قارئین، پاکستان کی سیاسی تاریخ میں مولوی ابو القاسم فضل حق کا کردار ایک کیس سٹڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ موصوف کبھی ملک کے اہم ترین مناصب پر فایض رہے، تو کبھی غدار قرار پائے۔ تاریخِ پاکستان میں ان کی وفاداری کو کئی رنگوں میں پیش کیا گیا اور ان کے سیاسی سفر میں کئی موڑ ایسے ہیں جنہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ پاکستانی سیاست کی جوڑ توڑ آج بھی ویسی ہی ہے، جو قیامِ پاکستان کے وقت پر تھی۔
قارئین، 23 مارچ 1940ء کو قرار دادِ پاکستان پیش کرنے والے مولوی فضل حق کے سیاسی سفر کی کہانی بڑی دل چسپ ہے۔ 26 اکتوبر 1873ء کو بکر گنج (بنگال) میں پیدا ہونے والے مولوی فضل حق نے کلکتہ کے یونی ورسٹی لا کالج (Kolkata University Law College) سے قانون کی ڈگری حاصل کی اور وکالت کے پیشے سے وابستہ ہوئے۔
1909ء میں ڈپٹی مجسٹریٹ بنے اور 1912ء تک اس عہدے پر فایز رہے۔
قارئین، مولوی فضل حق 1906ء میں قایم ہونے والی آل انڈیا مسلم لیگ (All India Muslim League) کے بنیادی رُکن تھے اور 1912ء میں پہلی مرتبہ بنگال کی قانون ساز کونسل کے رُکن منتخب ہوئے اور اسی سال بنگال مسلم لیگ کے سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے۔
1935ء میں انھوں نے “کرشک پرجا پارٹی” کے نام سے ایک سیاسی جماعت تشکیل دی اور 1936ء میں مذکورہ پارٹی کی جانب سے بنگال اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے مگر فوراً ہی مسلم لیگ کے ساتھ اتحاد کر کے یکم اپریل 1937ء کو بنگال کے وزیرِ اعلا بن گئے۔
مارچ 1940ء کو انھیں آل انڈیا مسلم لیگ کے تاریخی اجلاس میں قرار دادِ پاکستان پیش کرنے کا اعزاز حاصل ہوا، جس کے بعد انہیں “شیرِ بنگال” کا خطاب ملا۔
چند ماہ بعد ہی وہ محمد علی جناح کی خواہش کے برخلاف وائس رائے (Vice Roy) ہند کی “نیشنل ڈیفنس کونسل” (National Defence Council) کے رکن بن گئے مگر جب بنگال کے عوام کے ساتھ ساتھ پورے ہندوستان کے مسلمانوں نے ان کے اس فیصلے پر احتجاج کیا اور انہیں مسلم لیگ سے نکالنے کا مطالبہ زور پکڑنے لگا، تو انہوں نے نیشنل ڈیفنس کونسل کی رکنیت سے استعفیٰ تو دے دیا لیکن ساتھ ہی یہ عہد کیا کہ میں بنگال کے سوا تین کروڑ مسلمانوں کے مفادات کو کسی باہر کی اتھارٹی کے تسلط میں نہیں آنے دوں گا چاہے وہ اتھارٹی کتنی ہی معروف و ممتاز کیوں نہ ہو۔ اس کے بعد وہ قائدِ اعظم محمد علی جناح کے شدید نقاد بن گئے۔ انہوں نے ایک اخبار “نوا یوگ” کے نام سے جاری کیا جس کا بظاہر کام “مسلم لیگ” کو بُرا بھلا کہنا تھا۔ قائدِ اعظم نے ان سے باز پرس کی، تو ان سے کوئی جواب نہ بن پڑا۔ بالآخر جماعت کے نظم و ضبط کو مقدم رکھتے ہوئے قائدِ اعظم نے ان کو مسلم لیگ سے نکال دیا۔ جس پر انہوں نے “شیاما پرشاد مکر جی” کے ساتھ مل کر اپنی وزارت قایم رکھنے کی کوشش کی مگر جلد ہی ان کے اتحاد میں دراڑ پڑ گئی اور یوں انہیں 29 مارچ 1943ء کو وزارتِ اعلا سے استعفیٰ دینا پڑا۔ ان کے بعد خواجہ ناظم الدین بنگال کے وزیرِ اعلا بن گئے۔
قارئین، 1946ء میں ہونے والے صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے بعد حسین سہروردی جب بنگال کے وزیرِ اعلا بنے، تو ان کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور 8 ستمبر 1946ء کو دوبارہ مسلم لیگ میں شامل ہوئے۔

