ہم اکثر اوقات یہ جملہ سنتے، بولتے اور پڑھتے ہیں کہ تاریخ سے ہم نے فقط یہ سیکھا کہ کچھ بھی نہیں سیکھا۔ مگر میں بہ صدِ احترام یہ کہنے کی جسارت کررہا ہوں کہ ویسے تو یہ بات پختونوں پر سو فی صد صادق آتی ہے کہ یہ دنیا کی واحد قوم ہے کہ آج تک اپنی تاریخ سے نہ کچھ سیکھا اور نہ ہی سیکھنے کی کوشش کی۔ سب سے افسوس ناک بات تو یہ ہے کہ اس قوم کی اکثریت آج تک اپنی اصل تاریخ سے بے خبر ہے۔
ظاہر ہے کہ جو قوم اپنی اصل تاریخ سے نابلد ہو تو پھر وہ کس سے اور کہاں سے کچھ سیکھے گی…؟ خصوصاً عصرِ حاضر میں پختونوں کی نئی نسل اول تو سوشل میڈیا میں اس قدر مشغول ہوچکی ہے کہ کوئی مضمون یا کتاب پڑھنا اور اس سے کچھ علم اور سبق حاصل کرنا اس کے لیے ممکن نہیں رہا اور جو پڑھے لکھے اعلا تعلیمِ یافتہ نوجوان ہیں انہیں بھی ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ملک کے رائج نصابِ تعلیم میں شامل مطالعہ پاکستان میں تحریکِ آزادی کے بارے میں وہ اسباق پڑھائے جارہے ہیں۔ جن کا اصل اور سچی تاریخ سے کوئی ٹھوس تعلق ہی نہیں بنتا۔ کیوں کہ اس تاریخ میں جھوٹ، شخصیت پرستی، مفاد پرستی اور مبالغے سے اس قدر کام لیا گیا ہے کہ اصل تاریخ کے چہرے پر پردہ ڈال دیا گیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پڑھے لکھے نوجوانوں کے اذہان میں تحریکِ آزادی کے حوالے سے اصل اور سچی تاریخ کے بالکل برعکس جو واقعات، شخصیات اور حالات بٹھا دیے گئے ہیں اور ان کی آنکھوں کو ایک “مخصوص رنگ” کی عینکیں پہنادی گئی ہیں، جس کی وجہ سے انہیں ہر چیز اسی رنگ میں رنگی نظر آتی ہے۔ کسی چیز کی اصل شکل و صورت اور رنگ آپ کو تب نظر آسکتا ہے جب آپ اپنے مخصوص رنگ کی عینکیں اتار کر کسی کو دیکھیں گے۔
جھوٹ پر مبنی تاریخ کے مقابل جب ہمارے بچے اور جوان اصل اور سچی تاریخ سنتے اور پڑھتے ہیں، تو کنفیوز ہوجاتے ہیں کہ “یا الہیٰ یہ ماجرا کیا ہے” اگرچہ اپنی اصل تاریخ سے شناسائی کے لیے جستجو کرنا گویا خود سے شناسائی حاصل کرنے کی طرف اہم قدم ہوتا ہے اور جو قوم اپنی اصل تاریخ سے بے خبر ہوتی یا اپنی تاریخ کو بھول جاتی ہے پھر تاریخ اسے کسی اور حوالے سے یاد رکھتی ہے۔
مشہور کہاوت ہے کہ “اگر تم اپنے ماضی کو پستول سے ماروگے، تو مستقبل تمہیں توپ کا نشانہ بنائے گا۔” اس حوالے سے تو پھر پختون قوم کا کوئی ثانی ہی نہیں ہوسکتا۔
جب تک اس قوم کے بارے میں خود تاریخ چیخ چیخ کر نہیں کَہ اُٹھتی اسے نہیں پکارتی کہ “اے غافل افغان” یہ قوم غافل ہی رہتی ہے۔ اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں کہ پختونوں نے اپنے ماضی اور تاریخ کو ان گنت گولیوں سے بارہا چھلنی کیا ہے، جو درجہ بالا کہاوت کے دوسرے حصے کا زندہ ثبوت ہے۔
بہر حال آتے ہیں اپنے اصل موضوع کی طرف جو خدائی خدمت گار تحریک کے بانی خان عبدالغفار خان المعروف باچاخان اور قائدِ اعظم محمد علی جناح کے مابین بہتر تعلق اور بعد میں اس تعلق کی کہانی سناتا ہے اور یہ بتاتا ہے کہ اس دوستی میں کس نے اور کیوں کر رنجشیں اور دوریاں پیدا کیں…؟
کس طرح اُس وقت کے ایک مخصوص ٹولے نے اپنے مفادات کے حصول کی خاطر دونوں عظیم محبِ وطن راہ نماؤں کے اچھے باہمی تعلق، رشتے اور راستے میں روڑے اٹکائے۔ دونوں کو ایک دوسرے سے دور رکھنے کی تدبیر کی ار خصوصاً نوزائیدہ ملک پاکستان کے پہلے گورنر جنرل قائدِ اعظم محمد علی جناح کے ذہن میں باچاخان، خدائی خدمت گار تحریک اور خدائی خدمت گاروں کے بارے میں بد اعتمادی، دوری اور بدگمانی پیدا کرنے کے لیے کن کن ہتھکنڈوں، ریشہ دوانیوں، سیاسی چالوں اور سازشوں سے کام لیا گیا۔
باقاعدہ ریاستی مشینری جس میں اُس وقت کے ایک مخصوص پرنٹ میڈیا گروپ نے بھی غیر جانب دار صحافت کے اصولوں کو پامال کرتے ہوئے وہی شائع کیا، وہی لکھا جو ایک مخصوص مفاداتی ٹولے کا مقصد اور ایجنڈا پورا کررہا تھا۔
باچاخان اور خدائی خدمت گار تحریک کو عوام کی نظروں میں گرانے، بدنام کرنے اور اسے ملک دشمن ثابت کرنے کے لیے کیا کیا حربے اور طریقے استعمال نہیں کیے گئے…؟ لوگوں سے کتنا جھوٹ بولا گیا، کیا کیا پروپیگنڈے نہیں کیے گئے…؟ باچاخان اور خدائی خدمت گار تحریک کو دیوار سے لگانے، اسے کم زور کرنے اور عوام کی نظروں میں گرانے، اسے کچلنے اور مٹانے کے لیے قیوم خان اور ان کے ہم پیالہ اور ہم نوالہ افراد نے اس تحریک کے چاہنے والوں دیوانوں پر ظلم و جبر کے جو پہاڑ توڑے۔ یہ شرم ناک باب ہماری اصل تاریخ کا وہ حصہ ہے جسے پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور سر شرم سے جھک جاتا ہے، مگر بقولِ شاعر:
لکھ لکھ کے میرا نام مٹائے گا کہاں تک
وہ مجھ کو زمانے سے چھپائے گا کہاں تک؟
گذشتہ دنوں میں نے خان عبدالقیوم خان کی لکھی ہوئی کتاب “Gold and Gun, the Pathan Frontiers”، جس کی اشاعت و تقسیم پر خود قیوم خان نے پابندی عائد کردی تھی، کا اُردو ترجمہ جو ملک کے معروف ادیب اور صحافی فاروق قریشی نے کیا ہے، کے بارے میں فیس بُک پر ایک پوسٹ لکھی، جسے پڑھنے کے بعد تاریخ سے لگاؤ رکھنے والے بہت سے ساتھیوں نے بذریعہ میسنجر اور واٹس اپ اس خواہش کا اظہار کیا کہ اس موضوع پر تفصیل سے لکھنا چاہیے تاکہ اصل حقائق سے قوم کے سامنے آئیں۔
سو اپنے ان چاہنے والوں کی شدید خواہش کو مد نظر رکھتے ہوئے اس تحریر میں صرف باچا خان اور محمد علی جناح کے بارے میں پیدا کردہ چیدہ چیدہ غلط فہمیوں اور انہیں ایک دوسرے سے دور رکھنے کی ریشہ دوانیوں تک محدود چند تاریخی واقعات آپ کے سامنے لانے کی ایک سعی ہے۔ اگر کوئی تاریخ کے طالب علم اور شوقین اس بارے میں مزید تفصیل سے جاننا چاہتا ہو، تو اسے مذکورہ کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔
ملاحظہ کریں اس کتاب کے ترجمے میں شامل فاروق قریشی کے مقدے سے ایک اقتباس، “23 فروری 1948ء کو باچا خان نے پاکستان کی پارلیمنٹ کے اجلاس میں پہلی مرتبہ شرکت کی۔ وہ چاہتے، تو ہندوستان کی آئین ساز اسمبلی کے حسبِ سابق رکن رہ سکتے تھے، لیکن انہوں نے پاکستان کی اسمبلی کا رکن رہنے کو ترجیح دی اور حلفِ وفا داری اٹھایا۔ اس پر بانی پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح بہت خوش ہوئے۔
انہوں نے باچا خان کو چائے پر مدعو کیا۔ دونوں عظیم راہ نماؤں میں ملکی مفادات کے بارے میں گفتگو ہوئی۔
ماضی کی شکر رنجیاں اور چشمک کا دور لد گیا۔ قائد اس حد تک مسرور تھے کہ انہوں نے باچا خان سے بلا تکلف کہا، “آج میرا پاکستان کا خواب پورا ہوگیا۔” باچا خان کا کہنا تھا کہ قائدِ اعظم بڑے تپاک اور گرم جوشی سے ملے اور انہوں نے مصافحہ کیا اور خلافِ معمول معانقہ بھی۔ وہ واپسی پر کار تک چھوڑنے آئے۔ اپنے ہاتھ سے دروازہ کھولا اور کار کی روانگی تک کھڑے رہے۔ قائدِ اعظم کے حسن اخلاق نے باچا خان کو بھی بہت متاثر کیا۔
اس ملاقات کی کام یابی اور اس پر خوشی کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ قائدِ اعظم نے مزید گفت وشنید کے لیے انہیں اگلے روز کھانے پر مدعو کیا۔ کھانے کے بعد قائدِ اعظم اور باچا خان کو ایک علاحدہ کمرے میں لے گئے جہاں ایک گھنٹے تک دونوں راہ نماؤں کے درمیان پاکستان کے مستقبل کے بارے میں بات چیت ہوئی۔
قائدِ اعظم نے باچا خان سے پوچھا، اب آپ کا کیا پروگرام ہے…؟ باچا خان نے کہا کہ اب آزادی حاصل ہوگئی ہے، مَیں خدائی خدمت گار تحریک کا پرانا اصلاحی پروگرام شروع کرنا چاہتا ہوں۔ باچا خان نے قائدِ اعظم کو خدائی خدمت گار تحریک کے اغراض و مقاصد بتائے اور واضح کیا کہ انگریزوں نے کس طرح اس سوشل تحریک کا رُخ سیاست کی طرف موڑا تھا۔
باچا خان کی باتیں سن کر قائدِ اعظم اپنی نشست سے بڑے پُرجوش انداز میں اٹھ کھڑے ہوئے اور خلافِ عادت باچا خان کو گلے سے لگاتے ہوئے کہا کہ “ایسے کام کے لیے میں ہر قسم کی مدد کروں گا۔” جس پر باچا خان نے جواب دیا کہ “مجھے صرف آپ کے اعتماد اور اخلاقی مدد کی ضرورت ہے۔” اس موقع پر قائدِ اعظم نے کہا کہ “میں ملک کا آئینی سربراہ ہوں۔ میری نظر میں سب جماعتیں یکساں حیثیت رکھتی ہیں۔” باچا خان نے قائدِ اعظم کو صوبہ سرحد کا دورہ کرنے کی دعوت دی۔ قائد نے بتایا کہ سرحد کا دورہ کرنے کا ان کا پروگرام ہے۔
جب وہ سرحد آئیں گے، تو خدائی خدمت گاروں کے ہیڈ کوارٹر (سردریاب) کا بھی دورہ کریں گے اور وہاں خدائی خدمت گاروں کے دیگر لیڈروں سے ملاقات کریں گے۔ نیز قائدِ اعظم نے باچا خان سے یہ بھی کہا کہ وہ چالیس ہزار چرخے بنوانے کا بندوبست کریں۔ کیوں کہ قائدِ اعظم تعمیری پروگرام کی ابتدا اپنے ہاتھ سے چرخہ چلا کر کرنا چاہتے تھے۔
اس ملاقات کے بعد پھر کیا ہوا ملک کی سیاسی فضاء میں ایک پُرامن اور خوش گوار صورت پیدا ہونے کے قوی امکانات صاف نظر آنے لگے۔ ایسے قوی امکانات جن کے رونما ہونے سے سازشوں، غلط فہمیوں، دوریوں، ریشہ دوانیوں کا خاتمہ اور نوزائیدہ ملک حقیقی معنوں میں آئینی، قانونی اور جمہوری خطوط پر استوار ہوکر آگے بڑھنے کا بہترین موقع میسر آتا۔ اور اسلام کے نام نہاد غم خواروں اور ہوس اقتدار کے بھوکوں کا راستہ روکنے کا بھی قوی امکان پیدا ہوتا۔
دونوں راہ نماؤں کی اس خوش گوار اور دوستانہ ماحول میں ہونے والی ملاقات سے سازشی ٹولے کے پیٹ میں مروڑ پیدا ہوگیا اسے اپنا مستقبل تاریک نظر آنے لگا۔ ایک تو ملاقاتوں سے فضاء خوش گوار ہوگئی تھی دوسرے 5 مارچ 1948ء کو پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی میں باچا خان کی تقریر سے ماحول مزید خوش گوار اور بہتر ہوگیا۔
اپنی تقریر میں باچا خان نے واضح الفاظ میں کہا، “بے شک میری رائے تھی کہ ہندوستان تقسیم نہیں ہونا چاہیے۔ میرے اختلاف کی وجہ وہ نتائج ہیں جو ہندوستان میں آج سامنے آرہے ہیں، ہزاروں نوجوان، بوڑھے، بچے اور عورتیں قتل ہورہی ہیں۔ لیکن اب ملک تقسیم ہوچکا ہے۔ ہمارا تنازع ختم ہوگیا ہے۔ میں نے پہلے بھی کہا تھا اور اس ایوان کے سامنے اعلان کرتا ہوں کہ مَیں اور میری جماعت ملک کی تعمیر اور ترقی کے لیے آپ کی ہدایت پر عمل کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہے۔” اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے باچا خان نے نوزائیدہ ملک پاکستان کے بارے میں اپنا تصور بیان کرتے ہوئے، “پاکستان کے بارے میں میرا تصور یہ ہے کہ یہ آزاد پاکستان ہو، یہ کسی خاص فرقے یا فرد کے زیرِ تسلط نہ ہو۔ پاکستان پر اس ملک کے باشندوں کا یکساں حق ہونا چاہیے۔ اس کے وسائل سے سب لطف اندوز ہوں اور چند لوگوں کو اس کا استحصال کرنے کا حق حاصل نہیں ہونا چاہیے۔ اس ملک پر اس کے عوام کی حکم رانی ہونی چاہیے۔”
پھر ہوا یوں کہ روزنامہ “پاکستان ٹائمز” نے قائدِ اعظم کے دورۂ سرحد کے موقع پر باچا خان سے ملاقات اور ان کی طرف سے ضیافت میں شامل ہونے کی خبر شائع کی۔ خبر کی تفصیل میں بتایا گیا تھا کہ قائدِ اعظم باچا خان کی خصوصی دعوت پر بذریعہ موٹر کار سردریاب جائیں گے، مگر بعض اخبارات کو اندرونِ خانہ اور زیرِ زمین سازشوں کا علم نہ ہوسکا اور سازشی ٹولے نے اپنا کام کر دکھایا اور گورنر جنرل کے دل میں طرح طرح کے وسوسے ڈالنے میں کام یاب ہوگئے۔
قائد کو بتایا گیا کہ اگر وہ خدائی خدمت گاروں کے ہیڈ کوارٹر سردریاب چلے گئے، تو انہیں جان سے مار دینے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ لہٰذا گورنر جنرل اُس وقت کے گورنر ڈانڈاس پریمیئر، قیوم خان اور دیگر ابن الوقتوں کے دام میں پھنس گئے اور سردریاب جانے سے انکار کردیا۔ انکار کے لیے عذر یہ تراشا گیا کہ گورنر جنرل نے سرکاری ضیافتوں کے علاوہ کسی بھی دیگر ضیافت میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔
ظاہر ہے یہ فیصلہ فوری اور ہنگامی طور پر کیا گیا تھا۔ اگر اس پر عمل ناگزیر تھا، تو بھی خدائی خدمت گاروں کی ضیافت کو اس سے مستثنیٰ اس وجہ سے ہونا چاہیے تھا کہ اس دعوت کو قائدِ اعظم مارچ میں قبل ازیں قبول کرچکے تھے، لیکن باچا خان کو شکایت تھی کہ گورنر جنرل نے قیامِ صوبہ سرحد کے دوران میں غیر سرکاری ضیافتوں میں تو شرکت کی مگر خدائی خدمت گاروں کو خدمت کرنے کا موقع نہ دیا۔
اگر چہ اس دورے میں گورنر جنرل نے مسلم لیگ کے جلسے میں بھی شرکت کرکے اپنی غیر جانب داری کو بری طرح مجروح کیا۔ کیوں کہ مسلم لیگ کے جلسۂ عام میں ان کی شرکت اپنے اس دعوے سے یکسر متصادم تھی، جس کا اظہار انہوں نے باچا خان سے ملاقات میں کیا تھا کہ “مَیں اب ملک کا گورنر جنرل ہوں میرے نزدیک سب جماعتیں یکساں ہیں اور میں سب کو ایک نظر سے دیکھتا ہوں۔” جلسۂ عام میں گورنر جنرل نے جن خیالات کا اظہار کیا اس سے واضح جانب داری جھلکتی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ ملک کے گورنر جنرل نہیں بلکہ مسلم لیگ کے مرکزی صدر ہیں۔ پہلے تو انہوں نے باچا خان کو ملاقات کے دوران میں مسلم لیگ میں شمولیت کی دعوت دی۔ اصولی طور پر یہ ان کے منصب اور مرتبہ کے سراسر منافی تھا۔
بعد میں جلسۂ عام میں عوام سے اپیل کی کہ وہ “مسلم لیگ کے جھنڈے تلے جمع ہوجائیں جیسا کہ وہ قیامِ پاکستان کے لیے جد و جہد کے وقت تھے۔ یہ مسلم لیگ ہی تھی جس نے صوبہ سرحد کو ہندو راج کے چنگل میں جانے سے روکا۔ آپ کیا سمجھتے ہیں آپ کی صحیح راہ نمائی مسلم لیگ کرسکتی ہے یا وہ لوگ جو ہمارے مخالف تھے۔
کیا انہیں پاکستان کی نگہداشت کرنا چاہیے یا ہمیں (بحوالہ پاکستان ٹائمز21 اپریل 1948ء) ملک کے پہلے گورنر جنرل، بابائے قوم اور بانی پاکستان کہلوانے والے کے ان خیالات اور عمل پر تبصرہ کرتے ہوئے فاروق قریشی رقمِ طراز ہیں: “قائد اعظم بے شک بابائے قوم تھے اور اب بھی ہیں، لیکن انہیں مسلم لیگ کے حق میں پروپیگنڈہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ علاوہ ازیں انہوں نے اختلاف رائے کا جمہوری حق استعمال کرنے والوں کے بارے میں جو رائے زنی کی وہ افسوس ناک ہی نہیں بلکہ جمہوری اقدار و روایات کے بھی سراسر منافی تھی۔ اس سے جمہوریت کے مستقبل کو شدید ٹھیس پہنچی۔
امید ہے پڑھنے والوں پر اب یہ حقیقت کھل گئی ہوگی کہ باچا خان اور محمد علی جناح ایک دوسرے کے بارے میں کیا رائے رکھتے تھے، ان کے مابین باہمی تعلق کیسا تھا، ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے کتنا احترام اور عزت تھی، کس نے اپنا وعدہ پورا کیا اور کس نے وعدہ خلافی کی…؟ اس بات کا فیصلہ میں آپ ہی پر چھوڑتا ہوں۔
قیامِ پاکستان کے بعد قائدِ اعظم محمد علی جناح اور ان کی ہمشیرہ مادرِ ملت فاطمہ جناح کے ساتھ اپنے ہی ارد گرد کے ٹولے نے کیا سلوک کیا۔ دونوں بہن بھائی کی موت کیسے واقع ہوئی…؟ اس قسم کے بہت سے سوالات سے اب پردہ اُٹھ گیا اور مزید بھی اُٹھے گا کہ تاریخ بڑی بے رحم ہوتی ہے یہ کسی کو بھی معاف نہیں کرتی۔
___________________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: