میں ایک کھرے اور سچے پختون ہیں۔ اگر باجوڑ کے عوام نے باز پر ننگ کرتے ہوئے اسے منتخب کیا، تو مجھے یقین ہے کہ وہ اسمبلی میں موجود سیکڑوں جذباتی اور غیر سیاسی لیڈران کے لیے اکیلے ہی کافی ہوں گے۔ مختصراً موصوف عوامی نیشنل پارٹی اور پختونوں کا نہایت ہی قیمتی اثاثہ ہیں جن کا سیاسی جد و جہد قابلِ تحسین اور نوجواں نسل کےلیے قابلِ تقلید ہے۔”
دا چی نعری د انقلاب د زڑہ لہ تلہ وھی
دا شاہ زلمی بہ پہ دی خاورہ انقلاب راولی
قارئین، مہذب دنیا میں سیاست نہ صرف عوام کی خدمت کا ایک بڑا ذریعہ سمجھا جاتا ہے بلکہ اس کو عبادت کا درجہ بھی دیا جاتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے مملکتِ خداداد میں گزشتہ چند سالوں سے اسٹیبلشمنٹ کے تراشے ہوئے "حادثاتی لیڈران” پختون قوم پرست سیاست کو بدنام کرتے چلے آرہے ہیں۔ اب ہمارے ہاں اگر سیاست کی بات کی جائے، تو فوراً ہمارے ذہنوں میں دھوکا دہی، چالاکی، دوسروں پر کیچڑ اُچھالنا، مخالفین کو کمتر اور نیچا دکھانا آجاتا ہے۔ اس دور میں جہاں سیاست میں دلائل و براہین کے بجائے گالم گلوچ، الزام تراشیوں کا رواج پروان چڑھا ہے، تو دوسری طرف کچھ ایسے بااخلاق اور باکردار سیاست دان آج بھی موجود ہیں، جو اخلاقیات کے دائرے میں رہ کر کسی غیر اخلاقی تنقید کا جواب ہو یا پارٹی موقف کا دفاع کرنا ہو، اخلاقیات کے دائرے میں رہ کرتے ہیں، جو کہ فی زمانہ جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ نثار باز بھی نپے تلے انداز میں سوشل میڈیا سمیت دیگر فلیٹ فارمز پر پختون سیاست اور پارٹی موقف کا بھر پور دفاع کرتے نظر آتے ہیں۔
قارئین، نثار باز ان خوبیوں کے ساتھ ساتھ ایک باذوق انسان بھی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آپ اپنی تقاریر میں بامقصد پشتو اشعار سنا کر سامعین کو محظوظ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کو سبق بھی دے کر جاتے ہیں۔ ان کا یہ خوب صورت لب و لہجہ اور مثبت رویہ نئی نسل اور پختون قومی سیاست کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہو سکتا ہے۔
اُن کے بقول: "اس پختون دھرتی اور سیاست کا خدمت میرا شوق ہی نہیں بلکہ میرا فرض ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ مجھ سے بے پناہ پیار اور محبت کرتے ہیں۔ محبتیں کبھی بھی یک طرفہ نہیں ہوتی اس لیے مجھے احساس ہے کہ میں صرف باجوڑ کے نہیں بلکہ خیبر پختون خوا کے ہر مظلوم کی آواز ہوں۔ کسی بھی سیاسی جماعت کے کارکن اگر اپنے کام اور خدمت کےلیے مجھے آواز دیں گے، تو مَیں لبیک کہتے ہوئے حاضر ہوں گا کیوں کہ خدمت کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔”
زمونگ خود سرہ منصور خیلو نسل نہ ورکیگی
مونگ دَ دارونو پہ سرونو کے سرونہ کرو
قارئین، نثار باز نے اس وقت اپنی انتخابی مہم کا باقاعدہ آغاز کیا ہے۔ گذشتہ روز ان کی ایک ویڈیو کلپ نظر سے گزری جس میں وہ نوجوانوں کو کہتے ہیں کہ: "یہ سرمایہ دار اور جاگیر دار جو آپ سے ووٹ لینے کےلیے آپ کو سبز باغ دکھاتے ہیں، یہ تو کھلی کچہری میں ایک معمولی افسر کے سامنے بات تک نہیں کرسکتے، تو آپ کی مسائل کےلیے اسلام آباد اور پشاور کے ایوانوں میں کیسے بات کریں گے…؟ کیا یہ لوگ اسمبلی میں پختون خوا وطن کے وسائل، میسینگ پرسنز، بد امنی، گذشتہ چار دہائیوں سے اس زمیں پر جاری دہشت گردی کے خلاف بات کرسکتے ہیں…؟ اگر نہیں، تو پھر آپ یہ گونگے کیوں پارلیمان بھیجتے ہیں…؟ یہ تو ہم غدار ہی ہیں کہ جان ہتھیلی پر رکھ کر ہر فورم پر پختون وطن اور قوم کے مسائل کے حل کے لیے سرگرداں ہیں۔ ہمارے پاس باجوڑ کے مسائل کے حل کےلیے 34 نکاتی فارمولا ہے۔ کیوں کہ ہم اس وطن سے پیار کرتے ہیں اور وطن سے پیار ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔”
دشمن تہ کہ ڈیر ناز دے د خپل جبر پہ دامونو
پہ ظلم پہ وحشت پہ زولنو پہ زنزی رونو
زمونگ د حق پرستو لیونو فیصلہ دا دہ
یا سر د تیغہ تیر او یا معراج د ارمانونو
یہ ضلع باجوڑ اور بالخصوص حلقہ PK-22 کے عوام کی خوش قسمتی ہے کہ ذاتی مفادات کی خاطر سیاست کرنے والوں کے بجائے نثار باز جیسے نڈر، بے باک اور مخلص شخصیت ان کی نمائندگی کے لیے میدان میں اترے ہیں۔ بقولِ شاعر!
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے شاہین کا جہاں اور
11 جولائی 2024ء کو ہونے والے ضمنی الیکشن میں اگر باجوڑ کے عوام نے نثار باز کو اپنی نمائندہ کے طور پر اسمبلی نہ بھیجا، تو یہ اپنے آپ اور حلقے سے زیادتی ہوگی۔ کیوں کہ آپ جیسے با صلاحیت اور باہمت لوگ قسمت والوں کو ہی ملتے ہیں۔
پختونہ ستا د درد قیصہ پہ ناز پورتہ کومہ
آواز پورتہ کومہ
پختون ومہ د بل پہ تور سنگسار شومہ پہ دار شوم
نا پوھہ وم اوخیار شوم
د گونگو ژبو آواز پہ بل انداز پورتہ کومہ
آواز پورتہ کومہ
د ظلم سیلئی ویستی دی سانگونہ لہ کونتری
اوس تلے نہ شی تر لرے
چی یوسی پہ ھر لورے دا پرے پرے وزرے
سلگئی سلگئی سندرے
دیدارہ اوس بہ امن لہ خپل باز پورتہ کومہ
آواز پورتہ کومہ
قارئین، سیاسی کردار وہ ہے جو شدید مخالفوں کو بھی تعریف کرنے پر مجبور کرے۔ نثار باز نے ہمیشہ سیاست اور نظریات سے بالا تر ہوکر ہر فورم پر تمام پختون قوم اور وطن کی نمائندگی کی ہے۔ امید ہے کہ اس بار باجوڑ کے عوام بھی سیاسی اور نظریاتی اختلاف سے بالا تر ہوکر قوم اور وطن کے ایک توانا آواز پارلیمان تک پہنچائیں گے۔ اس حوالے سے باجوڑ سے تعلق رکھنے والے پاکستان مسلم لیگ کے سرگرم کارکن میاں کبیر خان کی ایک پوسٹ نظر سے گزری جس میں وہ کہتے ہیں کہ: اگرچہ میرا تعلق مسلم لیگ سے ہے لیکن اس بار ہمیں (PK-22) کے عوام کو نثار باز کو سپورٹ کرنا چاہیے کیوں کہ موصوف ایک نڈر اور با صلاحیت سیاسی کارکن ہیں۔ ہم نے دیگر لوگوں کو کئی بار آزما لیا ہے لیکن اس بار نثار باز کو آزمائیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ ہمیں کبھی مایوس نہیں کریں گے۔”
رہبری فن وی او رہبر لکہ فن کار د ژوندون
داسی منصب پہ جوارگرو د سپارلو نہ وی
داسی منصب پہ جوارگرو د سپارلو نہ وی
قارئین، پختون وطن اور قوم کے ساتھ محبت کا ایسا جذبہ جو بہت کم لوگوں میں دیکھنے کو ملتا ہے، آپ ہی میں نظر آتا ہے۔ بلاشبہ نثار باز جہاں پختون قومی سیاست میں منفرد مقام رکھتے ہیں، وہیں اپنے حلقے کے عوام کے لیے ایک انمول ہیرا بھی ہیں۔ اس ہیرے کو پختون دھرتی کی ترقی کے لیے استعمال کرنا ہوگا۔ کیوں کہ ایسی شخصیات پختون قوم کا حقیقی اثاثہ ہیں، جو ذاتی مفادات کے بجائے محض اپنے دھرتی اور قوم کی ترقی کا جذبہ رکھتے ہیں۔
پختون قوم تو بقولِ رحمان بابا "چی زر خاوری کا رحمانہ هنر دا دے” ہی کے مصداق ہے۔ لیکن پھر بھی ربِ کائنات سے دست بہ دعا ہوں کہ اس الیکشن میں نثار باز جیسے بے باک شخصیت کو پختون قوم کی نمائندگی کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
يو لمحی لہ خو می خپل کڑہ شاسعودہ
لکہ وخت درنہ تیریگم ضائع کیگم
جاتے جاتے امام منظر کے ان اشعار پر اجازت طلب کرنا چاہوں گا کہ:
آواز د دی وطن د خاوری شوی شہیدانو
پہ سترگو کے تصویر د با جوڑ د یتیمانو
تار تار تنڑئی تنڑئی گریوان د وخت د ظالمانو
دا سوک دے چی سر نہ منی د زمکے د خدایانو
یو باز دے د کیمور د غر پہ ھسکو اوگو ناست دے
بالکل د مارگلے نہ دیخوا مہ رازئی کارغانو
ککڑ د باچا خان پہ گناہونو لیونے دے
خوبونہ ئی حرام کڑل د پنجاب د جنتیانو
د جبر پہ دربار کے د آدابو نہ منکر دے
غرور ئی سلامی کڑو د دی وخت د یزیدانو
راپورتہ شو د نری پختنی مور د جولئی نہ
بدرئی پسے روان شو شونڈی رپی د دیوانو
د توپی د ٹینکونو خلی دی زمکی تہ کگی شی
پہ خپو کے ورتہ ورغڑئی پیریانو ماماگانو
پہ شونڈو د اتیا کالو گونگے کپس ئی مات کڑو
پہ سوک ئی داڑی ماتی کڑی د خار د گیدڑانو
چی مونگ کرہ تیارہ وہ د فانوس رنڑا حرام شہ
د لاہور ہیرا منڈئی کے د بدن پہ دلالانو
روٹئی بہ د غٹ خیٹو د لاسونو نہ راکا گی
راپاسیدو سرخیل د دی وطن د مزدورانو
جنت گٹی د خپلو وسائلو خپل اولس تہ
د سر نہ ایری وسنڈئی راپاسئی دوزخیانو
بنیاد د دی وطن کہ د پختون پہ سینہ تیر دے
بیا چا غریبانان کڑئی سادگانو افغانانو
شملی د باچا خان تہ چرتہ نرہ پیغلہ گورم
خوشالہ مبارک شہ بنگڑی واچول نرانو
منظرہ! گل دروں کے یو زلمے غوندی آواز دے
میرویس د توری شڑنگ د ملالئی د بنگڑو ساز دے
دی غرونو کے دا چغہ د بل چا کلہ کیدے شی
یا باز دے یا گلالئی مور راوڑے نثار باز دے
__________________________
راقم کے اس تحریر کو آج یعنی 07 جو 2024ء بہ روزِ جمعہ کو روزنامہ آزادی سوات نے پہلی بار شرف قبولیت بخش کر شایع کروایا ہے۔ ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