بانیِ پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح، سابق وزیرِ اعظم نواب زادہ لیاقت علی خان اور مولوی فضل حق ایک تقریب میں بیٹھے ہیں۔
فوٹو؛ گوگل

1947ء میں قیامِ پاکستان کے بعد خواجہ ناظم الدین کو مشرقی بنگال کا وزیرِ اعلا منتخب کیا گیا۔ باوجود اس کے کہ اُس وقت وہ اسمبلی کے رکن بھی نہیں تھے۔ اصولاً یہ عہدہ حسین شہید سہروردی کو ملنا چاہیے تھا۔ چنانچہ خواجہ ناظم الدین کو ابتدا سے ہی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ حسین شہید سہروردی نے مولوی فضل حق کو اپنے ساتھ ملایا اور خواجہ ناظم الدین کی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہوگئے۔ شدید جوڑ توڑ کے بعد 25 جنوری 1948ء کو خواجہ ناظم الدین بلا مقابلہ اسمبلی کے رکن منتخب ہو گئے۔ خواجہ ناظم الدین کی یہ حکومت 11 ستمبر 1948ء تک جاری رہی۔
قارئین، پاکستان کے پہلے گورنر جنرل قائدِ اعظم محمد علی جناح کے انتقال کے بعد خواجہ ناظم الدین ان کی جگہ پاکستان کے گورنر جنرل بن گئے جب کہ نور الامین مشرقی بنگال کے وزیرِ اعلا منتخب ہو گئے۔ لیکن سہروردی اور فضل حق کی باہمی مخالفت کا سلسلہ بدستور جاری رہا۔
26 جولائی 1953ء کو مولوی ابو القاسم فضل حق نے ڈھاکہ میں ایک نئی سیاسی جماعت قایم کرنے کا اعلان کیا جس کا نام “کرشک سرامک” (کسان مزدور) پارٹی رکھا گیا۔ اس سیاسی جماعت کے بنیادی مقاصد میں اس صوبائی خود مختاری کا حصول سرِ فہرست تھا جس کا 1940ء کی قرار دادِ پاکستان میں (جو خود مولوی فضل حق نے پیش کی تھی) وعدہ کیا گیا تھا۔
29 جولائی 1953ء کو مولوی فضل حق نے کرشک سرامک پارٹی کے منشور کا اعلان کیا۔ جس کے مطابق یہ پارٹی مذہب اور زبان کی سیاست کی بجائے شہری آزادیوں کی جد و جہد پر یقین رکھتی ہے۔ لیکن آگے چل کر مذکورہ پارٹی نے مشرقی پاکستان کی مکمل خود مختاری اور بنگالی زبان کو پاکستان کی سرکاری زبان بنانے کا مطالبہ بھی اپنے مطالبات میں شامل کر لیا۔
4 دسمبر 1953ء کو مشرقی پاکستان میں ایک انتخابی اتحاد کا اعلان ہوا جسے “جگتو فرنٹ” کا نام دیا گیا۔ یہ اتحاد چار سیاسی جماعتوں یعنی عوامی لیگ، کرشک سرامک پارٹی، گن تنتری دل اور نظام اسلام پارٹی پر مشتمل تھا جن کے قایدین سہروردی، مولوی فضل حق، مولانا بھاشانی اور مولانا اطہر تھے۔
اس فرنٹ نے 1954ء میں منعقد ہونے والے انتخابات میں شرکت کے لیے 21 نکاتی منشور کا اعلان کیا۔ یہ منشور عوام کی خواہشات اور جذبات کا ترجمان تھا اور اس میں مکمل صوبائی خود مختاری، امتناعی نظر بندی کے قوانین کا مکمل خاتمہ، تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی، عدلیہ کی انتظامیہ سے علاحدگی، بنیادی حقوق کے تحفظ، اُردو کے ساتھ بنگلہ کو قومی زبان کا درجہ دینے اور اسی نوع کے دیگر مطالبات شامل تھے۔ اپنے اس منشور کی وجہ سے “جگتو فرنٹ” دیکھتے ہی دیکھتے مشرقی پاکستان (بنگال) کا مقبول ترین سیاسی اتحاد بن گیا۔
8 مارچ 1954ء کو مشرقی بنگال اسمبلی کے انتخابات ہوئے۔ ان انتخابات میں ایک جانب مسلم لیگ تھی، تو دوسری جانب جگتو فرنٹ (یونائیٹڈ فرنٹ یا متحدہ محاذ) تھا۔ انتخابات کے نتائج بڑے حیران کن تھے۔ مسلم لیگ کو 309 کے ایوان میں صرف 9 نشستوں پر کام یابی ملی تھی۔
اگر ایک آزاد رکن فضل القادر چودھری مسلم لیگ کی حمایت نہ کرتے، تو اسے پارلیمانی پارٹی کا درجہ بھی نہیں مل سکتا تھا کیوں کہ اس وقت پارلیمانی پارٹی بننے کے لیے کم از کم دس نشستوں کا ہونا ضروری تھا۔
سب سے بُرا حال مشرقی بنگال کے وزیر اعلا نور الامین کا تھا جنہیں ایک غیر معروف طالب علم راہ نما خالق نواز خان نے شکست سے دوچار کیا تھا۔
ان انتخابات نے واضح کر دیا کہ مشرقی بنگال کے عوام کن خطوط پر سوچ رہے ہیں۔ انتخابات کے بعد مولوی فضل حق، مشرقی بنگال کے وزیرِ اعلا بن گئے۔ انہوں نے 3 اپریل 1954ء کو اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔ اسی دن ان کی کابینہ کے تین وزراء ابو حسین سرکار، اشرف الدین چودھری اور عزیز الحق نے بھی اپنی عہدوں کے حلف اٹھا لیے۔
دو ماہ کے قلیل عرصے میں ہی ایسے کئی واقعات ہوئے جن کا سہارا لیتے ہوئے حکومت پاکستان نے 30 مئی 1954ء کو مشرقی بنگال کی نومنتخب اسمبلی کو توڑ دیا اور فضل حق کو غدار قرار دیتے ہوئے ان کی وزارت کو ختم کر کے وہاں گورنر راج کا اعلان کردیا۔
قارئین، مولوی فضل حق کی حکومت کو ختم کرنے کے لیے جن واقعات کو جواز بنایا گیا تھا ان میں سرِفہرست واقعہ یہ تھا کہ 23 مئی 1954ء کو نیویارک ٹائمز نے ان کا ایک انٹرویو شایع کیا جس میں ان سے یہ جملہ منسوب کیا گیا کہ مشرقی بنگال کی آزادی ان کی وزارت کا سب سے اہم مقصد ہے۔
اس سے قبل جب وہ کلکتہ گئے تھے، تو وہاں بھی ان سے یہ جملہ منسوب کیا گیا تھا کہ مشرقی اور مغربی بنگال کو آزادی حاصل کرکے متحد ہوجانا چاہیے۔ مگر قرار دادِ پاکستان کے محرک مولوی فضل حق نے واضح اور واشگاف الفاظ میں ان دونوں بیانات کی تردید کی اور کہا کہ یہ ان کی وزارت کو ختم کرنے کے لیے امریکہ کی سازش ہے۔
اس سے پہلے 15 مئی 1954ء کو نارائن گنج میں واقع آدم جی جوٹ ملز میں خون ریز فسادات ہوئے تھے جن کے نتیجے میں غیر بنگالیوں کے قتلِ عام کا بازار گرم ہو گیا اور دو دن میں سات سو کے لگ بھگ افراد قتل کر دیے گئے تھے۔ مشرقی بنگال میں گورنر راج کے قیام کے بعد میجر جنرل اسکندر مرزا نے گورنر کا عہدہ سنبھال لیا۔
میجر (ر) ایس جی جیلانی اپنی کتاب “پندرہ گورنر پندرہ کہانیاں” میں لکھتے ہیں کہ؛ ایک سال بعد اگست 1955ء میں فضل حق کو ایک مرتبہ پھر اپنی غلطیوں کا احساس ہوا۔ انہوں نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اظہارِ افسوس کیا اور ان تقریروں اور بیانات کے بارے میں جو ان سے منسوب تھے اور جن کی وجہ سے ان کی پاکستان سے وفا داری شک میں پڑ گئی تھی، اظہارِ افسوس کرتے ہوئے کہا کہ ہو سکتا ہے میں کسی بدقسمت لمحے میں جذبات میں بہہ کر اس طرح کی باتیں کہہ گیا ہوں گا جو مجھے ہرگز نہیں کہنی چاہیے تھیں۔” میجر جیلانی آگے لکھتے ہیں کہ “وہ اپنی سیاسی طاقت اور مؤثر پارٹی پوزیشن کی وجہ سے وہ مسلم لیگ سے اتحاد اور افہام و تفہیم کرنے میں کام یاب ہو گئے اور یوں ایک سابقہ غدار کو اگست 1955ء میں وزارتِ داخلہ کا قلم دان تفویض کردیا گیا۔ قسمت ان کا پورا پورا ساتھ دے رہی تھی، بعد ازاں 1956ء کے آئین کو آخری شکل دینے میں فضل حق نے نہایت اہم اور مثبت کردار ادا کیا۔ اب اعلا سرکاری سطح پر ہر جگہ ان کی جے جے ہو رہی تھی۔ چنانچہ ان کی ان خدمات کے پیشِ نظر انہیں مشرقی پاکستان کا گورنر مقرر کر دیا گیا۔”
9 مارچ 1956ء کو وہ اپنے اہلِ خانہ اور عملے کے ساتھ ڈھاکہ پہنچے، جہاں انہوں نے اسی روز اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا تھا۔ ابھی انہیں یہ منصب سنبھالے محض پانچ ماہ گزرے تھے کہ اگست 1956ء میں ان کے سب سے بڑے سیاسی حریف حسین شہید سہروردی پاکستان کے وزیرِ اعظم بن گئے۔ انہوں نے جس مرکزی وزارت کی تشکیل کی، اس میں عوامی لیگ اور ری پبلکن پارٹی کو مدغم کردیا گیا تھا۔
ان دونوں پارٹیوں کا اتحاد فضل حق کے لیے کسی عظیم دھچکے اور سانحے سے کسی طرح کم نہ تھا۔ وزارتِ عظمیٰ کے عہدے پر فایز ہوتے ہی سہروردی ایک دن کے ہنگامی دورے پر مشرقی بنگال کے، جو اب مشرقی پاکستان کہلانے لگا تھا، دورے پر آئے۔
فضل حق اگرچہ کم زور تھے، بیمار بھی تھے اور پریشان بھی، لیکن اس کے باوجود پروٹوکول کا لحاظ کرتے ہوئے وہ وزیرِ اعظم کا استقبال کرنے کے لیے ائیر پورٹ گئے اور پورا دن ان کے ساتھ رہے۔ چند ماہ بعد سہروردی دوبارہ مشرقی پاکستان آئے، تو فضل حق نے اس بار بھی ان کا حسبِ سابق استقبال کیا۔ مگر فضل حق زیادہ دیر تک سیاست سے لا تعلق نہ رہ سکے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ سہروردی کی عوامی لیگ، عوام کی حمایت کھو رہی ہے، تو انہوں نے مشرقی بنگال کے وزیرِ اعلا عطا الرحمان کے خلاف تحریکِ عدمِ اعتماد (Motion of no confidence) پیش کرنے کے لیے بھاگ دوڑ شروع کر دی۔
23 مارچ 1958ء کو اس تحریک پر ووٹنگ ہوئی، جس میں انہیں اکثریت سے کام یابی ملی۔ چند دن بعد 31 مارچ کو ابو حسین سرکار نے مشرقی پاکستان کے وزیرِ اعلا کے عہدے کا حلف اٹھا لیا۔ یہ صورتِ حال مرکز کو ہرگز قبول نہیں تھی۔ چنانچہ صدرِ مملکت نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے فضل حق کو گورنر کے عہدے سے معطل کر دیا اور ڈاکٹر اے ایم مالک کو صوبے کا نیا گورنر نام زد کر دیا۔
فضل حق کے عہدے سے ہٹنے کے بعد حمید علی نے صوبے کے قایم مقام گورنر کا عہدہ سنبھالا اور حلف اٹھاتے ہی عطا الرحمان کی وزارت کو بحال کر دیا۔ ابو حسین سرکار کی وزارتِ اعلا صرف چند گھنٹوں پر محیط رہی۔ محبِ وطن فضل حق ایک مرتبہ پھر غدار بن چکے تھے۔
اس کے بعد فضل حق نے عملی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ انہوں نے زندگی کے آخری برس ڈھاکہ میں کے ایم داس لین پر واقع اپنے گھر میں بسر کیے اور وہیں 27 اپریل 1962ء کو زندگی کی آخری سانسیں لیں۔ وہ مشرقی پاکستان ہائی کورٹ کے صحن میں حاجی خواجہ شہباز کی مسجد کے عقب میں سپردِ خاک کیے گئے جہاں ان کے بعد حسین شہید سہروردی اور خواجہ ناظم الدین بھی دفن ہوئے۔ اب اس مقام پر ایک خوب صورت مقبرہ تعمیر کر دیا گیا ہے۔
قارئین، حکومتِ پاکستان نے مولوی فضل حق کو ان کی زندگی میں ہی “ہلالِ پاکستان” کا اعزاز عطا کیا تھا۔ ان کی وفات کے بعد حکومت نے اسلام آباد کی ایک شاہراہ بھی ان کے نام سے منسوب کی اور 1990ء میں ان کی یاد میں ایک ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا۔
اس سے قبل ایسا ہی ایک ڈاک ٹکٹ 1980ء میں حکومتِ بنگلہ دیش بھی جاری کر چکی تھی۔ کل کا غدار اب دونوں ملکوں کا محبِ وطن بن چکا تھا۔
بشکریہ، بی بی سی (اُردو)
شیئرکریں: