اس وقت شمالی کوریا عالمی تنہائی کا شکار ہے۔ صدر کیم جونگ پر بھی شدید دباؤ ہے۔ کنگ جونگ نے عالمی تنہائی سے نکلنے کے لیے اپنی فطرت کے برعکس کورین جاسوسوں کو امریکا کے حوالے کیا جو امریکا کے لیے جاسوسی کررہے تھے۔ 2018ء میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے کےلیے کیم جونگ نے رابطے استوار کئے۔ صدر ٹرمپ بھی کیم جونگ کے قریب آئے، دونوں کے ملاقاتیں بھی ہوئیں۔ صدر ٹرمپ کیم جونگ سے خوش دکھائی دے رہا تھا۔ لیکن جب دونوں مذاکرات کے میز پر بیٹھ گئے، تو امریکا کا مطالبہ تھا کہ ایٹمی پلانٹ مکمل بند کرنا ہوگا لیکن کیم جونگ آہستہ آہستہ یہ سب کچھ کرنے کے خواہاں تھے۔ لیکن بظاہر ٹرمپ سے دوستی اور یہ مذاکرات ناکام ثابت ہوئی۔ کیم جونگ اتنا تنہا اور بیزار ہوا کہ اُسے ایک دن اپنے بچپن کی دوست “شو میکائیلو” یاد آگیا جن کا تعلق یورپ سے تھا۔ وہ دونوں سوئٹزرلینڈ میں ایک ہی سکول میں پڑھتے تھے۔ اکٹھے کھیل کود میں حصہ لیتے تھے۔ سگرٹ پیتے تھے۔ مستیاں کرتے تھے۔ کیم جونگ نے ان کو ڈھونڈنے اور اپنے پاس لانے کا حکم دیا۔ وہ ملنے کے لیے بے تاب تھا۔ “شو میکائیلو” کے مطابق ایک دن میں اپنے ریسٹورنٹ میں بیٹھا تھا کہ کچھ لوگ میرے پاس آئیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم کیم جونگ کے حکم پر آئے ہیں۔ کیم جونگ آپ سے ملنا چاہتا ہے۔ کیا آپ ہمارے ساتھ شمالی کوریا جا سکتے ہیں…؟ یہ میرے لیے حیرانگی والی بات تھی۔
شو میکائیلو تیار ہوا اور وہ شمالی کوریا پہنچ گیا۔ اس کے مطابق جب اُسے لے جایا جا رہا تھا، تو رات کے اندھیرے میں لے جایا گیا اور بہت لمبا راستہ مختلف گاڑیوں میں طے کیا۔ جب وہ پہنچا، تو کم جونگ ان کی استقبال کےلیے کھڑا تھا۔ وہ شو میکائیلو کے گلے ملے اور بار بار ان کا شکریہ ادا کرتے تھے کہ وہ اسے ملنے آئے۔ دونوں نے اکٹھے کھانا کھایا۔ پھر باسکٹ بال میچ کھیلنے لگے۔ شو میکائیلو نے کہا کہ سکول کے بعد میں نے بھی نہیں کھیلا ہے مجھے سکول کی یاد آئی۔ دونوں نے فلمیں دیکھی۔ پرانے یادوں پر بحث کی اور ہنسی مذاق کی۔ کیم جونگ نے میکائیلو کے کام کاج کے بارے میں دریافت کیا۔
کیم جونگ بار بار میکائیلو سے پوچھ رہا تھا کہ جوانی کہاں گزار دی، کیا کررہے تھے…؟ کیم جونگ نے خود کے خواہش پر خصوصی کورین کھانا آرڈر کیا تھا۔ وہ تشویش میں تھا کہ شاید میکائیلو کو کورین کھانا پسند نہیں آئے گا۔
میکائیلو نے کیم جونگ سے کہا کہ کیا میں سگریٹ پی سکتا ہوں؟ کیم جونگ نے کہا کیوں نہیں ساتھ میں شروع کیا تھا ساتھ میں ہی ختم کریں گے۔ شو میکائیلو کے مطابق کیم جونگ عالمی تنہائی کی وجہ سے شدید ذہنی تناؤ میں تھا۔
قارئین، برسرِ آمدم اس طویل کہانی سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ کیم جونگ شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہوا تھا۔ ان کے ہاں تمام حکومتی مراعات اور ان کے ارد گرد ہزاروں لوگ موجود تھے۔ لیکن عالمی تنہائی اور پابندیوں کی وجہ سے وہ خود کو تنہا محسوس کررہے تھے۔
حالاں کہ انہوں نے ٹرمپ کے ساتھ بھی دوستانہ تعلقات قائم کرنے کی ایک کوشش کی لیکن دونوں ممالک کے مفادات کے خاطر یہ تعلق قائم نہ ہوسکا۔ اسی طرح ایران بھی عالمی تنہائی اور پابندیوں کا شکار ہوا۔ ایران کے رویے اور پراکسی جنگ (Proxy War) سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ ایران بھی اس وقت شدید ذہنی تناؤ کا شکار ہے۔ امریکا بھی ایران کے اس ذہنی تناؤ سے فایده اٹھا رہی ہے۔ جس سے ایران کم زور سے کم زور بنتا جارہا ہے۔ ابھی حال ہی میں اسرائیل فلسطین جنگ میں ایران کا کردار تمام مسلم ممالک سے یکسر مختلف ہے جس سے ایران کے اندر حکومتی ایوانوں میں اور عوام میں شدید بے چینی پھیل رہی ہے۔
________________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: